سندھ: ٹنڈو بہاول سانحے سے ماڑی جلبانی واقعے تک۔۔۔

ویب ڈیسک

سندھ کے شہر سکرنڈ سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ماڑی جلبانی میں پولیس اور رینجرز کی کارروائی کے دوران فائرنگ سے کم از کم سات افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں

ماڑی جبلانی میں جمعرات کی دوپہر کو پیش آنے والے اس واقعے کے بارے میں، مقامی افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا موقف بالکل مختلف ہے

ایس ایس پی نواب شاہ کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق سکرنڈ کے قریب ماڑی جلبانی میں ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک ملزم کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی تھی، جس کے دوران دیہاتیوں نے پولیس اور رینجرز پر حملہ کر دیا جس میں تین رینجرز اہلکار زخمی ہوئے اور پھر پولیس اور رینجرز کی جوابی فائرنگ میں تین افراد ہلاک اور پانچ شدید زخمی ہوئے۔‘

تاہم متاثرین کا کہنا ہے کہ رینجرز نے نہتے افراد پر فائرنگ کی۔

اس واقعے کے بعد ہلاک ہونے والوں اور زخمی افراد کو ڈاٹسن پک اپ اور چنگچی رکشوں کے ذریعے نواب شاہ ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ بعد ازاں ماڑی جلبانی گاؤں کے رہائشیوں اور علاقہ مکینوں نے لاشوں سمیت قومی شاہراہ پر دھرنا دیا، جس میں شہر کی سیاسی سماجی تنظیمیں بھی شامل ہو چکی ہیں

ماڑی جلبانی کے رہائشی حاجی گل جلبانی نے بتایا ”دوپہر تقریبا دو بجے کا وقت تھا جب رینجرز اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس اہلکار سات آٹھ گاڑیوں میں گاؤں پہنچے۔ پہلے تو لوگ یہ سمجھے کہ بجلی چوری کے خلاف آپریشن جاری ہے اور شاید یہ اہلکار اسی سلسلے میں آئے ہیں۔ لیکن بعد میں ان کا دوسرا روپ سامنے آیا“

حاجی گل جلبانی کا کہنا تھا ”رینجرز اور پولیس اہلکار گلیوں اور محلوں میں جانے لگے اور ان کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا تھا جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ وہ اس نوجوان کو گھروں کی نشاندہی کرنے کے لیے کہہ رہے تھے“

انھوں نے کہا کہ اس موقع پر ’مقامی لوگوں نے کہا کہ وہ پردہ دار ہیں اور اپنے گھروں میں پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو اس طرح داخل ہونے نہیں دیں گے۔‘

اسی موقع پر حاجی گل جلبانی کے مطابق مقامی افراد اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی

انہوں نے الزام عائد کیا کہ اہلکاروں نے فائرنگ شروع کر دی، جس میں ان کے چار لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے

مقامی افراد کے موقف کے برعکس پولیس اور رینجرز کا اس واقعے پر موقف بالکل مختلف ہے۔

نواب شاہ پولیس کا کہنا ہے کہ ’ملزم‘ کی گرفتاری میں مزاحمت ہوئی، جس کے دوران رینجرز اہلکار زخمی ہوئے اور اس کے بعد رینجرز نے فائرنگ کی۔ رینجرز کے ترجمان کی جانب سے بھی اس واقعے پر اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سندھ رینجرز اور پولیس نے خفیہ ادارے کی اطلاع پر’ شرپسند اور جرائم پیشہ افراد‘ کے موجودگی پر آپریشن کیا تھا

رینجرز کے بیان کے مطابق خفیہ ادارے کی جانب سے ہائی ویلیو ملزمان کی موجودگی کی اطلاع تھی اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان ملزمان کے پاس دھماکہ خیز مواد اور اسلحہ ہے

ترجمان کا دعویٰ ہے کہ رینجرز اور پولیس کو دیکھتے ہی شرپسند عناصر نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں رینجرز کے چار جوان زخمی ہو گئے۔

رینجرز کا دعویٰ ہے کہ پولیس اور رینجرز کی جوابی کارروائی میں تین حملہ آور ہلاک ہو گئے

دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ حارث نواز نے کہا ہے کہ رینجرز اور پولیس نے ’ایک خودکش حملہ آور‘ کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی تھی، جس میں دو مشتبہ افراد مارے گئے اور چار رینجرز اہلکار زخمی ہوئے

تاہم رینجرز کے بیان اور پولیس اہلکاروں کے موقف میں بھی تضاد واضح طور پر نظر آتا ہے

جبکہ پیپلز میڈیکل کالج ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عقیل قریشی نے بتایا کہ پانچ افراد کو زخمی ہونے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے، جبکہ ہسپتال میں کسی زخمی رینجرز یا پولیس اہلکار کو نہیں لایا گیا

ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پولیس اور رینجرز اپنے جن زخمی اہلکاروں کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہ کہاں ہیں؟

پولیس اور رینجرز جس ہائی ویلیو ملزم کو گرفتار کرنے پہنچی تھی، وہ ماڑی جلبانی گاؤں کے اسی سالہ بزرگ سیاسی اور سماجی کارکن رجب جلبانی ہیں

رجب جلبانی کا کہنا ہے کہ وہ ایک کسان ہیں۔ ”میں ہمیشہ سماجی برائیوں کے خلاف جدوجہد کرتا رہا ہوں اور ان سندھ کی عدم تشدد کی قومپرست فکر سے وابستہ ہوں“

رجب جلبانی نے بتایا کہ ان کے خلاف 2019 میں غلط طور پر ایک مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا تھا ”بعد ازاں مجھ سے میری گاڑی اور لاکھوں روپے چھین کر مجھے رہا کیا گیا۔۔ یہ کسی ادارے کا قانونی طریقہ نہیں تھا بلکہ دراصل ایک اغوا کی واردات تھی۔ اس کے بعد بھی میرے گھر پر مسلسل چھاپے مارکر مجھے ہراساں کیے جانے کا سلسلہ چلتا رہا“

انہوں نے بتایا ”چونکہ میری سیاست سندھ میں ہمیشہ برسر اقتدار رہنے والی پیپلز پارٹی کی مخالفت میں رہی ہے۔ رواں ماہ 8 تاریخ کو بھی میرے گھر پر پولیس وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور ہم سے ہمارے موبائل فون اور نقد رقم بھی چھین لی۔ بعد ازاں مزاحمت پر وہ لوگ چلے گئے۔ جبکہ پولیس سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا“

انہوں نے کہا کہ جرائم پیشہ لوگوں، پولیس اور ڈاکووں کی سرپرستی کرنے والے وڈیروں کی وجہ سے ہم معمول کی زندگی گزارنے سے بھی قاصر ہیں

انہوں نے اعلیٰ عدلیہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر اداروں سے اپیل کی کہ ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے

علاقہ مکین حاجی گل جلبانی کا کہنا ہے کہ یہاں سارے لوگ چھوٹے کاشت کار اور کسان ہیں

انھوں نے کہا کہ ہلاک یا زخمی ہونے والے کسی ایک بندے پر بھی ایف آئی آر تو دور کی بات کسی تھانے میں کوئی شکایت کی درخواست بھی نہیں ہے

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر گاؤں میں جرائم پیشہ افراد ہوتے تو کم از کم پولیس کے پاس کوئی ریکارڈ تو موجود ہوتا۔‘

ادھر قوم پرست جماعت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے ووٹروں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے

انھوں نے ایس ایس پی نواب شاہ کے بیان کو مسترد کیا ہے اور مطالبہ کیا کہ ’بے قصور لوگوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے۔‘

سندھ کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے اس واقعے کو ریاستی دہشتگردی قرار دیا ہے۔

سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے فراہم کردہ بیان سے اختلاف کیا ہے

سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سیکریٹری جنرل روشن برڑو کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سکرنڈ میں واقع شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز میں ویٹرنری کے طالب علم لیاقت جلبانی کو حراست میں لے لیا ہے

