اس طرح کے واقعات سے مینونی نے دو نتائج نکالے۔ ایک تو محکوم مقامی لوگوں کا احساس کمتری اور دوسرے اس سے جڑی دوسروں پر انحصار کرنے کی عادت (dependency) ۔ محکوم کو اگر کچھ تحفے میں ملے تو آئندہ وہ اس کی فرمائش داغ دیتا ہے اور یہ فرمائش بتدریج استعمار پر انحصار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ محکوم کے بارے میں مینونی بہت جرات سے بہت حیران کن نتائج تک پہنچا ہے۔ اس کے خیال میں استعماریت کس معاشرے اور کن لوگوں پر اپنا قبضہ جما سکتی ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کون سے لوگ احساس کمتری اور دوسروں پر انحصار کرنے کی لاشعوری عادت کے مالک ہیں۔ یہ کم و بیش وہی نتائج ہیں جن تک مالک بن نبی پہنچا تھا
فینون نے اپنی تنقید میں مینونی کے بارے میں کہا ہے کہ وہ مسائل کی تہ تک نہیں پہنچ سکا اور اس کا یہ خیال غلط ہے کہ محکوم میں موجود احساس کمتری اس میں استعماریت سے پہلے موجود تھا۔ اس نے سفید فام مینونی پر یہ تنقید بھی کی کہ وہ نسل پرستی کو نہیں سمجھ سکا۔ فینون کی اصل تنقید مینونی پر یہ ہے کہ مینونی استعماریت کا ”معروضی“ مطالعہ کرتا ہے جبکہ استعماریت کا مطالعہ محکوم کے نقطۂ نظر سے، خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر کیا جائے تو اس انسانی صورت حال کا بہتر اور مکمل مطالعہ اور تجزیہ ممکن ہے۔ یاد رہے کہ اس کتاب کے شروع ہی میں فینون نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ”ایک محکوم کیا چاہتا ہے“ ۔ اسی لیے اس کی نظر میں یورپ کی سفید فام تحلیل نفسی محکومین کا مطالعہ کرنے سے قاصر ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ 1920ء میں ہندوستانی ماہر تحلیل نفسی گریندرو شیکھر بوس اسی نتیجے پر فینون سے پہلے پہنچ چکا تھا اور ایک خط میں فرائیڈ کو نہ صرف اس بات سے آگاہ کر چکا تھا بلکہ فرائیڈ نے اس کی بات کو تسلیم بھی کر لیا تھا۔ (Hartnack، 1990)
مینونی استعماریت کو نسل پرستی کا ذمہ دار نہیں سمجھتا جبکہ فینون کے مطابق پورا یورپ نسل پرست ہے۔ مینونی نسل پرستی کو غلبے سے جوڑتا ہے۔ اس کے خیال میں غالب قوتیں مغلوب گروہوں کو نسل پرستانہ رویے کا نشانہ بناتی ہیں۔ فینون اختلاف کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کی مثال دیتا ہے جہاں سفید فام اقلیت میں تھے مگر نسل پرستانہ رویوں کا نشانہ وہاں کی اکثریتی سیاہ فام آبادی تھی۔ مینونی کے مطابق ”استعماری استحصال اور نسل پرستی ایک عام استحصال اور عام نسل پرستانہ نظام سے مختلف ہیں“ ۔ (Mannoni، 1956۔ p۔ 27 ) فینون اس کے جواب میں سیزارے کا ایک پیرا نقل کرتا ہے ”جب میں ریڈیو پر سنتا ہوں کہ امریکہ میں ایک نیگرو کو مار ڈالا گیا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ ہمیں غلط بتایا گیا ہے کہ ہٹلر مر گیا۔ جب میں ریڈیو پر سنتا ہوں کہ یہودی اب بھی توہین، عدم اعتماد اور سخت سزاؤں کا نشانہ بنائے جاتے ہیں مجھے لگتا ہے کہ ہمیں غلط بتایا گیا کہ ہٹلر مر گیا۔ جب میں ریڈیو پر سنتا ہوں کہ افریقہ میں جبری مشقت آج بھی جاری ہے تو مجھے لگتا ہے ہمیں غلط بتایا گیا کہ ہٹلر مر گیا“ ۔ (Fanon، 1967۔ p۔ 66)
