کراچی کے علاقے پاکستان چوک میں واقع ایک پرنٹنگ پریس میں مشین کے شور سے گونجتے ہوئے ایک مدھم روشنی والے کمرے میں، نوجوان ملازمین شادی کے کارڈز کو جوڑ اور پیک کر رہے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے چہروں پر پریشانی کے آثار نمایاں ہیں
پاکستان چوک کا علاقہ کبھی پرنٹنگ پریس کے بہت بڑے کاروبار کے لیے مشہور تھا لیکن آج یہاں زیادہ تر مشینیں پڑی ہیں اور ہزاروں ملازمین کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے
ان میں سے زیادہ تر ملازمین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی کرایوں میں اضافے اور پاکستانی کرنسی کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران پرنٹنگ پیپر کی قیمت میں تقریباً دو سو فی صد اضافہ ہوا ہے، لہٰذا انہیں خدشہ ہے کہ وہ بے روزگار ہو جائیں گے
پریس مالکان کا خیال بھی اس سے مختلف نہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ کاغذ کی بڑھتی ہوئی قیمت اور مانگ میں کمی کی وجہ سے دعوت ناموں اور وزیٹنگ کارڈز کے ساتھ ساتھ کتابوں کی چھپائی کا کاروبار بھی آدھا رہ گیا ہے
پاکستان اپنی کاغذی ضروریات کا نوے فیصد مقامی طور پر پورا کرتا ہے لیکن خام مال یعنی پلپ درآمد کیا جاتا ہے۔ درآمد شدہ کاغذ پر بھی مختلف ٹیکسز لگائے گئے ہیں
آل پاکستان پیپر مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سینیئر وائس چیئرمین محمد انیس نے بتایا ”جب ڈالر اور روپے کے درمیان بڑھتی ہوئے تفاوت اور کرایوں کی وجہ سے درآمدی آفسیٹ پرنٹنگ پیپر کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو مقامی ملوں نے بھی قیمتیں بڑھا دیں۔ کاغذ کی بڑھتی ہوئی قیمت پرنٹنگ پریس کے مالکان، ملازمین، پبلشرز، فروخت کنندگان اور شہریوں کو یکساں طور پر متاثر کر رہی ہیں۔“
دوسری جانب بجلی کے زیادہ نرخ اور بڑھتی ہوئی اجرت بھی پرنٹنگ کے کاروبار کے زوال کا سبب بن رہی ہے، مالکان اب معمولی منافعے پر گزارا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
پاکستان سمال پرنٹنگ پریس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری محمود حامد کہتے ہیں ”کاغذی مارکیٹ تقریباً سونے کی طرح برتاؤ کر رہی ہے۔ ہر روز نئی قیمتیں ہوتی ہیں۔۔۔ بے یقینی اور خوف کا ماحول ہے“
انہوں نے کہا ”ہماری کاروباری سرگرمیوں میں چالیس فی صد کمی آئی ہے۔ ہماری ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں۔ یہ صرف مزدور ہی نہیں ہیں، جو تکلیف میں ہیں۔ مالکان کے لیے بھی کاغذ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گھٹتے ہوئے کاروبار کے ساتھ قدم ملا کر چلنا مشکل ہو رہا ہے“
مسلسل بڑھتے ہوئے افراطِ زر نے ملک کی معیشت پر شدید دباؤ ڈالا ہے، جو غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، گرتی ہوئی اور غیر مستحکم کرنسی کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے بھی دوچار ہے
محمد انیس کہتے ہیں ”یہ اب بہت تکلیف دہ صورت حال ہے، بالخصوص چھوٹے بچوں کے والدین کے لیے“
اسکول کورس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ دیگر تعلیمی مواد کے ایک مکمل سیٹ کی اوسط قیمت جو پہلے چار ہزار سے پانچ ہزار تھی، اب بڑھ کر بارہ سے پندرہ ہزار ہوگئی ہے۔ یہ دو سو فی صد اضافہ ہے
اس صورتحال کے باعث کچھ درسی کتابیں اب بھی بازار میں دستیاب نہیں ہیں، حالانکہ کچھ عرصہ قبل تعلیمی سال شروع ہو چکا ہے
پاکستان چوک کے قریب واقع کراچی کے مشہور اردو بازار میں کچھ فروخت کنندگان کا کہنا ہے کہ وہ کام کے متبادل مواقع تلاش کر رہے ہیں اور اپنے کاروبار کو بند کرنے کا سوچ رہے ہیں
انہوں نے کہا ”ٹیکسٹ بک پرنٹنگ کے لیے استعمال ہونے والے کاغذ کی قیمتیں، جو کبھی تیرہ سو روپے فی رِم ہوا کرتی تھیں، اب ساڑھے تین سے چار ہزار روپے کے آس پاس ہیں“
پبلشنگ کے کاروبار سے وابستہ عثمان غنی طاہر کہتے ہیں ”ظاہر ہے کہ اتنے زیادہ نرخوں پر کاروبار پبلشرز کے لیے ناممکن ہے۔۔ کتابوں کی چھپائی کا کاروبار اب صرف چالیس فی صد رہ گیا ہے اور مزید کچھ لوگ اپنے کاروبار کو ختم کر رہے ہیں“
چھ بچوں کے والد عبداللہ عبدالغفور، جو ایک مقامی پرنٹنگ پریس میں بک بائنڈر کے طور پر کام کرتے ہیں، نے کہا کہ انہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے خاندان کے تمام افراد کو کام پر لگانا پڑا
انہوں نے بتایا ”میں روزانہ سات سو روپے کماتا ہوں اور اسی دن خرچ کر لیتا ہوں، میرے سبھی بچے فیملی کی آمدنی بڑھانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ پھر بھی، میں مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوں کیونکہ ہمیں زیادہ کام نہیں مل رہا اور میرے بچوں کی آمدنی بھی کم ہو گئی ہے۔ کبھی کبھی ہمیں کھانا بھی کم ملتا ہے“
اگرچہ کاروباری مالکان کا کہنا ہے کہ وہ مشکلات کا شکار ملازمین کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن ان کے پاس اپنے مزدوروں کی بڑھتی ہوئی مالی ضروریات کا بوجھ اٹھانے کے وسائل نہیں
آل پاکستان آرگنائزیشن آف سمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹری کے جنرل سیکرٹری محمد عثمان شریف نے کہا ”ہمارا کاروبار صرف پچاس فی صد رہ گیا ہے۔ شادی کارڈ کی چھپائی کی لاگت جو پہلے بیس روپے ہوا کرتی تھی، اب اَسّی روپے ہو گئی ہے۔ بہت سے لوگ پہلے ایک ہزار شادی کارڈ چھپواتے تھے، لیکن اب ہمارے زیادہ تر گاہک صرف ایک سو یا دو سو کارڈ کا کہتے ہیں“
پاکستان اسمال پرنٹنگ پریس ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے محمود حامد کا کہنا تھا ”پرنٹنگ کا کاروبار سکڑ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی مناسب کام کے بغیر مزدوری نہیں دے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ بیس سے پچیس فی صد مزدور پہلے ہی اپنا ذریعہ معاش کھو چکے ہیں۔“