”ان کو ایسے ہی ختم کیا، جیسے بورڈ پر سے گوٹیاں ہٹائی جاتی ہیں“ پرنس ہیری کا افغانستان میں پچیس افراد مارنے کا اعتراف

ویب ڈیسک

برطانوی شہزادے ہیری نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے دوران انہوں نے 25 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ لیکن ان ہلاکتوں پر انہیں نہ تو فخر ہے اور نہ ہی شرمندگی، کیونکہ حالات جنگ میں ایسا ہوتا رہتا ہے

یاد رہے کہ اڑتیس سالہ ڈیوک آف سَسیکس نے نیٹو افواج کے دور میں افغانستان کے دو دورے کیے تھے، جن میں پہلا فارورڈ ایئرکنٹرولر کے طور پر تھا جبکہ دوسری بار 2012،13 میں جنگی ہیلی کاپٹر اڑایا

برطانیہ کے شاہ چارلس سوم کے چھوٹے بیٹے شہزادہ ہیری کی خودنوشت "اسپیئر” کی اشاعت گو کہ اگلے ہفتے تک کے لیے موخر ہو گئی ہے، لیکن اس کا ہسپانوی ترجمہ غلطی سے جمعرات کے روز بازار میں آ گیا۔ حالانکہ بعد میں اسپین میں اس کی کاپیاں دکانوں سے فوراً ہٹالی گئیں، لیکن اس وقت تک یہ کتاب میڈیا کے ہاتھ لگ چکی تھی

شہزادہ ہیری کے ’اسپیئر‘ کی اشاعت پر آئندہ منگل تک کے لیے روک لگا دی گئی ہے لیکن برطانوی اخبار ’گارڈیئن‘ کے امریکی ایڈیشن نے کتاب میں کیے گئے بعض ’دھماکہ خیز‘ انکشافات شائع کر دیے ہیں

گارڈیئن کے مطابق ڈیوک آف سسیکس شہزادہ ہیری نے افغانستان میں دوجنگی محاذوں پر اپنی ڈیوٹی کے حوالے سے خودنوشت میں لکھا ہے ”بیشتر فوجیوں کو یہ علم نہیں ہوتا ہے کہ انہوں نے کتنے لوگوں کو ہلاک کیا۔ جنگی حالات میں آپ کو بالعموم اندھادھند فائرنگ کرنی پڑتی ہے۔ تاہم اپاچے اور لیپ ٹاپ کے اس دور میں، میں نے دو گھنٹے کی اپنی ڈیوٹی کے دوران جو کچھ کیا وہ سب کچھ ریکارڈ ہے“

انہوں نے لکھا ہے ”میں قطعیت کے ساتھ یہ بتا سکتا ہوں کہ میں نے دشمن کے کتنے لوگ مارے۔ اور مجھے اس تعداد کے حوالے سے کوئی خوف نہیں ہے۔ مسلح افواج میں مَیں نے جو بہت ساری چیزیں سیکھیں، ان میں سے ایک اہم چیز یہ ہے کہ میں اپنے عمل کے لیے خود ذمہ دار ہوں“

شہزادہ ہیری لکھتے ہیں ”پائلٹ کے طور پر میں نے چھ مشنز میں حصہ لیا جو لوگوں کی جان لینے کا سبب بنے۔ اس پر نہ مجھے فخر ہے اور نہ ہی شرمندگی“

انہوں نے شطرنج کی مثال دیتے ہوئے کہا ”ان کو ایسے ہی ختم کیا، جیسے بورڈ پر سے گوٹیاں ہٹائی جاتی ہیں“

پرنس ہیری نے دس سال تک برطانوی فوج میں خدمات انجام دیں اور کیپٹن کے رینک تک گئے

ان کے پہلے مشن کے موقع پر سکیورٹی وجوہات کی بنا پر برطانوی میڈیا کو اشاعت سے منع کیا گیا تھا، جس پر میڈیا نے اتفاق کرتے ہوئے ایسا ہی کیا تاہم بعدازاں ایک اشاعتی ادارے نے اس ’پابندی‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خبر شائع کر دی، جس کے بعد شہزاہ ہیری کو واپس لوٹنا پڑا

انہوں نے کسی پبلک مقام پر پہلے کبھی ایسا نہیں کہا کہ انہوں نے کتنے افغان شہریوں کو مارا

ان کے ہیلی کاپٹر کے سامنے نصب کیمرے کی وجہ سے وہ یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ انہوں نے کتنے لوگوں کو مارا

انہوں نے کتاب میں لکھا ہے ”میں نے پچیس کو مارا۔ یہ ہندسہ میرے لیے اطمینان کا باعث ہے اور نہ شرمندگی کا“

انہوں نے نائن الیون اور اس کے متاثرین کے اہلِ خانہ سے ملاقات کو ان اقدامات کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے

پرنس ہیری کے مطابق ”جو اس (نائن الیون) کے ذمہ دار تھے اور جو ان سے ہمدردی رکھتے ہیں، وہ انسانیت کے دشمن ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close