پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی اُمور سے متعلق غیر سرکاری ادارے ’پلڈاٹ‘ نے سال 2022ع کو پاکستان میں جمہوریت کے لیے مایوس کن قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں ملک میں سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی ستر برس سے جاری جمہوریت مخالف چالیں بے نقاب ہوئیں
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر چند کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے، لیکن اچانک سیاسی معاملات سے الگ ہونا اتنا آسان نہیں ہوگا
پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2022ع میں فوج میں کمانڈ کی تبدیلی سے صورتِ حال مختلف نظر آتی ہے، تب سے اب تک سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس عدم مداخلت کے فوائد شاید فوری حاصل نہ ہوں لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست سے الگ رہنے کے عزم پر قائم رہے تو جمہوریت میں بہتری کی امید ہے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے طرزِ حکومت کا ذمے دار فوج کو نہیں کہا لیکن اقتدار جانے کے بعد مانا کہ انہیں فوجی حمایت حاصل تھی۔ بجٹ منظور کروانے اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے انہوں نے فوج سے حمایت مانگی تھی، عمران خان کی حکومت تب ختم ہوئی، جب فوجی حمایت ہٹالی گئی
پلڈاٹ کے مطابق قومی اسمبلی وہ ایوان تھی جہاں سے عدم اعتماد کا ووٹ شروع ہوا تھا اور اسے منظور کیا گیا، لیکن اس سال کے دوران اس اسمبلی نے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے بہت کم کام دیکھا ہے
اس نئی رپورٹ کے حوالے سے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں صرف اسٹیبلشمنٹ ذمے دار نہیں ہے بلکہ سیاستدان بھی اس خرابی میں برابر کے شریک ہیں
احمد بلال کہتے ہیں کہ جو زیادہ طاقتور ہوتا ہے، اس کی ذمے داری بھی زیادہ ہوتی ہے، پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ فوج ہے اور انہوں نے تسلیم کیا کہ ستر برسوں میں انہوں نے سیاست میں مداخلت کی ہے، لہٰذا ان کی ذمے داری بھی زیادہ ہے
انہوں نے کہا کہ ابھی فوج کی عدم مداخلت کا کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ ابھی صرف ایک ماہ گزرا ہے، جس میں انہوں نے سیاست سے الگ ہونے کا کہا ہے۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ مداخلت رک گئی ہو اور اگر ایسا ہوا تو آئندہ چند ماہ میں نظر آجائے گا
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں مداخلت کا نشہ ستر برس سے ہے، جبکہ سیاستدانوں کو بھی یہ نشہ ہے کیونکہ وہ ہر معاملے میں ‘گیٹ نمبر چار’ کی طرف دیکھتے ہیں
احمد بلال کے بقول، اگر اسٹیبلشمنٹ نے حتمی فیصلہ کر لیا ہے تو ایسے ہی ہوگا
پلڈاٹ کے سربراہ کہتے ہیں کہ فوج پر جتنی تنقید 2022ع میں ہوئی، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی
اُن کے بقول فوج کے ادارے پر براہ راست بات اور تنقید کی جارہی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جنرل باجوہ کے دور میں حد سے زیادہ سیاست میں مداخلت کی گئی اور اس کا ہی ردِعمل سامنے آیا ہے
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا، فوج کے سیاست میں عدم مداخلت کے شواہد سامنے آتے رہیں گے
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ادارہ جب اپنے عمل سے یہ ثابت کرے گا کہ وہ کوئی مداخلت نہیں کر رہا تو سیاستدانوں اور اداروں کا اعتماد بحال ہوگا
انہوں نے کہا کہ یہ ادارے کے لیے بھی ایک مشکل فیصلہ ہے کیونکہ وہ ستر سال سے اس کام میں شامل رہے ہیں، وہ خود کو گارڈین سمجھتے ہیں اور ملک کے فیصلوں کا خود کو ذمے دار سمجھتے ہیں۔