ہولی وڈ میں جاری ہڑتال: کس خوف سے لکھاری اور فنکار ہڑتال پر مجبور ہوئے؟

ویب ڈیسک

اس وقت انٹرٹینمنٹ کی دنیا کے سب سے بڑے مرکز ہولی وڈ میں جو کچھ ہو رہا ہے، ایسا تو پہلی جنگِ عظیم میں بھی نہیں ہوا تھا، جب یورپ میں آرٹ اور کلچر کی سرگرمیاں، بالخصوص فلم انڈسٹری شدید متاثر ہوئی تھی، لیکن اس کے برعکس امریکی فلم انڈسٹری اس جنگ کے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہی۔ جنگِ عظیم دوم میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں تھی

اس وقت بظاہر کوئی معاملہ نظر نہیں آتا، تو پھر ایسی کیا آفت آن پڑی ہے کہ ہولی وڈ ان دنوں ایک دوہری ہڑتال کی زد میں ہے۔ ایسا اس کی سوا سو سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے، جب لگ بھگ پونے دو لاکھ افراد، جن میں اسکرپٹ رائٹرز اور اداکار دونوں ہی شامل ہیں، نے کام ترک کرنے کا اعلان کر دیا ہے

دراصل ہولی وڈ کی اس بحرانی صورت حال کے پیچھے وہی عامل کار فرما ہے، جس نے ہالی وڈ کو عروج پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، اور وہ ہے: تیزی سے ترقی کرتی جدید ٹیکنالوجی!

وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی سنیما انڈسٹریز نے بھی ترقی کی ہے، مقابلہ بڑھنے لگا ہے۔ ٹیکنالوجی اپنے ساتھ لائیو اسٹریمنگ اور او ٹی ٹی جیسا نیا تصور لے کر آئی ہے۔ کورونا کے دوران سنیما گھروں کو لگ بھگ تالے لگ گئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب او ٹی ٹی ہی اس انڈسٹری کا مستقبل ہے، لیکن کورونا پابندیاں ہٹنے کے بعد سنیما پوری قوت سے لوٹا۔ البتہ واپسی کے اس عمل میں بڑھتے معاشی چیلنجز نے دراڑیں ڈال دی تھیں، جو مصنوعی ذہانت کی آمد کے بعد عیاں ہونے لگی تھیں اور یہ خدشات اب خوف بن کر ہولی وڈ سے وابستہ لوگوں کو اس نہج پر لے آئے ہیں، تبھی رواں برس مئی میں ایک بڑا واقعہ رونما ہوا جب رائٹرز گلڈ آف امریکا (ڈبلیو جی اے) نے اسٹوڈیو مالکان کے خلاف ہڑتال کا اعلان کر دیا

اُس وقت لگ بھگ گیارہ ہزار ارکان پر مشتمل فلم، ٹی وی اور ریڈیو کے لکھاریوں کی تنظیم ’رائٹرز گلڈ آف امریکا‘ ، فلم اسٹوڈیوز کی تنظیم ’الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز‘ (اے ایم پی ٹی پی) سے اجرتوں میں اضافے کے لیے مذکرات کر رہی تھی، جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ اس کے بعد مئی کے آغاز میں ایک ایسی ہڑتال کا اعلان کیا گیا، جس سے سنیما اور ٹی وی انڈسٹری میں سراسمیگی پھیل گئی۔ مگر یہ محض آغاز تھا، اس بحران کا نقطہ عروج تو رواں ماہ سامنے آیا، جب اداکاروں کی تنظیم بھی اس ہڑتال میں شامل ہو گئی ہے

رائٹرز گلڈ آف امریکا اور الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوز کے درمیان 6 ہفتوں سے مذاکرات جاری تھے۔ لکھاریوں کا مطالبہ تھا کہ ان کی اجرتیں اور سہولتیں بڑھائی جائیں۔ انہیں شکوہ تھا کہ نئے معاہدوں کے ذریعے اسکرپٹ رائٹنگ کو محض فری لائسنگ میں تبدیل کرکے اسکرپٹ رائٹر کی اہمیت کو گھٹا دیا گیا ہے۔ انہیں لائیو اسٹریمنگ کی بڑھتی مقبولیت پر بھی اعتراضات تھے