مینونی پر فینون کی تنقید پر بہت سے ماہرین نے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ مینونی اور فینون کا مفصل اور تقابلی مطالعہ بہت دلچسپ نتائج تک پہنچا سکتا ہے۔ تاہم مینونی پر فینون کی تنقید پر سردست اتنا کہنا مناسب ہو گا کہ استعماریت کا مینونی نے ایک سفید فام مگر ایک ہمدرد اور دیانتدار ماہر تحلیل نفسی کی حیثیت سے ایک معروضی مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ فینون استعماریت کا مطالعہ محکوم کے نقطۂ نظر سے کرنا چاہتا ہے لہٰذا ان دونوں کا مختلف نتائج پر پہنچنا لازمی تھا
فینون مینونی پر لاکان کے اثرات کو بھی نشانہ بناتا ہے۔ مینونی کے مطابق جب سفید فام لوگ میڈغاسکر پہنچے تب مقامی لوگوں کو اپنے انسان ہونے کے بارے میں علم ہوا۔ یہ بات لاکان کے نظریات کے مینونی پر گہرے اثرات کا پتا دیتی ہے۔ لاکان کے مطابق ”غیر“ کے بغیر فرد کی اپنی شناخت ممکن نہیں ہے۔ فینون کے مطابق استعماریت سے پہلے مقامی لوگوں میں اپنی ایک انتہائی مربوط اور مضبوط شناخت کا تصور موجود تھا جو ہر طرح کے احساس کمتری سے خالی تھا مگر استعماریت نے ان میں اپنے کمترہونے کا احساس پیدا کر دیا۔ فینون نے اسی باب میں نسل پرستی کے پھیلاؤ کے حوالے سے ایک انتہائی لطیف اشارہ بھی کیا ہے۔ اس نے یہودیوں کے بارے میں موجود نفرت کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ نفرت امراء غریبوں میں پھیلاتے ہیں کیوں کہ انھیں اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ فینون کی اس بات کو ہم آج مختلف اقلیتی گروہوں کی جانب پھیلائی جانے والی نفرت اور عناد کے حوالے سے واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ فینون کی اس تنقید نے استعماریت کا مطالعہ کرنے والوں پر مینونی کا ایک منفی تاثر چھوڑا ہے جس کی وجہ سے استعماریت کے نفسیاتی مطالعے میں اسے وہ مقام نہیں ملا جس کا وہ بجا طور پر مستحق تھا۔ خود فینون نے بھی اس کے صرف ان نظریات کا ذکر کیا ہے جو لائق تنقید تھے۔ مینونی کی کتاب میں ان قابل تنقید باتوں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کہا گیا ہے جو فینون نے نظر انداز کیا ہے۔ محکوم کے جس احساس کمتری کے اسباب کو فینون نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس احساس کمتری کو سب سے پہلے مینونی نے ہی شناخت کیا تھا۔ نفسیاتی تجزیے میں جتنا اہم کسی نفسیاتی مظہر کے اسباب ڈھونڈنا ہوتا ہے اس سے زیادہ اہم اور مقدم اس مظہر کی شناخت ہوتی ہے۔ یہ شناخت ہی ہے جس کے بعد مختلف ماہرین مختلف مکاتیب فکر میں اپنی تربیت اور وابستگی کے نتیجے میں ان نفسیاتی مظاہر کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ فینون کا اعتراض بنیادی طور پر اس مکتبہ فکر پر ہے جس کے نظریات کو مینونی نے اپنے تجزیے میں استعمال کیا ہے۔ محکومین کے جن نفسیاتی مسائل کو مینونی نے سب سے پہلے شناخت کیا تھا اس کا کریڈٹ اسے بہرطور ملنا چاہیے۔ جہاں تک اس نفسیاتی مکتبہ فکر کا تعلق ہے جس کو مینونی نے اپنے تجزیے میں استعمال کیا ہے تو وہ لاکان کی تحلیل نفسی ہے۔ خود فینون نے اپنے تجزیے میں فرائیڈ سے زیادہ لاکان پر انحصارکیا ہے
