محمد حفیظ: صرف آواز سن کر گاڑی ٹھیک کرنے والا بینائی سے محروم میکینک

ویب ڈیسک

ہم اپنی زندگی کے لیے نہ جانے کیا کیا منصوبے بناتے ہیں، لیکن اُس وقت ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ آگے زندگی کون سا موڑ مڑنے والی ہے۔۔ زندگی ایسی ہی ہے، اس میں کب اور کیا مصیبت آن پڑے، اس کا آج تک کوئی اندازہ نہیں لگا سکا

مسئلہ یہ نہیں کہ زندگی ہماری توقعات کے برعکس ہوتی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ایسا ہونے پر ہم کس طرح کا رویہ اپناتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ ان مصیبتوں سے اتنے پریشان اور مایوس ہو جاتے ہیں کہ وہ جینے کی امید چھوڑ دیتے ہیں لیکن بلند حوصلوں اور مضبوط قوتِ ارادی کے مالک لوگ کبھی ہمت نہیں ہارتے

بھارتی جنوبی ریاست تلنگانہ کے ورنگل ضلع سے تعلق رکھنے والے محمد حفیظ ایسی ہی ایک شخصیت ہیں جنہوں نے بلند حوصلوں اور مضبوط قوت ارادی سے ناقابل تصور اور بڑی مصیبتوں کو شکست دی

محمد حفیظ قوت بصارت سے محروم ضرور ہیں، لیکن وہ اپنے قوت بازو پر زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھے ہوئے ہیں

بینائی سے محرومی کے باوجود آٹو مکینیک محمد حفیظ ہیں کہتے ہیں کہ ”میں انجن کی آواز کی مدد سے گاڑی کی خرابی کا پتہ لگا کر اس کی مرمت کرتا ہوں“

وہ بتاتے ہیں ”میں نے حوصلے کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کیا۔ اپنی مجبوری کو کمزوری نہیں بنایا اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے خود محنت کر کے اپنا خاندان پالنے کو ترجیح دی“

محمد حفیظ ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے لیکن زندگی میں ایک ایسی بڑی مصیبت آئی جس کا تصور وہ اپنے برے سے برے خواب میں بھی نہیں کر سکتے تھے

وہ 2003ع میں ایک حادثے کا شکار ہو گئے اور چوٹ کے باعث ان کی بائیں آنکھ کی روشنی چلی گئی، تاہم انہوں نے ہمت نہ ہارتے ہوئے دوبارہ سے زندگی کی جنگ لڑنے کا عزم کیا، تاہم قسمت کو کچھ اور منظور تھا

2005ع میں ایک اور سانحہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی کو پوری طرح سے اندھیرے میں دھکیل دیا

محمد حفیظ بتاتے ہیں ”2005ع میں دیوالی کے موقعے پر بچوں کے لیے پٹاخے لایا تھا۔ سب مل کر دیوالی منا رہے تھے کہ اچانک پٹاخہ آنکھ پر لگا، جس کی وجہ سے میری دوسری آنکھ بھی متاثر ہوئی اور زندگی میں تاریکی چھا گئی“

محمد حفیظ نے بتایا ”اُس وقت میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہا تھا۔ ذہنی تکلیف کا احساس ستانے لگا تھا۔ ذہن میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے اور سوچ رہا تھا کہ اب میں دوسروں پر بوجھ بن گیا۔۔ اس اندھیرے میں کس طرح کام کروں گا۔۔ زندگی برباد ہو گئی“

وہ کہتے ہیں ”اِنہی خیالات کے زیرِ اثر ایک دن زندگی سے مایوس ہو کر انتہائی قدم کا سوچا، لیکن خیال آیا کہ خودداری خود کو خاتمہ کرنے سے نہیں بلکہ زندگی کی جنگ سے لڑنے میں ہے“

بقول محمد حفیظ: ’پیدائشی معذور چل سکتے ہیں لیکن میں نہیں چل سکتا ہوں۔ اکثر چلتے چلتے ٹھوکر کھا کر گر جاتا، ٹھوکریں لگنے کی وجہ سے ہاتھ پاوں زخمی ہوتے تھے۔‘

محمد حفیظ کی آنکھوں میں تاریکی ضرور ہے لیکن وہ اپنے اہل خانہ کی زندگی میں روشنی بکھیر رہے ہیں۔ وہ خاندان کی کفالت اور باعزت زندگی گزارنے کے باعث سب کے لیے ایک بہترین مثال بنا ہوئے ہیں خاص طور پر ان کے لیے جو صحت کامل ہونے لیے باوجود بھی دوسروں پر منحصر ہوتے ہیں

محمد حفیظ خوش ہیں کہ وہ کسی کے سامنے سر جھکائے بغیر بہترین زندگی گزارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close