روشن برڑو کے مطابق حکام لیاقت جلبانی کو سکرنڈ کے گاؤں ماڑی جلبانی میں اللہ داد جلبانی کی رہائش گاہ پر لائے تھے، جہاں پورا آپریشن انجام دیا گیا، انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ تصادم اس وقت ہوا، جب خواتین اور بچوں سمیت مقامی باشندے اللہ داد کے گھر کے اندر اور باہر جمع ہوئے اور اس دوران دیہاتیوں کی جانب سے اللہ داد جلبانی کو بچانے کی کوشش کی وجہ سے جھڑپ ہوئی

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ مقامی افراد نے کامیابی کے ساتھ لیاقت جلبانی کی حراست سے رہا کرا لیا لیکن اس جھگڑے کے دوران چار افراد ہلاک ہوئے

روشن برڑو نے کہا کہ گاؤں والوں نے اس واقعے کے خلاف سکرنڈ میں قومی شاہراہ کے ایک حصے پر چار لاشیں رکھ کر احتجاج کیا

انہوں نے کہا کہ مرنے والے افراد ہماری پارٹی کے حامی تھے، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ مظاہرے میں شرکت کے لیے سکرنڈ جا رہے تھے

انہوں نے مزید الزام لگایا کہ پولیس پیپلز پارٹی کے زیر اثر ہے، پارٹی کے حامیوں کو نشانہ بنا کر آئندہ عام انتخابات سے قبل سندھ یونائیٹڈ پارٹی کو جان بوجھ کر پیغام بھیجا گیا

اس کے علاوہ، ایک بیان میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک قرار دیا، انہوں نے پیپلز پارٹی پر عام انتخابات سے قبل انتقامی کارروائیاں شروع کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ سندھ کے عوام ایسے ہتھکنڈوں کو برداشت نہیں کریں گے

انہوں نے مزید الزام لگایا کہ پولیس نے جان بوجھ کر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے غیر مسلح حامیوں کو قریب سے نشانہ بنایا اور اندھا دھند گولیاں چلائیں۔

ماڑی جلبانی اور سانحہ ٹنڈو بہاول

وہ پانچ جون 1992 کی رات تھی۔ سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع ہوئے ابھی محض ایک ہی ہفتہ گزرا تھا کہ وہاں تعینات میجر ارشد جمیل اعوان کی سربراہی میں فوج کے ایک دستے نے دعویٰ کیا کہ فوج سے مقابلے میں نو ڈاکو مارے گئے ہیں

فوج نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہلاک ہونے والے ’جرائم پیشہ‘ افراد انڈین خفیہ ادارے ’را‘ سے بھی روابط رکھتے تھے اور اُن سے بھاری مقدار میں جدید اسلحہ برآمد کیا گیا ہے

فوجی افسر کے دعوے پر مبنی خبر شہری علاقوں سے شائع ہونے والے اخبارات میں چھپنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل آصف نواز دونوں ہی دریائے سندھ کے کنارے اس مقام پر پہنچے، جہاں فوج نے مقابلے کا دعویٰ کیا تھا

آئی ایس پی آر کے اس وقت سندھ میں نگران بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا بھی وزیراعظم اور آرمی چیف کے ہمراہ ٹنڈو بہاول گئے تھے

وہ بتاتے ہیں ’میں نے ہی کور کیا تھا۔ وہاں ڈاکوؤں سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی دکھایا گیا، جس کی ہم نے تصاویر بھی پریس کو جاری کیں اور وزیراعظم نے کارروائی میں شریک افسر اور ان کے دستے کے لیے انعامی رقم کا اعلان بھی کیا۔‘

صحافی ناز سہتو اُسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت انگریزی اخبار سندھ آبزرور اور سندھی اخبار خادمِ وطن دونوں ہی کے نیوز ایڈیٹر تھے

ناز سہتو کے مطابق تین چار روز تک تو شہری علاقوں کے بڑے اخبارات میں بھی اس مقابلے کی خوب پذیرائی ہوئی مگر پھر مقامی صحافیوں نے بالآخر اس کے اصل حقائق کا پردہ فاش کر دیا

ناز سہتو نے بتایا ’اور تب چانڈیو قبیلے سے تعلق رکھنے والی مائی جندو کے خاندان پر ٹوٹنے والی قیامت کا پتا چلا۔‘

