سندھ میں سیاسی جوڑ توڑ، ایم کیو ایم کے دھڑوں کو یکجا کرنے کی کوششیں

ویب ڈیسک

صوبہ سندھ میں سال کے اختتام پر سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور ماضی میں شہری سندھ سے واضح برتری رکھنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے بکھرے دھڑے ایک جگہ جمع ہونے کے لیے ان دنوں سرگرم ہیں

گورنر سندھ سے گزشتہ ہفتے ہونے والی اہم رہنماؤں کی ملاقاتوں کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی ایم کیو ایم کے دھڑے ایک پلیٹ فارم پر نظر آئیں گے

صوبے میں عام انتخابات سے قبل اتحاد کی باتوں پر ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ تنظیم سے الگ ہونے والوں کی واپسی کا طریقہ کار موجود ہے، جو بھی واپس آنا چاہے گا اس کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ رہنماؤں کے مطابق کسی پارٹی سے اتحاد کا ابھی تک فیصلہ نہیں کیا

کراچی اور ایم کیو ایم کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے ”حال ہی میں گورنر سندھ کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں، جن کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی ایم کیو ایم کے دھڑے ایک جگہ جمع ہو جائیں گے“

یاد رہے کہ رواں ماہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور پاکستان سرزمین پارٹی کے چیئرمین و سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال اور صدر انیس قائم خانی سے ملاقاتیں کیں ہیں

ملاقاتوں میں سندھ کے شہری علاقوں سمیت دیگر علاقوں کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے پر غور کیا گیا۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ان ملاقاتوں کے بعد کراچی ایکسپو سینٹر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں ایم کیو ایم کا حصہ رہنے والے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں صوبے کی بہتری کے لیے بات چیت کی گئی ہے۔ کوشش ہے کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کو جمع کیا جا سکے لیکن اس ضمن میں فیصلہ پارٹی قیادت نے کرنا ہے

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں ”1987ع میں بلدیاتی انتخابات سے سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں اپنی حیثیت منوانے والی متحدہ قومی موومنٹ میں تقسیم یوں تو کوئی نئی بات نہیں لیکن ایم کیو ایم اپنے بانی الطاف حسین سے لاتعلقی کے بعد کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے۔ کافی عرصے سے ان دھڑوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں“

ایم کیو ایم میں پہلی تقسیم کے متعلق مظہر عباس کا کہنا ہے ”متحدہ قومی موومنٹ میں پہلی تقسیم 1992 میں ہوئی، جب آفاق احمد نے موجودہ ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان سمیت دیگر کے ساتھ مل کر مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کو کوئی خاص کامیابی تو نہیں ملی لیکن آج بھی آفاق احمد اپنی تنظیم سے ہی وابستہ ہیں۔ اس تقسیم کے تقریباً تین دہائیوں بعد ایم کیوایم میں سال 2013ع میں تقسیم دیکھنے میں آئی، جب سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے الطاف حسین سے علحیدگی اختیار کی“

بعد ازاں 22 اگست 2016 میں الطاف حسین کی ملک مخالف تقریر کے بعد بانی ایم کیو ایم کو ہی ان کی تنظیم سے الگ کر دیا گیا۔ اس علحیدگی کے بعد ایم کیو ایم دھڑے بندی کا شکار ہوئی۔ فاروق ستار پی آئی بی کالونی سے اپنی تنظیم چلاتے نظر آئے تو بہادر آباد سے ایم کیو ایم پاکستان اپنی سیاسی سرگرمیاں سر انجام دینے لگی

سینیئر صحافی رفعت سعید کا کہنا ہے ”ماضی میں ایم کیوایم کی روایت رہی ہے کہ واپسی کرنے والے رہنما اور کارکنان کو پارٹی کے شہید اور اسیر کارکنان کے اہل خانہ سے معافی مانگنی ہوتی تھی۔ موجودہ ایم کیوایم کے اہم رہنما عامر خان بھی جب ایم کیو ایم حقیقی چھوڑ کر سال 2011ع میں متحدہ میں شامل ہوئے تھے تو انہوں نے معافی مانگی تھی۔ اور نائن زیرو کے قریب واقع پارک میں ایک تقریب میں الطاف حسین نے ان کی شمولیت کا اعلان کیا تھا“