یاد رہے کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر ایک ہی شو برسوں تک چلتا رہتا ہے، جس سے پروڈیوسرز تو لاکھوں ڈالرز کماتے ہیں، جب کہ مصنفین کو صرف ایک بار معاوضہ ادا کر کے چلتا کر دیا جاتا ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ لائیو اسٹریمنگ میں بھی ان کا حصہ رکھا جائے۔ ساتھ ہی یہ نکتہ بھی تھا کہ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے کردار کا تعین کیا جائے۔ واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت کو لکھاریوں یا کونٹینٹ رائٹرز کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جا رہا ہے

اس حوالے سے فلم بینی پر لکھنے والی معروف مضمون نگار صائمہ اقبال کہتی ہیں ”یہ پہلا موقع نہیں تھا، جب ہولی وڈ کے لکھاریوں نے اپنے مطالبات کے لیے قلم چھوڑ ہڑتال کا اعلان کیا۔ 2007ء میں بھی لکھاریوں کی تنظیم کی جانب سے ایک بڑی ہڑتال کی گئی تھی جو 100 روز جاری رہی اور جس میں انڈسٹری کو دو ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا“

انہوں نے کہا ”موجودہ ہڑتال کے آغاز میں طاقتور پروڈیوسرز نے لکھاریوں کو ایک کمزور حریف کے طور پر دیکھا اور ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے یوں ہڑتال دو مہینے پر محیط ہوگئی اور تب اس کھیل میں نئے کھلاڑی شامل ہوئے، یعنی اداکار“

پھر جولائی کے دوسرے ہفتے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار فن کاروں کی نمائندگی کرنے والی امریکی اسکرین ایکٹرز گلڈ (ایس اے جی) نے بھی لکھاریوں کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یوں لگ بھگ ساٹھ برس بعد ہولی وڈ میں ایک بڑا بحران پیدا ہو گیا ہے اور سن 1960ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب لکھاری اور اداکار، دونوں ’جڑواں ہڑتال‘ پر چلے گئے ہیں اور خوابوں کی نگر مفلوج ہونے کے ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئی ہے

صائمہ اقبال کہتی ہیں ”اداکار بھی ان ہی مطالبات کے ساتھ میدان میں اترے ہیں، جو لکھاریوں کے تھے۔ انہیں بھی کم اجرتوں کا شکوہ ہے۔ ساتھ ہی یہ اعتراض بھی ہے کہ آرٹسٹوں سے معاہدہ فلم یا ٹی وی شوز کے لیے کیا جاتا ہے اور اسی کلیے سے معاوضہ طے ہوتا ہے، مگر بعد میں پروڈیوسر حضرات اپنی فلم یا سیریز کو او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو فروخت کر دیتے ہیں جہاں وہ برسوں چلتی رہتی ہیں مگر اداکار کو ایک دھیلا نہیں ملتا۔ لکھاریوں کی طرح اداکار بھی مصنوعی ذہانت سے خوف زدہ ہیں، بلکہ ان کے معاملے میں صورت حال زیادہ گمبھیر ہے۔“

صائمہ اقبال کے مطابق ”اداکاروں کو سب سے زیادہ خوف اپنے چہروں کے ڈجیٹل متبادل بنائے جانے کا ہے۔ اگر آپ نے نیٹ فلکس کی مشہور ویب سیریز ’بلیک مرر‘ کا چھٹا سیزن دیکھا ہے، تو آپ اس پرپیچ صورت حال کو کچھ سہولت سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس فارمولے کے تحت ایک مخصوص رقم کے عوض آرٹسٹوں سے ان کے چہرے استعمال کرنے کے حقوق خرید لیے جاتے ہیں، بعد ازاں پروڈوکشن ہاؤس فن کار کی جسمانی موجودگی کے بغیر، محض مصنوعی ذہانت کی مدد سے ان کا چہرہ استعمال کرتے ہوئے فلم یا ویب سیریز شوٹ کر لیتا ہے“

