ایک طوائف کی داستانِ حیات، جو نفسیاتی علاج کے دوران آرٹسٹ بن گئیں

ویب ڈیسک

آرورا کرسینو ڈوس سینٹوس، ایک ایسی آرٹسٹ تھیں، جو اپنے مخصوص اور جداگانہ انداز میں دو سو سے زیادہ پینٹنگز بنانے کے بعد بھی کوئی خاص شناخت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں

ان کی زندگی میں انہیں دو ہی باتوں کی وجہ سے جانا جاتا رہا: ایک طوائف ہونے کی وجہ سے اور دوسرا ان کی نفسیاتی بیماری کی وجہ سے

انہوں نے یہ تمام پینٹنگز بھی ایک نفسیاتی علاج کے ہسپتال میں بنائی تھیں، جہاں وہ شیزوفرینیا اور آٹزم سمیت دیگر نفسیاتی بیماریوں کی تشخیص کے بعد اپنا علاج کرا رہی تھیں

لیکن اب آرورا کو بالآخر ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے پہچان مل رہی ہے، جس کی وجہ ریو ڈی جنیریو کی پونٹیفیکل کیتھولک یونیورسٹی میں تاریخ کی طالب علم سلوانا جیہا اور فیڈرل یونیورسٹی آف ریو ڈی جنیریو میں انسٹیٹیوٹ آف سائیکالوجی کے پروفیسر جوئیل برمین کی تحقیق پر مبنی شائع ہونے والی کتاب ہے، جس میں انہوں نے آرورا کی درجنوں پینٹنگز شامل کی ہیں

اس کتاب کا نام ’آرورا: میموریز اینڈ ڈیلوزنز آف اے وومین آف لائف‘ ہے، جس میں معاشرتی روایات کو چیلنج کیا ہے

اس کتاب کی شریک مصنفہ جیہا کا کہتی ہیں ”طوائفوں کو ہمیشہ سے ہی قاتلوں، منشیات اسمگلرز اور چوروں کے ساتھ ایک کیٹگری میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔۔ یہ ایک بڑے مسئلے کا حصہ ہے، ان خواتین کے خلاف جو اپنے جسم کی آزادی کی دعویدار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے قتل کیا ہو، چوری کی ہو، کسی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی ہو“

کتاب کے دوسرے مصنف پروفیسر برمین کا کہنا ہے ”آرورا کا کیس ہر اس فرد کی کہانی ہے، جسے عدالتی نظام سے انصاف نہیں مل سکا“

آرورا کی کہانی

آرورا کرسینو ڈوس سینٹوس 1896ع میں ساؤ پاولو، برازیل میں پیدا ہوئی تھیں، جن کے والد کا چھوٹا سا کاروبار تھا۔ انہوں نے آرورا کی مرضی کے بغیر زبردستی اس کی شادی کر دی تاہم یہ رشتہ چوبیس گھنٹے بھی نہیں چل سکا۔ شادی کے اگلے ہی دن نوجوان آرورا نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا“

1910ع سے 1930ع کے بیس برس وہ ساؤ پاولو اور ریو ڈی جنیریو کی گلیوں میں ایک طوائف کے طور پر مشہور ہوئیں۔ اپنے پیشے سے پیسہ کما کر آروتا نے یورپ کا سفر کیا۔ وہ صرف تیسری جماعت تک ہی پڑھ سکی تھیں، لیکن وہ ادب، کلاسیکی موسیقی اور آرٹس سے شغف رکھتی تھیں

کہا جاتا ہے کہ پینٹنگ کرنے کے علاوہ وہ پیانو بجانا بھی جانتی تھیں اور اپنے زمانے کے بڑے فنکاروں سے اس کا رابطہ رہا تاہم یہ روابط ہر وقت مفید نہیں ہوتے تھے

1919 میں ایک صحافی نے جب ان سے زبردستی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی، تو آرورا نے اسے دھتکار دیا، جس پر یہ صحافی ان پر حملہ آور ہوا۔ اس نے آرورا کے بال کھینچے، کپڑے پھاڑ دیے اور ان کے ہونٹوں کو کاٹا۔ ایک دوست نے آرورا کو اس حملے سے بچایا تو انہوں نے صحافی کے خلاف مقامی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی، تاہم مقدمہ آگے نہیں بڑھا