اس کتاب کے پانچویں باب ”سیاہ فامی کی حقیقت“ کا ایک جملہ فینون کے مشہور ترین جملوں میں سے ایک ہے۔ ٹرین میں سفر کے دوران ایک سفید فام بچہ فینون کو دیکھ کر اپنی ماں سے لپٹ گیا اور پھر سہم کر کہنے لگا ”ماں وہ دیکھو، ایک نیگرو“ ۔ گو یہ ایک بچے کی زبان سے ادا ہونے والا ایک جملہ ہے مگر ایک سفید فام بچے کا یہ جملہ سفید فام کا سیاہ فام کی جانب روا رکھے جانے والے پورے رویے کا عکاس ہے۔ یہ جملہ سن کر فینون نے ایک تلخ مسکراہٹ سے بچے کی طرف دیکھا۔ ”ماں دیکھو ایک نیگرو، مجھے ڈر لگ رہا ہے“ جلد کی رنگت نے بچے کو ڈرا دیا ہے مگر یہ صرف جلد کی رنگت نہیں ہے جس نے بچے میں یہ خوف پیدا کیا ہے۔ اس کے پیچھے بڑے بڑے نابغے ہیں، ان کے نظریات ہیں، ان کی بیان کردہ کہانیاں ہیں، تاریخ ہے، تاریخ لکھنے کا فن ہے۔ سیاہ فام کی جلد سے حیوانیت، بے تہذیبی اور ذہانت کی کمی جوڑ دی گئی ہے۔ جبکہ سفید فام کی جلد سے انسانیت، تہذیبی اقدار اور اعلیٰ ذہانت وابستہ کی گئی ہے۔ بچہ پھر چلاتا ہے ”ماں دیکھو، ایک نیگرو“ ماں فینون سے مخاطب ہو کر کہتی ہے ”بچے کو نظر انداز کریں، جناب۔ یہ نہیں جانتا کہ آپ تو ہماری طرح تہذیب یافتہ ہیں“ ۔ فینون نسل پرستی کی دو اقسام کی طرف یہاں اشارہ کرتا ہے۔ ایک بچے کی نسل پرستی اور دوسری اس کی ماں کی نسل پرستی۔ ”ماں یہ نیگرو مجھے کھا جائے گا“ ماں بچے کو تسلی دیتی ہے۔ ”دیکھو یہ نیگرو کتنا ہینڈسم ہے“ فینون جہاں بچے کے خوف سے خوفزدہ ہو جاتا ہے وہیں وہ ماں کی دی گئی تسلی پر غصہ محسوس کرتا ہے۔ اپنے جذبات میں یہ تضاد فینون کو اپنی سیاہ فامی کے اعتراف اور اس پر اصرار کرنے پر اکساتا ہے۔ یعنی ایک ”سیاہ فام“ جیسے اسے لوگ دیکھتے ہیں اور ایک ”انسان“ جیسے وہ خود کو محسوس کرتا ہے۔ اپنی سیاہ فامی کا اعتراف اور اس پر اصرار فینون کو ان سیاہ فام افراد سے الگ کر دیتا ہے جن کا ذکر اس نے اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے باب میں کیا ہے
سیاہ فامی کی بنیاد پر ہونے والے سلوک کا کیا ہٹلر کی یہود دشمن تحریک ( Anti۔ Semitism) سے موازنہ ممکن ہے؟ فینون سختی سے اس موازنے کے امکانات کو رد کرتا ہے۔ ایک یہودی ہو سکتا ہے یہودی نظر آنے سے بچ جائے۔ ایک سفید فام یہودی عمومی حقارت سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے تاوقتیکہ کوئی اس کے مذہب کے بارے میں نہ جان لے کہ وہ یہودی ہے۔ لیکن ایک سیاہ فام کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ سیاہ فام نظر آتا ہے
