پاکستان میں ہر کرکٹ کھیلنے والا بچہ’ٹیپ بال‘ کرکٹ ضرور کھیلا ہوگا۔ دنیا بھر میں شاید پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا ہی ایسے ممالک ہیں، جہاں پر ٹینس بال پر ٹیپ چڑھا کر کرکٹ کھیلی جاتی ہے
ٹیپ بال کرکٹ کا سب سے اہم اور بڑا فائدہ خود کرکٹ کو ہوا۔ کرکٹ کو خاص الخاص کلبوں، امیر اور پوش طبقے سے اٹھا کر گلی کوچوں اور محلے تک ہر خاص و عام کی دسترس میں لانے میں جس چیز نے سب سے اہم کردار ادا کیا وہ ٹیپ بال کرکٹ ہی ہے۔ اس کرکٹ میں ایک کھلاڑی کو کسی قسم کے ہیلمٹ، پیڈز اور گلوز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک غریب لڑکا بھی صرف ایک بیٹ اور گیند کے ساتھ اپنا شوق پورا کر سکتا ہے، چونکہ ٹیپ بال میچز زیاد تر 6 سے 12 اورز تک محدود ہوتے ہیں اس لئے یہ مختصر وقت میں تفریح کا اچھا ذریعہ ہیں۔ اس طرز کی کرکٹ نے کھیل کو مقبول کرنے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا
یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان لڑکوں نے کرکٹ کو اپنایا اور یوں بہت سے نوجوان اور ٹیلنٹڈ کرکٹرز جو پہلے پہل صرف ٹیپ کھیلتے تھے، وہ بعد میں ہارڈ بال کرکٹ کی طرف بھی راغب ہوئے اور یوں پاکستان کو زیادہ سے زیاد ٹیلنٹ میسر آیا
اب تو پاکستان میں اس کی باقاعدہ لیگز منعقد ہوتی ہیں۔ اگر آپ بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح کرکٹ کے شیدائی ہیں تو پھر یقیناً آپ کی نظروں سے مقامی سطح پہ ہونے والی ٹیپ بال لیگز کی کوئی نہ کوئی وڈیو ضرور گزری ہوگی
برق رفتار چھکوں کی وجہ سے مقبول یہ لیگز ملک بھر کے طول و عرض میں تقریباً سارا سال چلتی رہتی ہیں
پاکستان کے ہارڈ بال کرکٹ اسٹرکچر کی طرح ٹیپ بال لیگز کے بھی باقاعدہ سیزن ہوتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ ٹیپ بال کو آفیشل مقام نہیں دیتا اور اس کے لیے کوئی نظام نہیں بنایا گیا تاہم ٹیپ بال کے نجی منتظم اپنے طور پر ملک بھر میں مختلف قومی ٹورنامنٹس منعقد کرواتے ہیں۔
ان میچز میں باقاعدگی سے کھیلنے والے درجنوں کھلاڑی پروفیشنل ٹیپ بال کرکٹر کا اسٹیٹس رکھتے ہیں اور ان کی ایک میچ کی فیس لاکھوں روپوں تک جاتی ہے
پروفیشنل ہارڈ بال کرکٹ میں 150 گرام سے زائد وزن کی گیند جب تیزی سے پھینکی جائے تو یہ خاصی خطرناک ہوتی ہے۔ بیٹسمین، وکٹ کیپر سمیت قریب کھڑے کھلاڑی حفاظتی سامان پہن کر کھیل میں شریک ہوتے ہیں
گلی محلے کی سطح پر اس قدر انتظامات ممکن نہیں ہوتے اور نقصان کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے ٹینس بال پر الیکٹرک تاروں کے لیے استعمال ہونے والی ٹیپ چڑھا کر اسے بطور کرکٹ بال استعمال کیا جاتا ہے
کرکٹ کی معروف ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق پاکستان میں ٹیپ بال کرکٹ کا آغاز ستر کی دہائی میں ہوا اور پھر یہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گئی
یوں تو ٹیپ بال کرکٹ کے قوانین وہی ہیں، جو ہارڈ بال کرکٹ کے ہیں البتہ ایک واضح فرق ایل بی ڈبلیو آؤٹ کے قانون کا ہے
گلی محلے میں کھیلی جانے والی کرکٹ میں ایل بی ڈبلیو آؤٹ نہیں ہوتا اور ٹیپ بال کی لیگز میں بھی اس کا کوئی تصور نہیں ہے
اب لیگز میں زیادہ تر میچ چار سے پانچ اوورز پر مشتمل ہوتے ہیں جن کی تعداد ٹورنامنٹ کے قوانین کے حساب سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتی ہے
ٹیپ بال کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کرنے کے لیے گراؤنڈ اور اس میں باؤنڈری لائن کی تیاری، سیمنٹ سے بنی پچ، وکٹیں، گیندیں، کرسیاں اور ساؤنڈ سسٹم وغیرہ ضروری انتظامات سمجھے جاتے ہیں
حال ہی میں اسلام آباد کے نواح میں بہارہ کہو کے مقام پر ایک ٹیپ بال سپر لیگ کا انعقاد کرنے والے ڈاکٹر وقاص حیدر کے مطابق وہ آسٹریلیا میں ملازمت کرتے ہیں اور سائبر سکیورٹی کے شعبے سے منسلک ہیں، لیکن ٹیپ بال کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کروانے کے لیے خصوصی طور پر پاکستان آتے ہیں
ان جیسے ہی دیگر کئی منتظمین بھی اپنے اپنے علاقوں میں باقاعدگی سے ٹیپ بال لیگز منعقد کرواتے ہیں اور اس کے اخراجات دوستوں کی مدد سے خود پورے کرتے ہیں
ٹیپ بال ٹیمیں اپنے اخراجات کے لیے مقامی سطح پر اسپانسر بھی ڈھونڈتی ہیں۔ علاقے کے سیاسی، کاروباری و بااثر افراد اپنی ٹیموں کو ٹورنامنٹس میں شرکت کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات کی مد میں فنڈ ز فراہم کرتے ہیں
بہارہ کہو سپر لیگ میں شریک ہنگو کی ٹیم کے کپتان حضرت اللہ نے بتایا ’پاکستان اور بیرون ملک مقیم دوست انہیں ٹیپ بال لیگز میں شرکت کے لیے مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جس علاقے میں لیگ ہو رہی ہو، وہاں ہنگو سے تعلق رکھنے والے افراد اگر قیام پذیر ہوں تو وہ بھی ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔‘
ٹیپ بال لیگز کی انعامی رقم کی بات کی جائے تو یہ چند ہزار سے لے کر کئی لاکھ روپے تک ہوتی ہے
ڈاکٹر وقاص حیدر کے مطابق بہارہ کہو لیگ کا پہلا انعام نو لاکھ جب کہ دوسرا انعام تین لاکھ روپے ہے۔ ان کے بقول انعامی رقم وہ اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں
باقاعدگی سے یہ ٹورنامنٹس کھیلنے والی ٹیموں کے لیے یہ انعامی رقم ایک باقاعدہ کمائی کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ یہ آپس میں برابر تقسیم کر کے روزمرہ کے اخراجات چلاتے ہیں
ٹیپ بال کے مروجہ قوانین کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر لیگز میں ہر ٹیم کو مقامی کھلاڑیوں کے علاوہ اپنے علاقے سے ہٹ کر دو غیرمقامی کھلاڑیوں کو شامل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان غیر مقامی کھلاڑیوں کو اوپن کھلاڑی کہا جاتا ہے جو مختلف اُوقات میں مختلف ٹیموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ اوپن کھلاڑی اپنی مقبولیت اور صلاحیتوں کے اعتبار سے میچ فیس وصول کرتے ہیں
ٹیپ بال کرکٹ منتظم زاہد عباسی کا کہنا ہے ’بڑے کھلاڑی ایک دن کے حساب سے بیس سے تیس ہزار یا اس سے بھی زیادہ رقم لیتے ہیں۔‘
یہ بالکل کرکٹ کی ٹی20 لیگز کی طرح ہوتا ہے جہاں ہر ٹیم میں چار ایسے کھلاڑیوں کی اجازت ہوتی ہے جن کا تعلق کسی اور ملک سے ہو
انٹرنیٹ کی فراہمی، فیسبک اور یوٹیوب کے فروغ کے بعد بڑی ٹیپ بال لیگز میں گراؤنڈ کے اندر باؤلنگ اور بیٹنگ اینڈ کے سامنے موبائل کو سٹینڈ پر لگا کر میچ کو لائیو ٹیلی کاسٹ اور ریکارڈ بھی کیا جاتا ہے
اس ریکارڈنگ کی بدولت ان مقامی سطح کے میچوں میں بھی ایمپائر کے فیصلوں پر ریویو لیا جاتا ہے اور ریکارڈنگ کو ریوائنڈ کر کے ری پلے دیکھا جاتا ہے
ٹیپ بال کرکٹ کے حامی جہاں اس کے فوائد گنواتے ہیں، وہیں اس کے مخالفین اس کو کرکٹ کے لیے نقصان دہ بھی قرار دیتے ہیں
اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بطور بلے باز ٹیپ بال کرکٹ کا مسلسل کھیلنا ایک بیٹسمین کے ’اسکل لیول‘ ‘کو بہت امپروو کرتا ہے ۔ ایک تو گیند تیز آتی ہے اور تقریباً ہر دوسری بال ہی یارکر ہوتی ہے جس کی وجہ سے بیٹ سپیڈ فاسٹ ہو جاتی ہے ۔’آئی سائٹ‘ بہت بہتر ہو جاتی ہے ۔آنکھیں زیادہ تیزی سے بال کی لائن اور لینتھ کو جج کر لیتی ہیں۔چھ ، آٹھ یا دس اورز کے میچز میں بیٹسمین جارحانہ کھیلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس سے اس کے شاٹس کی رینج بڑھ جاتی ہے اور وہ جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ رنز بنانے کی اہلیت پا سکتا ہے
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اکثر میچز بہت کلوز جاتے ہیں جس کی وجہ سے کھلاڑی بار بار دباؤ سے گزرتا ہے اور ذہنی طور پر مضبوط ہو جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کیونکہ ٹیپ بال میں ایک اوور میں 12 ،15 رنز بنا لینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں اس لئے ایک بلے باز کسی بھی ٹارگٹ کو ’ایچیو ایبل‘ سمجھنا شروع کر دیتا ہے جس سے خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ تیز باولنگ کو مسلسل کھیلنے کی وجہ سے اسپیڈ کا خوف کم ہو جاتا ہے
ایک فاسٹ باؤلر کے لئے ٹیپ بال کرکٹ کھیلنے کے پلس پوائنٹس بھی ہیں۔ ایک فاسٹ یا میڈیم فاسٹ باولر ٹیپ بال کھیل کر ایک تو اپنا یارکر بہت بہتر بنا سکتا ہے جو کہ آج کل کے تیز رفتار ون ڈے اور ٹی20 کرکٹ کی ضرورت ہے۔ یارکر کرانے سے اس کی ’’ڈیتھ‘‘ باولنگ بہت بہتر ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی ڈیتھ بالنگ اسی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول اور سب سے آگے ہے
چونکہ بیٹسمین ہر گیند پر ہی چھکا یا چوکا لگانا چاہتا ہے اس لئے باولر کو مختلف قسم کی ’’ورائٹیز‘‘ ڈیولپ کر کے انھیں استعمال کرنے کا ہنر آ جاتا ہے۔
’’بیک آف دی ہینڈ بال‘‘ اور ’’اسپلٹ فنگر ‘‘سلوئیر بالز ٹیپ بال کرکٹ کی ہی ایجاد ہیں ۔کس طرح مختلف سیچوایشنز میں بلے باز کے ارادے بھانپ کر اس کو دھوکہ دینا ہے یہ چیزیں باولر ٹیپ بال کھیل کر بہت جلد سیکھ جاتا ہے
پریشر میں بولنگ کرا کر ایک باولر مشکل صورت حال میں بھی اپنا حوصلہ برقرار رکھ کر گیند کرانے کا فن سیکھ جاتا ہے۔ لاستھ ملنگا اس کی ایک بہت نمایاں مثال ہیں
اسی طرز کی صلاحیتوں پر انحصار کرنے والے آسمان کی بلندیوں سے ٹوٹ کر گرنے والے ستارے محمد عامر بھی ٹیپ بال کھیل کر اتنی کم عمری ہی میں ایک منجھے ہوے باولر کا روپ دھار گئے تھے
ٹیپ بال کے کے نقصانات کے حوالے سے مخالفین کی رائے ہے کہ سب سے مہلک نقصان ایک بیٹسمین کے اندر اور اس کی رگ رگ میں گھس جاتا ہے وہ ہے ’’ٹمپرامنٹ‘‘ کی شدید کمی، جب 8 ،10 اوورز کے میچز ہوں گے تو بھلا کیا ٹمپرامنٹ بلڈ ہوگا؟
ایک بلے باز کے لئے سب سے اہم اس کا کریز پر کھڑے رہنا ہے، تب ہی رنز بنانا ممکن ہے لیکن اس طرز کی کرکٹ میں ہر گیند پر چھکے چوکے پر زور ہوتا ہے اور یوں جب ایک بیٹسمین ’’بڑی کرکٹ ‘‘میں آتا ہے تو وہ باوجود اچھے اسکل لیول کے اور بہترین ’’ہینڈ آئی کو آرڈینیشن‘‘ کے اپنی ذہنی کمزوری کی وجہ سے مار کھا جاتا ہے
پچھلے دس بارہ سالوں میں پاکستان کو معیاری بلے بازوں کی شدید قلت رہی، جس کی ایک بہت اہم وجہ ٹیپ بال کرکٹ بھی ہے جو ینگسٹرز کی جڑوں کو کاٹ رہی ہے
پھر ٹیپ بال قطعا سوئنگ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہمارے بلے باز سوئنگ بولنگ کے سامنے فوراً ہی ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔کیوں کے زیادہ تر بالز یارکر ہوتی ہیں اس وجہ سے ذیادہ تر اسٹروکس بھی لانگ آن لانگ آف، مڈ وکٹ ، لیگ وغیرہ پر کھیلے جاتے ہیں اور یوں ایک بیٹسمین ہر طرف اسٹروکس کھیلنے کی اہلیت کھو دیتا ہے اور ایک محدود بلے باز بن جاتا ہے اور یہی ہمارے آنے والے کھلاڑیوں کا مسئلہ ہے
ہمارے بلے بازوں کا ایک اور شہرہ آفاق مسلہ ان کی انتہائی گھٹیا اور بچگانہ رننگ ہے اس کی بنیاد بھی ٹیپ بال کرکٹ میں تلاش کی جا سکتی ہے کیونکہ ٹیپ بال میں زیادہ انحصار چوکے چھکوں پر ہوتا ہے اور رننگ اسکلز، کالنگ اور رن ججمنٹ کی صلاحیت اپنی موت آپ ہی مر جاتی ہے۔ عمران نذیر، اویس ضیاء، شاہد آفریدی، یوسف پٹھان وغیرہ وہ چند مثالیں ہیں جو ٹیپ بال کرکٹ سے ابھرے لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں اپنا نام نہ بنا سکے اور ون ڈے یا ٹی ٹوینٹی میں بھی اپنے ٹیلنٹ سے انصاف نہیں کر سکے
ایک فاسٹ باؤلر کو بھی اس سے نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ چھ ،آٹھ یا دس اوورز کے میچز میں ایک بائولر صرف دو یا تین اوورز ہی کرا پاتا ہے اس لئے اس کا کوئی اسٹیمنا نہیں بن پاتا ۔ ہمارے بائولر جب ایک دن میں 15 سے 20 اوورز کرانے کی کوشش کرتے ہیں تو ڈومیسٹک کرکٹ میں تو یا وہ انجرڈ ہو جاتے ہیں یا اپنی رفتار کو برقرار نہیں رکھ سکتے ۔فٹنس لیول کی یہی کمزوری ان کی باڈی کو ڈیولپ نہیں ہونے دیتی اور ان کی رفتار میں اضافہ نہیں ہو پاتا۔ مخالفین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ہم پچھلے پندرہ سولہ سالوں میں کوئی جینوئن فاسٹ بائولر نہیں پیدا کر سکے۔ جب ایک بائولر لانگ اسپلز نہیں کرا سکے گا تو وہ انٹرنیشنل لیول پر مسلسل عمدہ پرفارمنس نہیں دے سکے گا یا پھر اس کو یہ ساری صلاحیتیں ٹیم میں آنے کے بعد ہی ڈویلپ کرنی پڑتی ہیں
ٹیپ بال میں یارکر تو بہت پھینکے جاتے ہیں لیکن گڈ لینتھ بال اور باؤنسر کا کوئی استعمال نہیں ہوتا نہ ہی کسی قسم کی کوئی سوئنگ بال کرائی جا سکتی ہے جو کہ ایک فاسٹ باولر کے لئے بے حد ضروری ہے ۔ ایک بائولر کی ’ریسٹ پوزیشن‘ سوئنگ کی صلاحیت حاصل کرنے میں بہت اہم ہے لیکن جب ایک ینگسٹر شروع سے ہی سوئنگ کرانا نہیں سیکھے گا تو اس کی رسٹ پوزیشنز اور مسل ڈویلپمنٹ کو نقصان پہنچے گا۔ سہیل تنویر، ملنگا اور کسی حد تک عمر گل بھی ٹیپ بال کرکٹ کھیل کر ہی گو کہ ٹی ٹونٹی اور ون ڈے میں تو کامیاب رہے لیکن ٹیسٹ میچز کا فزیکل اور مینٹل پریشر برداشت نہ کر سکے۔ اس لسٹ میں رزاق اور آفریدی کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