برازیل میں اس وقت 1890ع کا پینل کوڈ نافذ تھا، جس کے تحت خواتین سے ریپ کے جرم میں چھ سال قید کی سزا ہو سکتی تھی تاہم اگر متاثرہ فرد طوائف ہو تو سزا دو سال سے زیادہ نہیں ہوتی تھی

اس کیس کے نتائج سے آرورا کو اتنی مایوسی ہوئی کہ ان کی زندگی بدل گئی

1932 میں برازیل میں ایک نئے آئین کے لیے مسلح بغاوت ہو رہی تھی، جو حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی تھی

آرورا نے ساؤ پاولو میں ایک نرسنگ کورس میں داخلہ لے لیا تاکہ وہ زخمی سپاہیوں کو طبی مدد فراہم کر سکیں

کچھ عرصہ آرورا نے گھروں میں کام بھی کیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چلا۔ پیسے کی محتاجی نے انہیں سڑک پر لا کھڑا کیا۔ اس زمانے میں وہ گلیوں میں ہی سویا کرتی تھیں۔ پھر انہیں ایک نفسیاتی سینٹر میں دخل کروا دیا گیا

1941ع میں آرورا ساؤ پاولو کے نفسیاتی ہسپتال میں داخل ہو گئیں۔ تین سال بعد انہیں ساؤ پاولو سے ستائیس کلومیٹر دور جوکوئیری ہسپتال میں داخل کرایا گیا

یہاں ماہرِ نفسیات اوسوریو سیزر موجود تھے، جن کو برازیل میں ’آرٹ کے ذریعے علاج‘ کا مؤجد مانا جاتا ہے۔ تقریباً ایک دہائی تک آروڑا نے اپنے سارے درد آئل پینٹ کی مدد سے کینوس پر اتار دیے

برمین کا ماننا ہے کہ آرٹ نے نفسیاتی مریضوں کی مدد کی۔ وہ کہتے ہیں ”یہ ایسی تکنیک تھی، جو مریضوں کو اپنے جذبات کی ترجمانی کا موقع فراہم کرتی تھی، وہ اندر کے تنازعات کا اظہار کر سکتے تھے، اپنا درد بتا سکتے تھے۔ اس تکنیک کی بنیاد یہ تھی کہ آرٹ انسانی ارتقا کا اہم حصہ ہے اور نفسیاتی مسائل کی صورت میں اتنا ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے“

وہ بتاتے ہیں آروڑا نے چند صلاحیتیں پیدا کر لیں اور اپنے اندر کے ٹیلنٹ کو پہچان لیا

اذیت کی منظر کشی

اوسوریو سیزر نے 1949ع میں ایک اسٹوڈیو کھولا، جس سے ’جوکوئیری فرو اسکول آف پلاسٹک آرٹس‘ نے جنم لیا

اوسوریو ایک کمیونسٹ تھے، جنہوں نے بائیں بازو کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ کام کیا۔ آرٹ اور پاگل پن کے درمیان تعلق پر تحقیق کرنے والے وہ پہلے شخص تھے۔ اپنی تحقیق کو انہوں نے کتاب، مضامین اور دیگر اشکال میں دنیا تک پہنچایا

1950ع میں آرورا کی پینٹنگز کو بھی پہلی بار ایک نمائش میں دکھایا گیا۔ اوسوریو ان کی چند پینٹنگز کو فرانس میں انٹرنیشنل سائیکوپیتھالوجیکل آرٹ نمائش میں لے گئے

ان تصاویر میں رنگ نمایاں ہیں، جن میں تحریر اور تصویر کا ایک غیر معمولی امتزاج نظر آتا ہے۔ آرورا کی لکھائی گاڑھی ہے اور ان کے بڑے حروف عام طور پر انسانی اشکال میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں

ان کی تصاویر میں دنیا بھر کے ادیبوں اور مصنفین کے کام کا حوالہ بھی موجود ہے، جن میں اناٹولے فرانس، امیلی زولا، الیگذینڈر ہرکولانو، کمپوزر لڈوگ بیٹ ہوون اور فروڈرک چوپن۔۔۔ یورپی بادشاہ، پوپ، اور برازیل کے سیاستدان بھی نظر آتے ہیں

جیہا کا ماننا ہے کہ یہ آرورا کے اصلی یا تخیلاتی ماضی کی دھندلی تصاویر ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کیا حقیقت ہے اور کیا افسانہ، لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ آرورا ہمیں بیسویں صدی کی عورت کی حالت بتا رہی ہیں۔ وہ صنفی امتیاز، صنفی تشدد اور دیگر مسائل کی نشاندہی کر رہی ہیں، جن پر اب بات چیت ہو رہی ہے“

