ازبکستان کا کہنا ہے کہ ملک میں اب تک کم از کم اٹھارہ بچے بھارت میں تیار کردہ کھانسی کی دوا پینے سے ہلاک ہو گئے ہیں۔ ملکی وزارت صحت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے بچوں نے ‘ڈوک-1میکس’ نامی کھانسی کا سیرپ استعمال کیا تھا، جسے ایک بھارتی کمپنی تیار کرتی ہے
بھارتی دارالحکومت دہلی کے مضافات نوئیڈا میں واقع دوا ساز کمپنی ماریون بائیوٹیک ’ڈوک-1 میکس‘ نامی کھانسی کا سیرپ تیار کرتی ہے۔ ان اطلاعات کے بعد ایک بار پھر سے بھارتی حکومت نے غلط طریقے سے دوا بنانے کے معاملے میں تفتیش کا حکم دیا ہے
ازبکستان میں حالیہ اموات کی وجہ بننے والی دوا کی بنانے والی کمپنی میرین بائیو ٹیک بھارت کے دارالحکومت دہلی کے قریب نوائیڈا میں واقع ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ اس وقت کام نہیں کر رہی ہے تاہم کمپنی کے لنکڈ اِن پیچ کے مطابق ”کمپنی سنہ 1999 میں قائم کی گئی تھی اور اس کی تیار کردہ مصنوعات وسطی ایشیائی، لاطینی اور وسطی امریکی، جنوب مشرقی ایشیائی اور افریقی ممالک میں گھر گھر میں جانی پہچانی جاتی ہیں“
ازبکستان کی وزارتِ صحت نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بچوں کی اموات سامنے آنے کے بعد مذکورہ سیرپ کا لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا گیا، تو معلوم ہوا کہ اس میں ’ایتھیلین گلائکول‘ کی حد سے زائد مقدار موجود ہے، جو ایک زہریلا مادہ ہے
اس نے یہ بھی کہا کہ یہ دوا گھر پر بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے بچوں کو یا تو ان کے والدین کی طرف سے یا پھر فارماسسٹ کے مشورے پر دیا گیا تھا، جس کی خوراک بچوں کے لیے متعین معیاری خوراک سے زیادہ تھی
ازبکستان کی وزارت نے مزید کہا کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے، بچوں نے دو روز سے سات روز کے درمیان گھر پر ہی دن میں تین سے چار بار اس دوا کی 2.5 سے 5 ملی لیٹر خوراک استعمال کی
یہ مقدار معیاری خوراک سے زیادہ ہے۔ والدین نے اس سیرپ کو سردی زکام کے خلاف علاج کے طور پر استعمال کیا
اٹھارہ بچوں کی اموات کے بعد ملک کی تمام فارمیسیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ’ڈوک-1 میکس‘ نامی دوا کے سیرپ اور اس کی گولیوں کو فوری طور پر اسٹورز سے ہٹا دیں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وقت پر صورتحال کا تجزیہ کرنے اور اقدامات کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے سات متعلقہ سرکاری ملازمین کو بھی برطرف کیا گیا ہے
اطلاعات کے مطابق بھارتی حکام نے بھی اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور نوائیڈا میں واقع دوا ساز کمپنی میں اس کھانسی کی دوا کی تیاری کو بھی روک دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق جب تک اس دوا کے تمام نمونوں کی جانچ نہیں ہو جاتی، اس وقت تک دوا سازی پر روک لگی رہے گی
دواؤں پر کنٹرول اور نگرانی کرنے والے مرکزی ادارے اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن (سی ڈی ایس سی او) اور ریاست اتر پردیش کے ادارہ ڈرگس کنٹرولنگ اینڈ لائسنسنگ اتھارٹی کی ٹیمیں مشترکہ طور پر اس کی جانچ کر رہی ہیں
حکام نے اس سلسلے میں ازبکستان سے ہلاکتوں سے متعلق تفتیشی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ دوا ساز کمپنی ماریون بائیوٹیک کا کہنا ہے کہ اس کی مینوفیکچرنگ یونٹ سے کھانسی کے دواکے نمونے حاصل کیے جا چکے ہیں اور اب اسے ٹیسٹ رپورٹ کا انتظار ہے
ماریون بائیوٹیک فارما کمپنی کے قانونی مشیر حسن رضا نے بھارتی میڈیا کو بتایا ”حکومت انکوائری کر رہی ہے۔ ہم ان کی رپورٹ کے مطابق کارروائی کریں گے، فی الحال مینوفیکچرنگ روک دی گئی ہے“
واضح رہے کہ رواں برس میں یہ دوسرا موقع ہے، جب بھارت میں تیار کردہ کھانسی کے شربت کے بارے میں اس طرح کی رپورٹ سامنے آئی ہو۔ گزشتہ ستمبر میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے افریقی ملک گیمبیا میں گردے میں زخم کی وجہ سے ستر بچوں کی موت کی وجہ ان چار سیرپ کو بتایا گیا تھا، جو بھارت کی ایک دوا ساز کمپنی کھانسی اور سردی کے علاج کے لیے تیار کرتی ہے