فرانسیسی فلسفی ژاں پال سارتر کی مشہور کتاب یہود دشمن اور یہودی (Anti۔ semite and Jew) کا حوالہ دیتے ہوئے وہ سارتر سے بہت واضح اختلاف کرتا ہے۔ اپنی کتاب میں سارتر نے کہا تھا کہ یہودیوں کو جن منفی خصائص سے متصف کیا گیا تھا یہودیوں نے اپنے رویوں سے خود کو ان منفی اوصاف کا حامل ثابت کیا۔ (Sartre، 1944۔ p۔ 68 ) گو فینون نے سارتر کی اس بات سے شدید اختلاف کیا لیکن یہ بات مسلمانوں کے بارے میں حالیہ وقتوں میں بالکل درست ثابت ہوئی۔ سارتر کے جواب میں فینون اپنی بات دہراتا ہے کہ یہودیوں کے لیے نفرت، حقارت اور ایذارسانی سے بچنا ممکن تھا مگر سیاہ فام افراد کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔ جب استعمار اس کو کم انسان، کم تہذیب یافتہ، اور کم ذہین ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اپنے ردعمل میں ایک سیاہ فام ایک یہودی کی نسبت زیادہ مجبور اور محدود ہوتا ہے۔ اس لیے ایک سیاہ فام کا ناپسندیدہ ردعمل ایک یہودی کی نسبت ziada قابل گرفت اور لائق تنقید hota ہے۔ ایک سیاہ فام کی یہ پوزیشن جہاں وہ اپنے کسی بھی رویے اور حکمت عملی کی ذمہ داری لینے سے انکار کرتا ہے یقیناً محل نظر ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنے کے لائق ہے کہ فینون ان سیاہ فام افراد پر تنقید کرتا ہے جو سفید فام بننے کی سعی ناکام کرتے ہیں اور سیاہ فام رہنے پر اصرار نہیں کرتے۔ لیکن وہاں بھی اس رویے کی تمام تر ذمہ داری وہ سفید فام استعماریت پر ہی ڈالتا ہے۔ یہاں فینون کی اپنی ذات پر ایک سوال کا اٹھنا لازمی ہے اور وہ یہ کہ وہ کون سے عوامل تھے جنھوں نے سیاہ فام افراد میں فینون اور سیزارے جیسے افراد کو جنم دیا۔ اور یہ عمل فرد کے اندرون میں جنم لیتے ہیں یا بیرون میں؟ بیرون سے ان عوامل کی پیدائش کو فینون خود ہی رد کر دیتا ہے کیونکہ سفید فام استعمار، فینون اور سیزارے کے شعوری جنم میں سدراہ ہے۔ اگر فینون اور سیزارے جیسے لوگ اپنی اندرونی تحریک سے اپنی سیاہ فامی کی حیثیت اور حقیقت کو پا سکتے ہیں تو دوسرے اور تیسرے باب میں زیر بحث آنے والے سیاہ فام افراد ایسا کیوں نہیں کر سکے
نسل (Race) اور نسل پرستی (Racism) پر فینون کی ستر سال قبل لکھی گئی تحریر کو آج سمجھنے کے لیے بہت سے حقائق کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ ان ستر سالوں میں دنیا نے نسل پرستی کے حوالے سے بہت کچھ دیکھا اور سیکھا ہے۔ جنوبی افریقہ سے نسل پرست اقتدار کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ افریقہ سے نسل پرست استعمار رخصت ہو چکا۔ یعنی استعمار اور نسل پرستی کا جو تعلق فینون ستر سال پہلے دیکھ اور بھگت رہا تھا وہ تعلق اس بہیمانہ انداز میں باقی نہیں رہا۔ لیکن امریکہ میں چلنے والی تحریک black lives matter اور اس سے قبل سفید فام افراد کی انتہائی منظم اور پرتشدد کارروائیاں دوبارہ فینون، ایمے سیزارے، اور لیوپولڈ سینغر جیسے مصنفین کا نسل پرستی کی موجودگی پر اصرار یاد دلاتیdilata hay ہیں اور یہ بتاتیbatata ہے کہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی سفید فام افراد کا دیگر نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب رویہ اور تعصب تاحال برقرار ہے۔ گو سفید فام اکثریت رکھنے والے مختلف ملکوں میں اس تعصب کی نوعیت اور شدت مختلف ہے مگر یہ موجود بہرطور ہے۔ لیکن ایک بات ثابت نہیں ہوتی کہ نسل پرستی کا تعلق استعماریت سے آج بھی اسی طرح برقرارہے جیسا فینون نے دیکھا، بھگتا اور بیان کیا ہے۔ نسل پرستی اور استعماریت کے تعلق پر آج ایک اور دلچسپ نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے اگر ہم تفصیل سے فینون ہی کے ہم عصر ان ایرانی دانشوروں کو دیکھیں جو1950ء کی دہائی کے آخر اور1960ء کی دہائی کے آغاز میں شاہ ایران کے خلاف سیاسی جدوجہد میں مصروف تھے۔ جو مثال بہت وضاحت کے ساتھ دی جا سکتی ہے وہ جلال آل احمد کی ہے۔ وہ اپنی کتاب Occidentosis: A Plague from the West میں فینون jaisay منظم تجزیے تو نہیں کرتا مگر صورت حال کے بارے میں اس کی تشخیص کم و بیش متماثل ہے۔ (Ahmad، 1984 ) ۔ جو بات آل احمد کوفینون کی صورت حال سے مختلف کرتی ہے وہ یہ کہ آل احمد کو جس استعماریت کا سامنا تھا وہ باہر (یعنی مغرب) سے مدد تو حاصل کر رہی تھی مگر بیرونی نہیں تھی۔ اور دوسرے وہ استعماریت اپنے نسلی پس منظر میں بھی محکوموں سے مختلف نہیں تھی۔ استعماریت اور نسل پرستی کا تعلق آج شاید اس صورت میں ثابت ہو سکے اگر ہم استعماریت کی نئی تعریف کریں اور یہ مان لیں کہ آج استعماریت aik bairooni حکومت کے علاوہ دیگر گروہ بھی مسلط کر سکتے ہیں
اس باب میں فینون کا یہ اصرار بھی محل نظر ہے کہ نسل پرستی کو صرف ایک سیاہ فام ہی سمجھ سکتا ہے۔ سفید فام اکثریتی ممالک میں نسل پرستی کے خلاف بننے والے قوانین اور ان قوانین کا اطلاق فینون کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے۔ تاہم اسی سب کے درمیان مختلف سفید فام معاشروں میں بڑھتا ہوا جوہریت (essentialism) کا رجحان کیا شکل اختیار کرتا ہے، یہ آنے والا کل بتائے گا مگر نظر آنے والے آثار سے آج یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس کا منبع نسل پرستی کا عفریت نہیں ہوگا
استعماریت کا مطالعہ آج صرف سیاسی جدوجہد ( activism) کا موضوع نہیں ہے بلکہ علم کا ایک مکمل شعبہ ہے۔ استعماریت کا نفسیاتی مطالعہ اس شعبے کا اہم جزو ہے اور (جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے ) مینونی اس شعبے کا بانی ہے۔ فینون کی اس کتاب کا چھٹا باب ”نیگرو اور نفسیاتی مسائل“ استعماریت کے مطالعے کے اعتبار سے شاید اس کتاب کا اہم ترین حصہ ہے۔ اس باب میں فینون کے نظریات آج بھی استعماریت کے نفسیاتی مطالعے کی سمت متعین کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں
فینون نے اس باب میں سگمنڈ فرائڈ کی فکر تحلیل نفسی کو استعماریت کے مطالعے کے لیے افادیت پر سوال اٹھایا ہے۔ یہ اس کتاب کا طویل ترین باب ہے۔ اس میں مینونی کی کتاب کا حوالہ بھی ایک جگہ موجود ہے۔ تاہم یہ طے کرنا مشکل ہے کہ فینون کا یہ ردعمل تحلیل نفسی کے اس استعمال پر ہے جو مینونی نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے جو فینون کی اس کتاب سے پہلے شائع ہو چکی تھی۔ بہرصورت تحلیل نفسی کے استعماریت کے مطالعے میں استعمال پر فینون کے نظریات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ تحلیل نفسی اور استعماریت کا مطالعہ گو ایک مستقل موضوع ہے اور یہ تحریر شاید اس قدر تفصیل کی متحمل نہ ہو پائے۔ تاہم فینون کے نظریات کا اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں
فینون نے شروع ہی میں تحلیل نفسی کی آفاقی حیثیت پر ایک بہت ہی وقیع سوال اٹھا دیا ہے۔ فرائیڈ کی خواہش یہ تھی کہ اس کے نظریات دنیا بھر کے انسانوں کے نفسیاتی تجزیے کے لیے استعمال کے قابل ہو سکیں۔ 1927ءمیں ماہر تحلیل نفسی اور ماہر بشریات میلی نووسکی ( Bronislaw Malinovsky) کی کتاب Sex and Repression in Savage Society شائع ہوئی (ہمارے سامنے اس کتاب کا2002ء میں شائع ہونے والا ایڈیشن ہے ) اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی فینون کی اس کتاب سے کئی سال پہلے 1937ء میں شائع ہو چکا تھا۔ فینون نے اس باب میں میلی نووسکی کے نظریات کا حوالہ بھی دیا ہے مگر یہ حوالہ بہت ہی سرسری سا ہے۔ حالانکہ فرائیڈ کے نظریات پر میلی نووسکی کی تنقید بھی مدرسری معاشروں میں خاندان کی مختلف ساخت کے حوالے سے تھی۔ فینون نے بھی افریقہ میں خاندان کی ساخت کو یورپ سے مختلف قرار دے کر تحلیل نفسی کو صرف یورپ کے لیے قابل اطلاق قرار دیا ہے۔ یہی بات بہت ہی وضاحت اور وسعت کے ساتھ ایڈورڈ سعید ( 2003، Said) نے بیان کی ہے
فینون کی تحلیل نفسی پر کی گئی تنقید کو دیکھنے سے پہلے یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ فینون کا استعماریت کا نفسیاتی تجزیہ اپنی اصل میں تحلیل نفسی کی کھڑی کی گئی نظری عمارت پر استوار ہے۔ فینون کے سارے کام میں تحلیل نفسی کے علاوہ کسی اورنفسیاتی مکتبہ فکر کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ اس کی غالباً سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ تحلیل نفسی کے بعد کرداریت (Behaviourism) کے پیش کیے گئے نظریات فینون کی کوئی مدد کرنے سے قاصر تھے۔ گو اس نے بلائڈا اہسپتال میں کرداری طریقہ علاج ( Behaviour Therapy) کو استعمال کیا۔ (Bulhan، p۔ 290 ) مگر استعماریت کے نفسیاتی تجزیے کے لیے فینون اپنے کام میں فرائیڈ، ژنگ، ایڈلر، اینا فرائڈ اور لاکان جیسے تحلیل نفسی کے بڑے نظریہ سازوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس کتاب کے تعارف میں ضیاء الدین سردار نے فینون کے تجزیے کو استعماریت کی تحلیل نفسی قرار دیا ہے۔ اسی استدلال کو بعد ازاں ہندوستان کے ماہر نفسیات اشیش نندی نے اپنی کتاب The Intimate Enemy میں آگے بڑھایا ہے۔ خود فینون نے اس کتاب کے تعارف میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ”مجھے یقین ہے کہ صرف تحلیل نفسی پر مبنی تجزیہ ہی سیاہ فام کے احساس کمتری کو سمجھنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے“ (جاری ہے)
بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)
-
فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (1)
-
فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (3)