بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں مسلسل کئی حملوں کے بعد ضلع نارائن پور کے سینکڑوں مسیحی افراد نے گرجا گھروں اور اسٹیڈیمز میں پناہ لے رکھی ہے
مسیحی برادری کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ گذشتہ اتوار کو کم از کم چودہ گاؤں میں قبائلی مسیحیوں پر منظم طریقے سے حملے کیے گئے۔ متعدد گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر لوگوں پر پُرتشدد حملے کیے گئے ہیں
کرن پور گاؤں کی ایک خاتون نے بتایا ”پچھلے کئی روز سے پینے کے پانی کی سپلائی بند کر دی گئی ہے اور ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر ہم نے مسیحی مذہب چھوڑ کر قبائلی یا ہندو مذہب قبول نہ کیا تو ہماری زمین کی ملکیت ختم کر دی جائے گی۔“
سینکڑوں مسیحی قبائلیوں نے کلیکٹوریٹ کے سامنے مظاہرہ کیا ہے اور دھرنے دیے ہیں۔ جبکہ ’چھتیس گڑھ کرسچن فورم‘ نے نارائن پور کی ضلعی انتظامیہ کو دی گئی ایک درخواست میں مسیحی قبائلیوں پر حملے کرنے اور ان کے گھر اور عبادت گاہیں تباہ کرنے والے انتہا پسند ہندوؤں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے
فورم کا کہنا کہ موڈینگا، کونکیرا، چیرنگ اور ٹیمرو گاؤں میں مسیحی برادری کو مارنے پیٹنے کے بعد بہت سے لوگوں کو گاؤں سے نکال دیا گیا ہے
چھتیس گڑھ کرسچن فورم کے سربراہ ارون پننا لال نے بتایا ”گذشتہ اکتوبر سے جگہ جگہ حملے ہو رہے ہیں۔ ’سرو آدی واسی سماج‘ نامی ایک دائیں بازو کی تنظیم بنائی گئی، جسے بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور حزب اختلاف کانگریس دونوں کی حمایت حاصل ہے۔“
ان کے مطابق دونوں ہی جماعتیں ’ہندو ووٹ‘ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس تنظیم کی پس پشت حمایت کر رہی ہیں
واضح رہے کہ چھتیس گڑھ ریاست میں کانگریس بر سر اقتدار ہے۔ ارون پننا لال کا کہنا ہے کہ ’سرو آدی واسی سماج‘ نامی تنظیم کے لوگ گاؤں میں عام سبھا لگاتے ہیں اور شدت پسند ماؤ وادیوں کے طرز پر میٹنگ کرتے ہیں، جن میں مسیحیوں کو چھوٹے معاملوں کا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور وہیں پر انہیں مارا پیٹا جاتا ہے
انہوں نے بتایا ”وہ کہتے ہیں ہمارے دھرم میں آ جاؤ، نہیں تو تمہیں اسی طرح ماریں گے۔ یہ ہر اتوار کو کہیں نہ کہیں ہوتا ہے“
ارون پننا لال کا کہنا ہے ”16 دسمبر کو بائیس گاؤں میں اسی طرح کی عام سبھا یا میٹنگ ہوئی تھی، جس میں 18 دسمبر، اتوار کے روز مسیحیوں پر حملے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ہمیں اس کی خبر مل گئی تھی۔ ہم نے اس کی باقاعدہ تحریری شکایت درج کرائی۔ 18 دسمبر کو بہت پُرتشدد حملے ہوئے، جہاں پولیس پہنچی وہاں ان کے ساتھ بھی مار پیٹ کی گئی۔ ان حملوں میں بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں“
اس حوالے سے نارائن پور کے سپرینٹنڈنٹ سدانند کمار سے جب معاملے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا
دوسری جانب دلی کے مسیحی شہریوں نے اپنی برادری کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف دارالحکوت میں واقع ریاستی حکومت کے چھتیس گڑھ ہاؤس کے سامنے جمعے کو احتجاج کیا
سرو آدی واسی سماج کا الزام ہے کہ ’مسیحی مشنریز ریاست کے بھولے بھالے قبائلی لوگوں کو ورغلا کر اور پیسے وغیرہ کی لالچ دے کر ان کا مذہب تبدیل کرا رہی ہے۔‘
بھارت میں 1950ع کی مردم شماری کے مطابق اس وقت ملک میں مسیحی آبادی تین فی صد تھی، جو 2011ع میں گھٹ کر دو اعشاریہ دو پر آگئی ہے
