طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی طرف سے میڈیکل اور سرجیکل آلات کے درآمد کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کی پالیسی سے شعبہ صحت کو ممکنہ طور پر بحران جنم لے سکتا ہے
طبی آلات کے درآمد کنندگان اس ممکنہ بحران کی ذمہ داری ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی پر ڈال رہے ہیں، جبکہ اتھارٹی سے وابستہ افراد اس صورت حال کا ذمہ دار امپورٹرز کو قرار دے رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان 70 سے 90 فیصد کے درمیان طبی آلات دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے اور فارما انڈسٹری کے لیے 80 سے 90 فیصد خام مال بھی ملک کو درآمد کرنا پڑتا ہے
اتھارٹی کے ایک سابق عہدیدار ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا ہے ”اس رجسٹریشن کے حوالے سے قوانین 2012 میں بنے تھے۔ ہم نے 2018 میں اس حوالے سے قواعد بنائے اور اس کے بعد میڈیکل ڈیوائسز امپورٹرز کو رجسٹریشن کے لیے کئی دفعہ مہلت بھی دی گئی۔ تاہم یہ لوگ اپنا وقت ان قوانین پر عمل کرنے کے بجائے وزیروں اور مشیروں کے دفاتر کے چکر کاٹنے میں صرف کر دیتے تھے‘‘
انہوں نے کہا ”ان کو آخری مہلت 31 دسمبر 2022 کی دی گئی تھی لیکن انہوں نے اس موقع سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ شپ منٹس رکنے پر ان کو خیال آیا ہے لیکن یہ صورت حال بنیادی طور پر ان ہی کی وجہ سے بنی ہے‘‘
دوسری جانب طبی شعبے سے تعلق رکھنے والے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیوائسز کی رجسٹریشن کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اسلام آباد شاخ کے سابق صدر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کہتے ہیں ”ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس کوئی مہارت نہیں ہے۔ نہ ان کے پاس متعلقہ اسٹاف ہے اور نہ ہی کوئی ماہرین کی ٹیم ہے۔ اگر وہ رجسٹریشن چاہتے ہیں تو مشینوں کے مندرجات کی تفصیل دیں لیکن اتھارٹی کے پاس ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے‘‘
میاں عبدالرشید کا کہنا ہے ”اس رجسٹریشن کے طریقہ کار کو ختم کرنا چاہیے۔ شعبہ صحت میں لیٹر آف (ایل سی) کریڈٹ نہ کھلنے کی وجہ سے پہلے ہی اس شعبے کو بحران کا سامنا ہے اور اگر اس رجسٹریشن کو ختم نہیں کیا یا کم وقت میں نہ کیا گیا تو اس سے صحت کے شعبے کو مزید نقصان ہو گا کیونکہ میڈیکل کِٹس سے لے کر ایم آر آئی مشینیوں تک سب کچھ امپورٹ ہوتا ہے‘‘
پاکستان کی بڑی فارما انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ”فارما انڈسٹری کو پہلے ہی ایل سی کی وجہ سے بہت سی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ اب یہ رجسٹریشن کی کہانی آگئی ہے، جس کی وجہ سے بحران مزید شدید ہوگا‘‘
ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت ایسے تین لاکھ سے زائد میڈیکل ڈیوائسز موجود ہیں، جن کی رجسٹریشن ہونی ہے۔ ڈاکٹر عبدالرشید اتھارٹی کے پاس افرادی قوت اور ماہرین کی کمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں ”لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رجسٹریشن کو ختم کر دیا جائے۔ طبی آلات کی رجسٹریشن اس لیے ضروری ہے کہ اگر وینٹیلیٹر یا کسی اور مشین کی کوالٹی بہت کم ہے تو وہ مریضوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے“
انہوں نے کہا ”یہ بات درست ہے کہ 2012ع سے پہلے بہت ساری چیزوں کی رجسٹریشن نہیں ہوتی تھی، لیکن اس کے بعد ہربل میڈیسن اور ہومیوپیتھک میڈیسن سمیت کئی چیزوں کی رجسٹریشن شروع کر دی گئی۔ اس رجسٹریشن کی وجہ سے اس سارے عمل میں شفافیت آتی ہے‘‘
اس ساری صورتحال پر فارما انڈسٹری میں سپلائی چین کے ایک ماہر کا کہنا ہے ”بحرانی کیفیت شروع ہو چکی ہے۔ کراچی، لاہور، پشاور سمیت کئی شہروں میں سریجنز اور انجیکٹبلز سمیت کئی طبی آلات کی قلت شروع ہو چکی ہے۔ کوئی اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہا۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان مریضوں کو ہوگا‘‘