’وہ چھبیس دنوں سے لاپتہ تھا۔ ہم نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملا پھر جب مل گیا تو پتہ چلا اس کا ایک گردہ نکالا گیا تھا‘
یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع اپر دیر کے علاقے عشیری درہ سے تعلق رکھنے والے ایاز خان کا، جن کے پندرہ سالہ بیٹے کو ملازمت کا جھانسہ دے کر لاہور سے راولپنڈی بلا کر ایک گردہ نکال لیا گیا
محنت مزدوری کرنے والے ایاز خان گذشتہ تقریباً بیس سال سے لاہور میں اہل خانہ کے ہمراہ رہ رہے ہیں
انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا 8 دسمبر کو گھر سے نکلا اور کئی ہفتے گزرنے کے باوجود اس کا کوئی پتہ نہیں لگا
’ہم نے تمام رشتہ داروں سے پتہ کیا لیکن کہیں سے بیٹے کا سراغ نہیں ملا، پھر جب وہ ملا تو اس کے پیٹ کے دائیں طرف ٹانکے لگے ہوئے تھے۔ اس طرح ہمیں پتہ چلا کہ اس کا گردہ نکالا گیا ہے۔‘
ایاز کے مطابق انہوں نے بیٹے کی گمشدگی پر لاہور کے مناواں پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر درج کروائی جس کے بعد شک کی بنیاد پر تین افراد کو گرفتار کیا گیا
’گرفتار لوگوں سے تفتیش کے دوران ایک شخص کا نام سامنے آیا جس کے بعد ایک گینگ کا پتہ چلا۔ پھر کچھ وکلا کی مدد سے میری بیٹے کی حوالگی ممکن ہوئی۔‘
ایاز کے مطابق ان کے بیٹے نے بتایا کہ اسے لاہور کے دو جاننے والے افراد نے راولپنڈی میں ملازمت کا جھانسہ دے کر بلایا اور وہاں پر اس کے خون سمیت کئی ٹیسٹ بھی کرائے
انہوں نے مزید بتایا کہ جب بیٹے نے پوچھا کہ میڈیکل ٹیسٹ کیوں کروائے جا رہے ہیں تو کہا گیا کہ یہ ٹیسٹ کمپنی کی پالیسی کا حصہ ہیں
ایاز خان کے مطابق ان کا بیٹا ملنے کے بعد کچھ عرصے تک ڈرتا رہا کیوں کہ ’ہم نے سنا ہے گردہ نکالنے والا ایک گینگ ہے، اور میرا بیٹا ڈر رہا تھا کہ گینگ اسے قتل نہ کر دے۔‘
اپر دیر سے رکن صوبائی اسمبلی صاحبزادہ ثنااللہ لاہور آ کر ایاز خان کو انصاف دلانے کی کوشش کر رہے ہیں
صاحبزادہ ثنااللہ نے بتایا کہ وہ اس معاملے پر لاہور پولیس کے افسران سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اور اب تک چھ ملزمان گرفتار ہوئے ہیں۔
صاحبزادہ ثنااللہ کے مطابق پولیس نے انہیں بتایا کہ لڑکے کا گردہ راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں نکالا گیا ’پولیس واقعے میں ملوث ڈاکٹروں کو گرفتار کرنے کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مار رہی ہے‘
انہوں نے بتایا ’ڈاکٹروں کے مطابق لڑکے کی حالت خطرے سے باہر ہے لیکن اس کو کچھ دنوں کے لیے ہسپتال میں رکھا جائے گا تاکہ بہتر طریقے سے علاج ہو سکے‘
صاحبزادہ ثنااللہ نے بتایا کہ انہوں نے پولیس کو الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر ملزم ڈاکٹر گرفتار نہ ہوئے تو لاہور میں پشتون برادری زمان پارک اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دے گی
مناواں پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او خرم شہزاد نے بتایا کہ واقعے میں ملوث چھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ڈاکٹرز سمیت گینگ کے باقی افراد جلد گرفتار کیے جائیں گے
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق لاہور میں 2007 میں دس افراد کا ایک گینگ پکڑا گیا تھا، جو لوگوں کو اغوا کرنے کے بعد نشہ آور اشیا دے کر ان کی مرضی کے بغیر گردے نکال کر بیچ رہا تھا
روئٹرز کی رپورٹ میں ایک متاثرہ شخص کی کہانی بتائی گئی، جسے ملازمت کا جھانسہ دے کر بلایا گیا اور جب وہ ہوش میں آئے تو ہسپتال میں تھے
اسی طرح کا ایک واقعہ 2017 میں راولپنڈی میں پیش آیا، جب پولیس نے ایک عمارت سے چوبیس افراد کو بازیاب کرایا تھا جب ان کے غیر قانونی طریقے سے گردے نکالے جا رہے تھے۔ رپورٹس کے مطابق ان تمام افراد کو ملازمت کا جھانسہ دیا گیا تھا
گینگ میں ملوث افراد ان تمام افراد کے عدالتی کاغذات بھی بنا رہے تھے تاکہ قانونی کارروائی سے بچ سکیں۔
پاکستان میں گردے کی غیر قانونی پیوند کاری کے لیے اردن سے آئی ایک خاتون کی 2017 میں آپریشن کے دوران موت کا معاملہ میڈیا پر بہت ہائی لائٹ ہوا تھا
اس واقعے میں ڈاکٹروں سمیت گینگ کے دیگر افراد بھی گرفتار کیے گئے تھے
پاکستان میں انسانی اعضا کی ٹریفکنگ اور غیر قانونی پیوندکاری کو 2007 میں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ بعد ازاں اسی قانون میں 2010 میں ترمیم کر کے مزید سخت کیا گیا۔