بھارت میں کسانوں نے احتجاج سے دستبردار ہونے اور جھکنے کے بجائے، مودی سرکار کے متعارف کرائے گئے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف اپنے احتجاج میں مزید شدت پیدا کرنے کا اعلان کر دیا ہے
اس ضمن میں ملنے والی اطلاعات کے مطابق بھارت میں مودی سرکار کی متنازعہ زرعی پالیسیو ں کے خلاف کسانوں کا احتجاج فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ بھارتی حکومت اور کسانوں کے نمائندوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا ایک اور دور بھی ناکام ہو گیا ہے، جس کے بعد کسانوں نے احتجاج میں شدت لانے کا اعلان کر دیا ہے
بھارتی ذرائع ابلاغ میں شایع ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ کسان رہنماؤں نے 14 دسمبر سے بھوک ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے، جب کہ بھارت بھر کے ہزاروں کسانوں نے اتوار سے ’’دہلی چلو‘‘ تحریک شروع کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے
بھارت کے مختلف ریاستوں سے احتجاج میں شامل ہونے والے قافلوں اور مظاہروں کی بڑھتی ہوئی شدت سے بھارتی حکومت خوف زدہ دکھائی دیتی ہے، جس کے بعد انتظامیہ نے دارالحکومت دہلی کے داخلی راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی ہے جب کہ دہلی میں پہلے سے موجود دھرنے پر بیٹھے کسانوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے
دوسری جانب زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے اور کسانوں نے ریاست اترپردیش کی ہائی ویز کے ٹول پلازوں کا کنٹرول سنبھال کر گاڑیوں سے ٹیکس کی وصولی کا عمل معطل کر دیا ہے۔ جب کہ دہلی سے جے پور اور آگرہ جانے والی ہائی وے کو بھی ٹریکٹر کھڑے کر کے بند کر دیا گیا ہے
واضح رہے کہ بھارت میں درجنوں کسان یونین اور ان کے ہزاروں نمائندے مودی سرکاری کی جانب سے راتوں رات منظور کیے گئے زرعی ترمیمی بلوں کی منظوری کے خلاف گزشتہ تین ہفتوں سے دہلی کے اندر اور نواح میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار اپنے سرمایہ کار دوستوں اور پشت پناہوں کو نوازنے کے لیے ایسے زرعی قوانین لائی ہے جن سے چھوٹے کسان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا
دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ان کسانوں سے اظہار یکجہتی کیا گیا ہے جن میں برطانیہ اور کینیڈا بھی شامل ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے کسانوں کی حمایت میں باقاعدہ بیان بھی جاری کیا جسے بھارتی حکومت نے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تاہم جسٹن ٹروڈو کسانوں کی حمایت کے اپنے موقف پر قائم ہیں
ایسی صورت حال میں کسانوں کے احتجاجی تحریک سے بھارتی حکومت نہ صرف اندرونی طور پر دباؤ کا شکار ہے، بلکہ اسے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے.