اور جب افسران نے نوجوان کو دیکھ کر کہا ’یہ کل کا لونڈا اتنا بڑا پروجیکٹ کیسے مکمل کرے گا‘

ویب ڈیسک

مُحسِن فیاص بٹ کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر سرینگر کے ایک متوسط گھرانے ہے۔ انہوں نے جب لندن سے مینجمینٹ میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن مکمل کی تو انہیں لندن میں ہی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے ملازمت کی پیشکش کی تھی

محسن بتاتے ہیں ”میں بہت خوش ہوا۔ میں نے والد کو فون کیا۔ انہوں نے مبارکباد تو دے دی لیکن اُن کے لہجے میں مایوسی تھی۔ دراصل وہ چاہتے تھے کہ میں کشمیر میں ہی کوئی کاروبار کر لوں۔ کئی راتیں میں جاگتا رہا اور ایک صبح میں نے ملازمت کے آفر لیٹر کے جواب میں لکھا کہ میں یہ ملازمت نہیں کروں گا اور والد کو فون کر کے اطلاع دی تو وہ بہت زیادہ خوش ہوئے“

کشمیر واپسی پر محسن نے دیگر دو دستوں کے ہمراہ پن بجلی منصوبوں کی تعمیر سے متعلق ایک کمپنی کی بنیاد رکھی اور اسی دوران حکومت نے ہائیڈرو پاور کی پیدوار کو نجی کمپنیوں کے لیے کھول دیا

کئی مشکلات کے بعد محسن کی کمپنی کو چھ سال قبل ایک پن بجلی گھر کے منصوبے کی تیاری کا ایک ٹھیکہ مل گیا اور حکومت نے انہیں اس مقصد کے لیے سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر سرینگر کے مشرق میں سونہ مرگ کے قریب ایک دشوار گزار پہاڑی قطعہ الاٹ کر دیا

محسن جذباتی انداز میں یہ چھ سال پرانی بات بتاتے ہوئے کہتے ہیں ”ساٹھ کروڑ روپے مالیت کے بجلی کے منصوبے کی فائل لے کر جب میں متعلقہ دفتر پہنچا تو افسروں نے مجھے دیکھ کر حیرت سے کہا یہ کل کا لونڈا اتنا بڑا پروجیکٹ کیسے مکمل کرے گا!؟“

دفتری طوالت، پہاڑوں کے درمیان راستے بنانے اور آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر دیو ہیکل مشینیں پہنچانے جیسے کٹھن مراحل سے گزر کر محسِن نے بالآخر چھ میگاواٹ کی صلاحیت والے نجی پن بجلی گھر کا پروجیکٹ تیار کر لیا ہے

محسن بٹ اپنے اس کٹھن اور مشکل منصوبے کو مکمل کرنے پر جہاں فخر محسوس کر رے ہیں، وہیں اس سب کے دوران پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کرتے ہیں ”ہم یہاں آئے تو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ یہاں تک کہ جب ہم نے چار چار ٹن وزنی پائپ یہاں پہنچائیں تو مجھے ایک وقت میں لگا کہ پہاڑ کی چوٹی تک گلیشئیر کے قریب انھیں پہنچانا تو ناممکن ہے لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے یہ سب بھی مکمل کر لیا ہے“

پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے پانی کا منبع نہایت اونچائی پر ہونا لازمی ہے لیکن ’بٹ کُلن‘ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنا ایک چیلنج تھا

محسن بتاتے ہیں ”اس کے لیے پہاڑ کاٹ کر سڑک بنانی تھی اور پھر پہاڑ کاٹنے کے لیے بلاسٹنگ (دھماکہ کرنا) ضروری تھی۔ پوچھیے مت بلاسٹنگ کی اجازت اور دھماکہ خیز مواد جیلاٹین راڈز یہاں پہنچانا کس قدر طویل اور مشکل کام تھا“

