بھارت: بیٹی کی نازیبا وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی شکایت پر ایک فوجی ’لنچنگ‘ کی بھینٹ چڑھ گیا

ویب ڈیسک

یہ دردناک کہانی ایک نو عمر لڑکی کی ہے، جس نے سوشل میڈیا پر ایک نوجوان سے دوستی کی مگر اس نوجوان نے اس لڑکی کی فحش وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔ اس کے بعد اس کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے نوعمر لڑکی سے زندگی کے تمام خواب چھین لیے

نو عمر لڑکی نے دکھ اور مایوسی کے ساتھ کہا ”میں دسویں کلاس میں پڑھتی ہوں۔ میں اچھے نتائج حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کر رہی تھی۔ میں نرس بننا چاہتا تھی، لیکن اب مجھے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں مزید تعلیم حاصل نہ کر سکوں۔ میں نے دوست بنائے ہیں مگر اس کا نتیجہ اب میرے سامنے ہے۔ میں نے اپنے والد کو کھو دیا، جسے میں زندگی بھر کبھی نہیں بھول سکوں گی“

ایک نو عمر کے لیے یہ سارا تجربہ کسی صدمے سے کم نہیں۔ وہ اپنے آپ سے پوچھ رہی ہیں کہ میں نے تو صرف دوستی کی تھی، میرا کیا قصور تھا کہ میں نے اپنے والد کو کھو دیا، میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟

یہ واقعہ 24 دسمبر کی رات دس بجے احمد آباد شہر سے متصل کھیڑا ضلع کے چکلاسی گاؤں میں پیش آیا

اٹھائیس برس سے بی ایس ایف میں خدمات انجام دینے والے میلجی بھائی واگھیلا کو جب راجستھان کے باڑمیر ٹرانسفر کیا گیا، تو وہ پندرہ دن کی چھٹی لے کر اپنے گاؤں واپس آ گئے۔ اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی کی ایک وڈیو وائرل ہوئی ہے، جس پر انہوں نے لڑکے کے گھر جا کر احتجاج کیا

پولیس کا کہنا ہے کہ بارڈر سکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) سے تعلق رکھنے والے جوان میلجی بھائی واگھیلا اپنی بچی کی بعض قابل اعتراض تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے خلاف اس لڑکے کے گھر گئے تھے، جس نے مبینہ طور پر اسکول کی طالبہ کی بعض قابل اعتراض تصویریں شیئر کی تھیں

نوعمر لڑکی بتاتی ہیں ”میرا پاسورڈ لڑکے کے پاس تھا۔ مجھے بلیک میل کیا گیا اور ملاقات کا وقت مانگا گیا اور پھر تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دیں“

بھارت کی مغربی ریاست گجرات میں پولیس نے ایک فوجی کو پیٹ کر ہلاک کرنے کے الزام میں سات افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس شکایت کے مطابق میلجی واگھیلا پر اس وقت حملہ کیا گیا جب انہوں نے اپنی نوعمر بیٹی کی وڈیو آن لائن پوسٹ کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا

شکایت میں کہا گیا ہے کہ وڈیو اپلوڈ ہونے کے بعد وائرل ہو گئی۔ مبینہ حملہ آور ایک نوعمر لڑکے کے خاندان کے افراد ہیں، جن پر میلاجی واگھیلا نے وڈیو اپلوڈ کرنے کا الزام عائد کیا تھا

میلجی کی اہلیہ اور بیٹا بھی اس حملے میں زخمی ہوئے ہیں۔ متاثرہ شخص بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کے ملازم تھے

پولیس شکایت میلجی واگھیلا کی بیوی منجولا کی طرف سے درج کرائی گئی تھی۔ یہ حملہ ہفتے کی رات گجرات کے کھیڑا ضلع میں ہوا۔میلاجی واگھیلا، ان کی بیوی، دو بیٹے اور بھتیجا نوجوان لڑکے کے گھر گئے تھے اور ان کے خلاف مبینہ طور پر لڑکی کی وڈیو اپلوڈ کرنے کی شکایت کی تھی

پولیس شکایت کے مطابق اس دوران بحث بڑھتے بڑھتے لڑائی تک پہنچ گئی اور لڑکے کے رشتہ داروں نے میلاجی واگھیلا اور ان کے خاندان پر ڈنڈوں اور تیز دھار آلات سے حملہ کیا۔ میلجی واگھیلا شدید زخمی ہوئے اور فوراً ہی دم توڑ گئے۔ ان کے ایک بیٹے کے سر پر زخم آئے ہیں اور وہ اس وقت ہسپتال میں داخل ہیں

اطلاعات کے مطابق وہ لڑکا بی ایس ایف اہلکار کی نو عمر بیٹی کا اسکول کا ساتھی ہے، اور دونوں کی میں آپس میں دوستی بھی تھی

سینیئر پولیس حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس ہجومی تشدد میں ملوث سات ملزمان کے خلاف قتل سمیت دیگر مقدمات درج کر لیے ہیں۔ انہیں پیر کو جیل بھیج دیا گیا تھا اور انہوں نے ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے

◼️ہجومی تشدد اور کلنچنگ کے واقعات

گزشتہ کئی برسوں سے، جب سے بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے، سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان پائی جانے والی نفرت اور مذہبی عداوت کے سبب اس طرح کے ہجومی تشدد کے واقعات میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے

موجودہ بھارت میں گاؤ کشی یا گائیوں کی خرید و فروخت کے الزامات کے تحت سخت گیر اور انتہا پسند ہندو تنظیمیں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں وحشیانہ ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی سینکڑوں وارداتیں پیش آ چکی ہیں

بھارتی سپریم کورٹ، غیر سرکاری تنظیموں اور کارکنان ماب لنچنگ کی روک تھام کے لیے خصوصی قوانین وضع کرنے کا بھی مطالبہ کرتے رہے ہیں، تاہم حکومت نے اس پر بھی توجہ نہیں دی اور اب حالت یہ ہے کہ اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے

اس معاملے پر پارلیمان میں بھی کئی بار بحث ہو چکی ہے اور اپوزیشن نے لنچنگ سے متعلق ہلاکتوں کا ڈیٹا فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے، تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں

متعدد آزاد رپورٹوں کے مطابق بھارت میں نریندر مودی کی پہلی حکومت کے بعد ہی ہجومی تشدد کی وارداتوں میں زبردست اضافہ شروع ہوا تھا۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے اس اضافے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والے قصورواروں یا ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی اور عدالتوں میں کم زور پیروی کی وجہ سے وہ عموماً بری ہو جاتے ہیں

کئی بار تو تھانوں میں پولیس ایسے معاملات کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی، جس سے جرم کی قانونی سزا کا تعین ہی محال ہو جاتا ہے

اس قسم کے ہجومی تشدد کا ایک انتہائی گھناؤنا اور غیر انسانی پہلو یہ بھی ہے کہ تشدد پر آمادہ ہجوم میں سے کچھ افراد ایسے تشدد کی مکمل ویڈیو بناتے ہیں اور پھر اسے سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں پھیلایا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close