اُس وقت ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈھانوم گیبریئسوس نے کہا تھا کہ صحت سے متعلق اقوام متحدہ کا ادارہ بھارتی ریگولیٹرز اور دہلی کی دوا ساز کمپنی ‘میڈن فارماسیوٹیکل‘ کے ساتھ مل کر اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے
عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے بھارت میں تیار کی گئی چار دواؤں کے لیے الرٹ بھی جاری کیا تھا اور ریگولیٹرز کو تاکید کی تھی کہ وہ بھارتی دوا ساز کمپنی ’میڈن فارماسیوٹیکل‘ کی جانب سے تیار کی گئی چار ادویات کو مارکیٹ سے فوری طور پر ہٹا دیں
اس الرٹ میں کہا گیا تھا کہ ایسی دواؤں کی شناخت صرف گیمبیا میں ہوئی ہے، تاہم ہو سکتا ہے کہ غیر رسمی طریقوں سے یہ دوائیں دیگر ممالک میں بھی پہنچا دی گئی ہوں
اس سال اکتوبر میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بین الاقوامی سطح پر انتباہ جاری کیا تھا اور گیمبیا میں ستر بچوں کی گردوں کے انفیکشن سے ہلاکت کا ذمہ دار بھارت میں تیار کردہ کھانسی کی دوا کو قرار دیا تھا ، تاہم بھارتی حکومت اور کمپنی میڈن فارماسوٹیکلز نے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا
ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ گھانا اور سوئٹزرلینڈ کی لیبارٹریز میں جب میڈن سیرپ کا تجزیہ کیا گیا تو اس میں الکوحل کے کچھ اجزاء کی زیادہ مقدار میں پائی گئی
گزشتہ ہفتے نیپال نے بھی بھارت کی سولہ دوا ساز کمپنیوں کی ادویات درآمد کرنے پر روک لگا دی تھی۔ کٹھمنڈو حکومت کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مقرر کردہ ضابطوں پر عمل نہیں کرنے کی وجہ سے ان کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے
گیمبیا کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ کم از کم ستر بچوں کے گردے یہ دوا لینے سے شدید زخمی ہوئے، جن سے ان کی موت واقع ہوئی۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ دوا بنانے والی بھارتی کمپنی ، میڈن اس کی ذمہ دار ہے اور اس کے ساتھ ہی پارلیمانی کمیٹی نے اپنی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ اس کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی کرے
دسمبر کے آغاز میں بھارت نے کہا تھا کہ کھانسی کی چاروں ادویات کے تجزیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں مطلوبہ معیار کے مطابق تیار کیا گیا۔ بھارتی حکومت کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے کھانسی کی ان ادویات کو بچوں کی اموات کا ذمہ دار قرار دینے میں ’مغرور‘ رویہ اختیار کیا۔ تاہم ڈبلیو ایچ او نے اپنے اقدامات کو درست قرار دیا
گزشتہ روز گیمبیا میں کم از کم ستر بچوں کی موت سے بھارت کی دوا ساز انڈسٹری کی شہرت کو نقصان پہنچنے کے پیش نظر بھارت کا کہنا تھا ”دوائیں بنانے والی نئی دہلی کی کمپنی ’میڈن فارماسیوٹیکل لمیٹڈ‘ کی اس میں کوئی غلطی نہیں ہے“
دوسری جانب صحت کے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں ادویات تیار کرنے کے ضابطے خاصے نرم ہیں، خاص طور پر ریاستوں کی سطح پر، جہاں ہزاروں فیکٹریاں کام کرتی ہیں
یاد رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی مانیٹرنگ نے 23 دسمبر کو لکھا تھا کہ نیوز ویب سائٹ گزیٹا ڈاٹ یو زیڈ کے مطابق ’ازبک حکام گزشتہ دو مہینوں میں وسطی ثمرقند میں 15 بچوں کی ہلاکت کی تحقیقات کر رہے ہیں جنھوں نے انڈیا میں تیار کردہ کھانسی کا شربت پیا تھا۔‘
26 دسمبر کو پوڈرابنو ڈاٹ یو زیڈ نیوز نے لکھا کہ 21 بچوں کا گردوں کے فیل ہو جانے کا علاج کیا گیا۔ ان میں 15 بچے تین سال سے کم عمر کے تھے۔ مبینہ طور پر ان بچوں کی یہ حالت بھارت میں تیار کیے جانے والے کھانسی کے شربت ڈوک–1 میکس پینے سے ہوئی تھی۔ ان بچوں نے یہ دوا ستمبر سے دسمبر تک پی تھی۔ ان سے تین بچے صحت یاب ہو سکے۔