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں علیحدگی پسند گروہوں کی کارروائیوں کے باعث حکومت کی جانب سے دھماکہ خیز مواد کے استعمال کا اجازت نامہ حاصل کرنا انتہائی مشکل اور پیچیدہ مرحلہ ہے

مُحسن جیسے کئی دیگر نوجوان بھی مقبوضہ کشمیر میں نجی پن بجلی کے منصوبے قائم کر چکے ہیں اور ان منصوبوں سے تقریباً ایک سو میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ان نجی بجلی گھروں میں پیدا ہونے والی بجلی حکومت کی ترسیلی لائنوں کے ذریعہ سرکاری گرِڈ میں جمع ہوتی ہے اور پھر اسے مقامی حکومت یا کشمیر سے باہر کارپوریٹس یا حکومتوں کو فروخت کیا جاتا ہے

واضح رہے کہ کشمیر پانی کے ذخائر سے مالامال ہے اور ماہرین نے تخمینہ لگایا ہے کہ یہاں بیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی بنانے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ تاہم حکومت کے پن بجلی کے منصوبوں سے فی الوقت اڑھائی ہزار میگاواٹ سے بھی کم بجلی پیدا کی جارہی ہے جو سردیوں میں ہزار میگاواٹ سے بھی کم رہ جاتی ہے جبکہ بجلی کی طلب سردیوں میں دستیاب پیداوار سے کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دہائیوں سے کشمیر میں بجلی کا بحران ایک حل طلب مسئلہ بنا ہوا ہے

حالانکہ بھارتی حکومت کے ادارے شمالی پن بجلی کارپوریشن یا این ایچ پی سی نے کئی پروجیکٹس کو حاصل کر لیا ہے لیکن وہاں پیدا ہونے والی بجلی شمالی انڈیا کی مختلف ریاستوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ اس مسئلے پر سیاسی حلقوں میں دہائیوں سے ناراضگی پائی جاتی ہے

’بٹ کُلن‘ پہاڑ کی مخالف سمت میں گُنڈ گاؤں کے قریب ایک اور پہاڑ پر نوجوان صنعت کار عمر فاروق نے دو میگاواٹ صلاحیت والا پن بجلی گھر قائم کیا ہےز جو کامیابی کے ساتھ دو سال سے چل رہا ہے

عمر کہتے ہیں ”یہ وہ تجارت نہیں، جس میں مارکیٹ کا خطرہ ہو۔ خام مال تو پانی ہے جو مفت میسر ہے اور پھر بجلی کی ڈیمانڈ پوری دُنیا میں سپلائی سے زیادہ ہے۔ ہم نے اِدھر بجلی بنائی اُدھر وہ خریدار تک پہنچی۔ پروجیکٹ قائم کرنے میں جو دقتیں ہیں وہ اپنی جگہ لیکن جب منصوبہ شروع ہو جائے تو آپ پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتے“

یہی وجہ ہے کہ عمر نے ایک اور منصوبے کے لیے کاغذی کارروائی شروع کر دی ہے۔

پن بجلی منصوبہ
کشمیر میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے اور پچھلے کئی سال سے حکومت کارخانے لگانے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے، لیکن کشمیر کو بیرونی دنیا سے ملانے کے لیے واحد زمینی راستہ ہمالیائی پہاڑی سلسلے سے ہو کر گزرتا ہے، جو برفباری کی وجہ سے کئی کئی ماہ تک بند رہتا ہے

عمر کہتے ہیں ”توانائی سیکٹر ہمارا مستقبل ہے۔ پوری دنیا اس وقت ماحول دوست انڈسٹری کی بات کرتی ہے۔ پن بجلی منصوبے سے کوئی ماحولیاتی آلودگی نہیں پھیلتی اور پانی سے توانائی حاصل کی جاتی ہے اور پانی واپس ندی نالوں میں جاتا ہے۔۔ اگر حکومت دفتری کاغذی کارروائی کو آسان بنا دے تو نجی پن بجلی کے منصوبے ہمیں بجلی کے بحران سے بھی نجات دے سکتے ہیں اور بے روزگاری سے بھی“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close