”آرٹسٹ محض ایک دن کے معاوضے کے بدلے اپنا چہرہ استعمال کرنے کی اجازت دے دیتا ہے، جسے پروڈکشن ہاؤس ساری زندگی استعمال کرسکتا ہے اور اس آرٹسٹ کے چہرے کے ساتھ اپنی مرضی کا کردار تراش سکتا ہے، اچھا یا برا، قابلِ محبت، یا قابلِ نفرت۔ ایک جانب جہاں فن کار کے پاس اپنے کردار چننے کا اختیار ختم ہوجائے گا، وہیں کام کے مواقع بھی گھٹ جائیں گے۔ یہی نہیں، اب آن جہانی اداکاروں کے چہروں کے رائٹس لے کر انہیں بھی بڑے پردے پر پیش کیا جا سکے گا۔ ان اسباب کے باعث اداکاروں کا اس ہڑتال کا حصہ بننا فطری تھا۔“

ہڑتال کے اثرات کے بارے میں صائمہ اقبال کا کہنا ہے ”اس جڑواں ہڑتال کے اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اداکار فلموں کی پروموشن سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ممتاز ہدایت کار کرسٹوفر نولن کی فلم ’اوپنہیمر‘ کے لندن پریمیئرمیں شریک اداکار ہڑتال کی حمایت میں تقریب سے چلے گئے تھے۔ اداکار میٹ ڈیمن، مارک روفالو، ایملی بلنٹ، مارگوٹ روبی اور جینفر لارنس جیسے اداکاروں نے بھی ہڑتال کی حمایت کی ہے۔“

یاد رہے کہ اسکرین ایکٹرز گلڈ کی صدر فران ڈریشر نے اپنے ایک بیان میں موجودہ صورت حال کو مالکان کی لالچ سے تشبیہ دی ہے۔ ساتھ ہی واضح کیا ہے کہ ہڑتال کے خاتمے سے متعلق فی الحال پیش گوئی نہیں کی جا سکتی

الغرض فلم اور ٹی وی کے جاری منصوبوں کے ملتوی ہونے کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔ آنے والی بڑی فلمز تاخیر کا شکار ہو سکتی ہیں، جن میں ونڈر ویمن، اواتار اور گھوسٹ بسٹرز سیریز کی نئی فلمیں نمایاں ہیں۔ گو ڈائریکٹرز کی تنظیم فی الحال اس ہڑتال سے دور ہے، مگر شطرنج کی بساط سے دو اہم ترین مہرے یعنی اداکار اور لکھاریوں کی عدم موجودگی میں ان کی اہمیت خاصی گھٹ گئی ہے

اب کیا ہونے والا ہے؟ اس بارے میں صائمہ اقبال کا کہنا ہے ”اس کا جواب دینا آسان نہیں۔ صورت حال گمبھیر ہے۔ مقابلے کی اس سخت فضا میں اچھے لکھاریوں کے بغیر انڈسٹری میں بگاڑ جنم لے گا اور اداکاروں کے بغیر یہ یکسر مفلوج ہوجائے گی۔ شوٹنگز رک گئی ہیں۔ جو فلمز شوٹ ہوچکی ہیں، ان کی ڈبنگ یا پوسٹ پروڈکشن کے لیے اداکار میسر نہیں، فلم فیسٹیولز میں بھی ان تنظیموں کے اداکار شریک نہیں ہوں گے۔

گیند اب پروڈیوسرز کے کورٹ میں ہے۔ اخلاقی طور پر انہیں اپنے بے پناہ سرمائے میں سے فن کاروں اور لکھاریوں کو ان کا جائزہ حصہ دینا چاہیے، مگر طاقت کے اس کھیل میں اخلاقی اصولوں کی پاس داری خال خال ہی کی جاتی ہے۔ اس بار ممکنہ طور پر 4 ارب ڈالر کے نقصان کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ دونوں ہی فریق مذاکرات کے بجائے سخت گیری کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ حالات کشیدہ ہیں، اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے، تو ٹائی ٹینک ڈوب بھی سکتا ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close