انہوں نے کہا ”ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں متحدہ کو اپنے مضبوط علاقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں سندھ کے شہری علاقوں سے پیپلز پارٹی نے ان نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، جہاں تین دہائیوں سے ایم کیو ایم کامیابی حاصل کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ کراچی میں ہونے والے کئی ضمنی انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے

رفعت سعید کا مزید کہنا تھا ”جہاں سندھ کے شہری علاقوں میں کامیابی کے لیے ایم کیو ایم کے دھڑے ملنے کی باتیں ہورہی ہیں، وہیں ایم کیو ایم کے کئی رہنما ان تمام سرگرمیوں کے خلاف بھی نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما عامر خان گورنر سندھ کی تعیناتی سے اب تک کئی معاملات پر نالاں ہیں۔ ان دنوں وہ تنظیمی معاملات سے دوری اختیار کرتے ہوئے ملک سے باہر ہیں۔“

تازہ صورتحال کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر سید امین الحق کا کہنا ہے ”ایم کیوایم پاکستان ایک سیاسی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے رہنما اور کارکنان ماضی میں بھی پارٹی سے علحیدگی اختیار کر کے واپس آتے رہے ہیں۔ اور ابھی بھی اگر پارٹی کا کوئی سیئنر رہنما یا کارکن واپس پارٹی میں شمولیت کا ارادہ رکھتا ہے تو ہم اسے خوش آمدید کہیں گے۔ کچھ عرصہ قبل پارٹی سے الگ ہونے والے کئی رہنماؤں اور کارکنان نے پارٹی سے رابطہ کیا ہے اور ایک بار پھر سے تنظیمی سرگرمیوں کا حصہ بنے ہیں۔ اس وقت وہ کارکنان اور رہنما اہم ذمہ داریوں پر ہیں۔“

سیاسی اتحاد کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ”ایم کیو ایم پاکستان ایک سیاسی جماعت ہے اور پتنگ کے نشان پر انتخابات میں حصہ لے گی۔ فی الوقت سیٹ ایڈجسمنٹ سمیت کوئی فارمولہ طے نہیں ہوا“

ایم کیو ایم پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے ”اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کے تقسیم ہونے سے مخالفین کا فائدہ ہوا ہے۔ اور سندھ کے شہری علاقوں سے ایم کیوایم کی نشستیں دیگر جماعتوں کو ملی ہیں۔“ تاہم فاروق ستار نے کہا کہ اتحاد کی باتیں ابھی تک صرف باتیں ہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے سب دھڑے یہ تو سمجھتے ہیں کہ دھڑا بندی سے سب کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ لیکن اتحاد کا فارمولا اور مستقبل میں ساتھ چلنے کے طریقہ کار میں پیش رفت کو ابھی تک حتمی شکل نہیں دی جا سکی ہے

پاکستان سرزمین پارٹی کی ترجمان آسیہ اسحاق کہتی ہیں کہ گورنر ہاؤس میں پی ایس پی کے رہنماؤں کی گورنرسندھ سے ملاقات میں صوبے کے مسائل حل کرنے کے لیے تفصیلی بات ہوئی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کوئی سیاسی فارمولا طے نہیں ہوا۔ کوئی بھی بات سیاست میں حتمی نہیں ہوتی۔ سب صوبے کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ پی ایس پی ایک منظم سیاسی جماعت ہے۔ ہمارے فیصلے مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔ صوبے کی بہتری کے لیے کوئی فارمولہ پیش کیا جائے گا تو پارٹی مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے

متحدہ قومی موومنٹ سے سب سے پہلے علحیدگی اختیار کرکے مہاجر قومی موومنٹ بنانے والے آفاق احمد کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم کے دھڑوں کو جوڑنے کی خبریں سنی ضرور ہیں لیکن کسی نے ان سے ابھی تک رابطہ نہیں کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close