اسی طرح چھتیس گڑھ میں مسیحیوں کی آبادی دو اعشاریہ 28 تھی، جو 2011 میں گھٹ کر ایک اعشاریہ 92 پر آگئی ہے
چھتیس گڑھ میں قبائلی مسیحیوں اور دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کے درمیان کشیدگی تو کئی مہینے سے چل رہی ہے، لیکن پچھلے کچھ برسوں میں مسیحی برادری کے سب سے بڑے تہوار کرسمس کے دوران ملک کی کئی ریاستوں میں مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے کے واقعات میں شدت دیکھی گئی ہے
اس مہینے کے وسط میں دارالحکوت دلی کے علاقے بوراری کے ایک رہائشی علاقے میں ایک گھر میں بعض مسیحی شہریوں نے ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ مکان کی مالکن نے ان کے خلاف مذہب تبدیلی کا الزام لگایا، جس کے بعد مقامی باشندوں نے انہیں گھیر لیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔ پولیس کی مداخت کے بعد معاملہ رفع دفع ہو گیا اور کوئی کیس درج نہیں کیا گیا
لکھنؤ پولیس نے بھی پڑوسی ضلع سیتاپور میں دو مسیحی مبلغوں کو تبدیلی مذہب کا لالچ دینے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ ایڈیشنل ایس پی نریندر پرتاپ سنگھ نے بتایا کہ گاؤں والوں نے اجتماع کے مقام کو گھیر لیا تھا
ان کا الزام تھا کہ یہ لوگ مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں چار برازیلین شہری بھی تھے۔ انہیں فوراً ملک سے باہر بھیجنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جبکہ لکھنؤ کے دو مبلغ ڈیوڈ استھانہ اور ان کی اہلیہ روہنی ڈیوڈ کو گرفتار کر لیا گیا ہے
یاد رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں مذہبی آزادیوں کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی تھی۔ رپورٹ میں جن ملکوں کو ’خصوصی تشویش‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا، ان میں برما، چین، کیوبا، ایریٹریا، ایران، نکاراگوا، ڈی پی کے آر، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، اور ترکمانستان شامل تھے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں بھارت کو شامل نہیں کیا گیا
رپورٹ جاری کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ اینٹی بلنکن نے کہا تھا کہ آج بھی دنیا بھر میں مذھب اور عقیدے کی بنیاد پر حکومتیں اور غیر سرکاری عناصر لوگوں کو ہراساں کرنے، دھمکیاں دینے، قید کرنے اور یہاں تک کہ ہلاک کرنے جیسے رویے جاری رکھے ہوئے ہیں
اس ضمن میں، انہوں نے کہا کہ کچھ ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں سیاسی فائدے کے لیے لوگوں کی مذہبی یا عقیدے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے مواقع تلاش کیے جاتے ہیں
ان کا کہنا تھا ”اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں تقسیم کے بیج بوئے جاتے ہیں، معاشی سلامتی کو نقصان پہنچتا ہے اور اس سے سیاسی استحکام اور امن کو خطرہ لاحق ہوتا ہے“
بلنکن نے کہا ”جب اس طرح کی حرکات جاری ہوں تو امریکہ ان پر خاموش نہیں رہ سکتا“
دوسری جانب، بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت ’خاص تشویش والے ملکوں‘ کی اپنی تازہ نامزدگی میں بھارت کو شامل نہ کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”محکمہ خارجہ کی جانب سے نائیجیریا یابھارت کو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی کرنے والوں کے طور پر تسلیم کرنے میں ناکامی کا کوئی جواز نہیں ہے، کیونکہ وہ واضح طور پر ’خاص تشویش والے ملکوں‘ کے لیے نامزدگی کے قانونی معیارات پر پورا اترتے ہیں“