نسل پرست انگریز کی جانب سے کرکٹر عظیم رفیق کے باغ میں رفع حاجت کا واقعہ۔۔ آخر معاملہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

انگلینڈ میں یارکشائر سے تعلق رکھنے والے سابق کرکٹر عظیم رفیق کے گھر کے باغ میں ایک شخص کے رفع حاجت کے واقعے کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور پولیس نے اسے نفرت پر مبنی نسل پرستانہ فعل قرار دیا ہے

رواں ماہ کے دوران یارکشائر کلب کے سابق بولر نے ارکانِ پالیمان کو بتایا تھا کہ جب سے انہوں نے یارکرشائر کے کرکٹ کے حلقوں میں نسل پرستانہ رویے کی نشاندہی کی ہے، ان کو نفرت انگیز رویے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے

اکتیس سالہ عظیم رفیق نے ڈجیٹل، کلچر، میڈیا اور کھیلوں کے امور کی پارلیمانی کمیٹی کو بتایا تھا کہ ان کے گھر کے باغ میں ایک شخص نے ’پاخانہ‘ کر دیا تھا

اس واقعے کے حوالے سے اب پولیس نے کہا ہے کہ مذکورہ شخص کی اس حرکت کے پیچھے نسل پرستانہ سوچ کارفرما تھی

ساؤتھ یارکشائر کی پولیس کے مطابق انہیں بتایا گیا تھا، کہ اس سال 5 اکتوبر کی شام چھ بج کر بیس منٹ سے تھوڑی دیر پہلے بارنسلی کے علاقے میں واقع گاؤبر اسٹریٹ کے ایک مکان کے باغ میں ایک شخص نے پاخانہ کر دیا تھا

پولیس نے اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کرتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ اگر کوئی اس فوٹیج میں دکھائی دینے والے شخص کو پہچانتا ہے تو پولیس سے رابطہ کرے

یاد رہے کہ نومبر سنہ 2021ع میں ایک تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ جب عظیم رفیق یارکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب کے لیے کھیلا کرتے تھے تو انہیں نسلی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا تھا

کلب کے سابق اسپن بولر نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا تھا کہ انگلیڈ کے کرکٹ حلقوں میں ’ادارہ جاتی‘ سطح پر نسل پرستی پائی جاتی ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد گزشتہ دو برسوں میں برطانوی کرکٹ میں اس اسکینڈل کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے

عظیم رفیق کے انکشافات کے بعد یارکشائر کاؤنٹی کو اپنی انتظامیہ میں تبدیلیاں لانے کو کہا گیا تھا۔ اعلیٰ عہدیداروں کے ہٹائے جانے کے علاوہ ہیڈنگلی کو عارضی طور پر بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں کی میزبانی سے محروم کر دیا تھا اور یاکرشائر کاؤنٹی کے کئی موجودہ اور سابقہ کھلاڑیوں کی سرزنش بھی کی گئی تھی

ان تبدیلیوں کے علاوہ پارلیمانی کمیٹی کی انکوائری کے نتیجے میں انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کو کرکٹ میں نسل پرستی پر قابو پانے کے لیے ایک 12 نکاتی منصوبہ پیش کرنے کو کہا گیا

یاد رہے کہ تب سابق انگلش کپتان مائیکل وان نے نسلی امتیاز برتنے کے واقعات کے حوالے سے عظیم رفیق سے معافی بھی مانگی تھی

عظیم رفیق نے برطانیہ کے کرکٹ کلب یارکشائر میں سنہ 2008 سے 2014 اور پھر 2016 سے 2018 کے دوران کرکٹ کھیلنے کے عرصے میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن بورڈ نے اندرونی تفتیش کے بعد ان کے الزامات کو رد کر دیا تھا۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران کرکٹ کی معروف ویب سائٹ کرک انفو نے جب اس رپورٹ کا ذکر اپنی ایک خبر میں کیا تو اس کے بعد سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر یہ بات زیر بحث آئی اور کرکٹرز سے لے کر برطانوی سیاستدانوں تک نے اس پر اپنی رائے دینا شروع کر دی

اس کے بعد یارکشائر کرکٹ کلب کے چیئرمین راجر ہٹن نے کلب کی جانب سے سابق کھلاڑی عظیم رفیق کے ساتھ نسلی امتیاز پر مبنی رویے کے الزامات کے خلاف خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا

ساتھ ہی عظیم رفیق کو کھیلوں کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے مزید شواہد دینے کے لیے پیش ہونے کا بھی کہا گیا۔ اس دوران رپورٹ میں عظیم رفیق نے جن لوگوں پر الزامات لگائے تھے ان میں مائیکل وان کا نام بھی سامنے آیا تھا

رفیق کے مطابق وان نے ایشین نژاد کھلاڑیوں پر نسل پرستانہ جملہ کسا تھا۔

تاہم وان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر قائم ہیں کہ انہوں نے یارکشائر کی طرف سے کھیلتے ہوئے اس طرح کی کوئی گفتگو نہیں کی تھی لیکن انہوں نے ماضی میں کی گئی ٹویٹس کے بارے میں افسوس کا اظہار کیا

انہوں نے کہا تھا کہ ’مجھے اس سے بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔ ایک کھلاڑی کو ان ساری چیزوں سے گزرنا پڑا اور اتنا کچھ سہنا پڑا، وہ بھی اس کلب میں جس سے مجھے پیار ہے۔ مجھے ایک طریقے سے اس کی کچھ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کیونکہ میں 18 سال تک یارکشائر کرکٹ کلب کے ساتھ وابستہ رہا۔ اگر میں اس تکلیف کا کسی بھی طریقے سے ذمہ دار ہوں تو میں معافی مانگتا ہوں۔‘

یاد رہے کہ عظیم رفیق نے الزام لگایا تھا کہ مائیکل وان نے انہیں اور تین دوسرے ایشین نژاد کھلاڑیوں سے کہا تھا کہ ’تم لوگ بہت زیادہ تعداد میں ہو گئے ہو۔ ہمیں اس کا کچھ کرنا پڑے گا۔‘

ان کے الزامات کی تصدیق سابق پاکستانی بالر رانا نوید الحسن اور انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے لیگ سپنر عادل رشید نے بھی کی تھی، جن کے مطابق انھوں نے وان کو یہ جملہ کہتے ہوئے سنا تھا

چوتھے کھلاڑی اور بولر اجمل شہزاد نے برطانوی جریدے ڈیلی میل سے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ انھیں یہ واقعہ یاد نہیں اور تمام سینیئر کھلاڑیوں نے ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا تھا

وان، جنہوں نے اس واقعے کی تحقیقات میں حصہ نہیں لیا تھا، کہتے ہیں کہ انھیں یہ واقعہ یاد نہیں اور نہ ہی انھیں ان الفاظ کا علم ہے، جس کا ان پر استعمال کرنے کا الزام ہے

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا عظیم رفیق، رشید اور نوید جھوٹ بول رہے ہیں، تو ان کا جواب تھا کہ ’اس صورتحال کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت ساری معلومات ہے۔ اس نے یہ کہا، اس نے وہ کہا، کس نے کیا کہا۔ میرے خیال میں ہمیں ماضی کے ان الزامات کی بحث سے نکلنے کی اور توجہ طلب چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘

یاد رہے کہ عظیم رفیق کی نشاندھی کے بعد مائیکل وان کی جانب سے ماضی میں کی گئی کچھ ٹویٹس بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تھیں، جن میں سنہ 2010 میں انھوں نے کہا تھا کہ لندن میں اب بہت زیادہ انگریز نہیں رہتے اور انھیں اب نئی زبان سیکھنی پڑے گی جبکہ سنہ 2017 میں انھوں نے مانچسٹر ارینا میں شدت پسند حملے کے بعد اس سوال کے جواب میں ہاں کہا تھا جس میں یہ پوچھا گیا کہ کیا انگلش کرکٹر معین علی کو تمام مسلمانوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ آیا وہ شدت پسند ہیں یا نہیں؟

ان ٹویٹس کے بارے میں وان کا کہنا تھا کہ انھیں ان ٹویٹس پر شرمندگی ہے اور وہ اب ایک مختلف انسان ہیں۔ ’ان ٹویٹس کی وجہ سے میں نے جن لوگوں کو تکلیف پنچائی، ان سے میں تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں۔ اب وقت بدل گیا ہے اور مجھے ان ٹویٹس پر افسوس ہے۔ ہم سب زندگی میں غلطیاں کرتے ہیں اور میں نے بھی ٹوئٹر پر کچھ غلطیاں کی ہیں۔ میں اس کے لیے معافی مانگتا ہوں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close