صوبہ خیبر پختونخوا میں بچوں کے تحفظ اور تعیلم و تربیت کے لیے قوانین بنائے تو گئے لیکن نافذ نہ ہو سکے۔ ستر فیصد قوانین کے نفاذ کے لیے قواعد نہ بننے کا ایک نتیجہ نابالغ بچوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ بھی ہے
سال 2022ع کے دوران صوبہ خیبر پختونخوا میں مختلف جرائم کے ارتکاب کے الزام میں مجموعی طور پر تین سو انتیس بچے گرفتار کیے گئے۔ ان میں سے دو سو پینسٹھ بچوں پر قتل، اقدامِ قتل، ریپ، چوری، راہزنی اور دیگر سنگین جرائم کے الزامات تھے
صوبے میں ایسے جرائم میں ملوث نابالغ ملزمان کی شرح میں اضافے کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں، جن میں والدین کی سرپرستی نہ ہونے کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مابین عدم تعاون بھی شامل ہیں
قانون سازی سے قبل سبھی سماجی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لینا اور بچوں کو تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کی جانب سے آگہی کا فقدان بھی ایسے جرائم کی شرح میں اضافے کی بڑی وجوہات قرار دیے جاتے ہیں
ناقدین کا کہنا ہے کہ بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے گراس روٹ لیول پر کام کرنے کے بجائے مہنگے ہوٹلوں میں ورکشاپیں اور سیمینار منعقد کراتے اور بڑے اشاعتی اداروں کے ذریعے اپنی مہمیں چلا تے ہیں، تاکہ مالی معاونت کرنے والے اداروں کی توجہ حاصل کر سکیں
دیہی علاقوں کی صورتحال
خیبر پختونخوا کی اَسّی فی صد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ یہ شہری اکثر بچوں کے حقوق کے حوالے سے بھی لاعلم ہوتے ہیں۔ ان دیہی علاقوں میں زیادہ تر بچے تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اب صوبے کا باقاعدہ حصہ بنائے جا چکے سابقہ قبائلی علاقوں میں تو صورت حال کہیں بد تر ہے
ان نئے اضلاع میں پانچ سے دس سال تک کی عمر کے ستر فی صد سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق تو صوبے میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 7.4 ملین بنتی ہے
پولیس اور قانونی ماہرین کا موقف
صوبائی پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل محمد علی باباخیل کہتے ہیں ”خیبر پختونخوا ملک کا ایسا پہلا صوبہ ہے، جس نے پولیس ایکٹ 2017ع کے نام سے قانون بنایا، جس میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی شقیں موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا پولیس نے بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں سے چھان بین کا ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کر رکھا ہے‘‘
تاہم اے آئی جی باباخیل کا کہنا ہے ’’پاکستان شاید سب سے زیادہ قانون سازی کرنے والا ملک ہے۔ لیکن قانون ساز قوانین بنانے کے بعد مڑ کر پیچھے بھی نہیں دیکھتے۔ نہ تو قانون بنانے سے قبل ہوم ورک کیا جاتا ہے اور نہ ہی قانون سازی کے بعد اس کے عملی نفاذ کو یقینی بنانے یا اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے لیے کوئی نظام موجود ہے‘‘
محمد علی باباخیل کہتے ہیں ”اگر کوئی بچہ غلط کام کر رہا ہو، تو ہم عوامی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو وقت دیں۔ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ہمارے ہاں بالخصوص سائبر کرائمز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے‘‘
خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے کچھ عرصہ قبل فری ایجوکیشن، مفت بستے، فری لیگل ایڈ اور صحت مند بچوں کی پیدائش کے حوالے سے شادی سے قبل مردوں اور عورتوں کے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کرائے جانے کا قانون بھی بنایا تھا، لیکن آج تک اس قانون پر عمل درآمد کے لیے بھی کوئی قواعد و ضوابط طے نہیں کیے جا سکے
خیبر پختونخوا میں نابالغ ملزمان کو انصاف دلانے کی کوششیں کرنے والے پشاور ہائی کورٹ کے ایک وکیل نور عالم خان کا کہنا ہے ”یہ خطہ چار دہائیوں سے جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ بہت بڑی تعداد میں بچے یتیم ہو گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بچوں کے تمام ترحقوق کی بھی نفی کر دی گئی۔ خیبر پختونخوا میں قوانین تو موجود ہیں لیکن ان سے متعلق آگہی کا فقدان ہے‘‘
نور عالم خان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے والدین بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتے، بچوں کو ایسی تربیت نہیں دیتے کہ وہ معاشرے کے کارآمد ارکان بن سکیں، ”حکومتی اداروں کو موجودہ قوانین کو نافذ کرنے کے علاوہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی مؤثر اقدامات کرنا چاہییں۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ جرم کی آڑ میں معصوم بچوں کا استحصال نہ کیا جائے۔ اگر بچوں کو مناسب تربیت نہ دی جائے اور معاشرہ بھی ان بچوں کو ان کے حقوق نہ دے تو یہی بچے پورے معاشرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔‘‘
چائلڈ پروٹیکشن خیبر پختونخوا
پشاور میں صوبائی حکومت نے 2010ع میں چائلڈ پروٹیکشن کا قانون منظور کروایا تھا، تاہم اس کے لیے قواعد و ضوابط پانچ سال بعد متعارف کرائے گئے۔ چائلڈ پروٹیکشن خیبر پختونخوا کے سربراہ اعجاز محمد خان بتاتے ہیں ”ہم دیہی اور شہری علاقوں میں ایک ہزار سے زیادہ کمیٹیاں بنا چکے ہیں، جن کا کام بچوں کے استحصال کے خلاف آگاہی پھیلانا بھی ہے اور بچوں کے تحفظ کے منافی واقعات کی مرکز کو اطلاع دینا بھی‘‘
اعجاز محمد خان نے بتایا ”ہم اب تک تقریباً چار ہزار بچوں کے خلاف کیس حل کرا چکے ہیں۔ چائلڈ میرج کے متعدد واقعات میں بھی ہم مداخلت کر کے ایسے واقعات کو روکنے میں کامیاب رہے۔ ان میں ایسے بچے بھی تھے، جن کے والدین فوت ہو چکے تھے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ متعلقہ قانون میں اب بھی سقم موجود ہیں، جن کے باعث پولیس ایسے ہر واقعے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔‘‘
پاکستان میں اس وقت بچوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں میں سے آٹھ خیبر پختونخوا میں ہیں۔ اس صوبے میں بچوں کے حوالے سے ہنگامی حالات میں ٹیلی فون نمبر 1121 پر کال کر کے ہیلپ لائن پر فوری شکایت بھی کی جا سکتی ہے۔