آرورا کا زیادہ کام نفسیاتی ادارے میں ان کی زندگی کے بارے میں تھا۔ چند تصاویر میں اس ادارے کی بربریت اور پیشہ ورانہ زندگی کی پرانی یادوں کی آمیزش بھی نظر آتی ہے

ایک پینٹنگ میں ساؤ پاولو کے ایک ہوٹل میں آرورا نے ایک برازیلین موسیقار کے ساتھ میلے بستر پر سیکس کی منظر کشی کی، جبکہ ایک ڈاکٹر کونے میں کھڑا ان کو دیکھ رہا ہے

تصویر میں موجود عورت کے جسم میں بڑی تاریں پیوستہ ہیں، جو ایک بڑے حجم کے ریڈیو جیسے آلے میں مختلف رنگ کے لیمپ جلاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ مشین ان کے اندرونی اعضا کو الگ کر رہی ہے

برمین کا کہنا ہے ”اس تصویر میں جسم پر ہونے والی اذیت کی منظر کشی کی گئی ہے۔ انہوں نے اس زمانے میں ظالمانہ نفسیاتی علاج کے دوران اپنی جسمانی پرائیویسی کی دھجیاں بکھیرے جانے کو دکھایا ہے لیکن یہ ایک ایسی عورت تھی، جس نے کبھی بھی ظلم برداشت نہیں کیا“

آرورا تریسٹھ برس کی عمر میں سنہ 1959ع میں انتقال کر گئیں۔ ان پر اس سے قبل مختلف طرح کے علاج آزمائے گئے تھے، جن کے دوران ان کو بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور ایسی ادویات کے انجیکشن لگائے گئے، جن سے جسم کو جھٹکے پڑتے تھے

ایسے طریقوں سے پہنچنے والا درد اور جسمانی اذیت، ان کی تصاویر میں جھلکتا ہے

ایک تصویر میں ان کو ایک اسٹریچر پر دیکھا جا سکتا ہے جس پر تحریر ہے کہ ’ادھیڑ عمر عورتوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے۔ کوکین، بیماریاں، ٹی بی۔ ہمیں یہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، دوسروں کو نہیں۔‘

اس ظالمانہ نفسیاتی علاج کی آرورا ہی شکار نہیں تھیں۔
جیہا کا کہنا ہے ”ان کی پینٹنگز ایک نجی ڈائری کی طرح ہیں، جس میں ایسی باتیں لکھی جاتی ہیں جو ہم کسی سے کہہ نہیں سکتے“

ان کا کہنا ہے ”میرا ماننا ہے کہ آروڑا نے اس ضمیر کی ترجمانی کی جب ہزاروں خواتین کو علاج کے نام پر قید کیا گیا“

ایک ماں کا درد

آرورا کی تصاویر میں ایک جانب چرچ کے نمائندوں پر تنقید کی گئی تو دوسری جانب ایسی تصاویر کی منظر کشی بھی کی گئی، جن میں سے ایک میں چہرے پر مسکراہٹ لیے ایک راہب ایک بچے کے اسکرٹ میں ہاتھ ڈال رہا ہے، جس کے منہ سے خون بہتا دکھائی دیتا ہے

ان تصاویر میں مامتا کی خواہش کا اظہار بھی نظر آتا ہے۔ ایک تصویر میں آرورا کو پیدائش کے عمل کے دوران دکھایا گیا ہے، جس میں بچہ ضائع ہوتا ہے

پاولو فریلیٹی ایک ماہر نفسیات تھے، جنہوں نے 1954ع میں کہا کہ ’ایک بار ہمارے سامنے اس نے اپنی برہنہ تصویر بنائی، جس میں اس نے دکھایا کہ اس نے نو بچے پیدا کیے۔‘

اس تصویر کا جیہا پر کافی اثر ہوا۔ وہ کہتی ہیں ”مجھے اپنا بیٹا یاد آ گیا۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے، جس سے اپنائیت جھلکتی ہے۔ ماں کا درد اس سے بہتر طریقے سے بتانا ناممکن ہے“

جیہا کا کہنا ہے ”پاگل پن ایک ایسی کیفیت ہے، جسے خواتین سے منسلک کیا جاتا ہے۔ جب لوگ ہماری تذلیل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے عام لفظ کیا ہے جو استعمال کیا جاتا ہے؟ پاگل۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close