اُس زمانے کے انگریزی اور اردو اخبارات اور اب انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق میجر ارشد جمیل اعوان کے بعض قرابت دار دراصل مائی جندو کے خاندان کی ملکیتی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں میجر ارشد جمیل سے ’مدد‘ مانگی

تحقیقات کے مطابق پانچ جون کی رات میجر ارشد اپنے 15 رکنی دستے کے ہمراہ مائی جندو کے گھر میں جا گھسے اور وہاں موجود نو افراد کو بندوق کی نوک پر اغوا کر لیا۔ اِن افراد میں مائی جندو کے دو بیٹے بہادر اور منٹھار جبکہ ایک داماد حاجی اکرم بھی شامل تھے

پھر میجر ارشد اور اُن کا دستہ تمام مغویوں کو لے کر دریائے سندھ کے کنارے پہنچا جہاں ان تمام افراد کو قطار میں کھڑا کر کے گولیاں مار دی گئیں اور مرنے والے نو افراد کو ڈاکو قرار دے دیا گیا

ناز سہتو کے مطابق ’ہمارے ایک نمائندے نے پانچ جون کی رات محض اتنی خبر دی کہ ٹنڈو بہاول سے کچھ افراد کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں لے گئے ہیں۔ دوسرے دن قریبی دریائی علاقے کوٹھڑی سے خبر آئی کہ کچھ لاشیں ہسپتال لائی گئی ہیں۔‘

لاشوں کی صرف تصاویر دستیاب تھیں جبکہ حراست کی خبر کی کوئی تفصیل نہیں تھی اور ناز سہتو سمیت کئی صحافی بھی دونوں خبروں کے تعلق سے بےخبر تھے۔

بہرحال مقامی اخبارات میں لاشوں کی تصاویر بغیر تفصیل کے شائع ہوئی اور حراست کی خبر کے لیے ناز سہتو سمیت کئی صحافی ٹنڈو بہاول پہنچے۔

ناز سہتو کے مطابق ’ٹنڈو بہاول کے سہمے ہوئے خوفزدہ لوگ جنھیں اپنے لوگوں کے فوجی افسر اور دستے کے ہاتھوں قتل کی کوئی اطلاع ہی نہیں تھی اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ حراست کی خبر پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھے مگر جب انھیں دریا کنارے سے ملنے والی لاشوں کی تصاویر دکھائی گئیں تو اُنھیں پہچان کر یہ لوگ رونے اور بین کرنے لگے۔‘

’پھر پتہ چلا کہ اصل میں ہوا کیا ہے اور مائی جندو کے خاندان پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے یعنی فوجی دستے نے مائی جندو کے خاندان کے ارکان کو ڈاکو قرار دے کر جعلی مقابلے میں قتل کر دیا۔‘

یہ حقائق پہلے مقامی پھر اردو اور انگریزی کے قومی اور بالآخر عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے تو ’سانحۂ ٹنڈو بہاول‘ ایسی قومی شرمندگی کا باعث بنا جس کا اعتراف اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز کو اعلانیہ طور پر کرنا پڑا۔

اسی شرمندگی میں فوج کی صوبائی قیادت تک اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا کے مطابق ’جی او سی حیدرآباد میجر جنرل سلیم الحق اور اُن کے نائب بریگیڈیئر کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔‘

اخبارات کے مطابق میجر ارشد جمیل اعوان کو فوج سے برطرف کر کے اور اُن کے دستے کے ارکان سمیت گرفتار کر لیا گیا اور ان کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل شروع ہوا۔

ناز سہتو کے مطابق مائی جندو اور اُن کے خاندان کو سمجھوتے کے بدلے بڑی زرعی زمین کی بھی پیشکش ہوئی مگر انھوں نے حصول انصاف کو ترجیح دی۔

ماورائے عدالت و قانون نو افراد کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر میجر ارشد جمیل کو پھانسی کی سزا تو سنا دی گئی مگر مائی جندو اور اُن کے خاندان کے لیے اس کے باوجود بھی انصاف کا حصول ہرگز آسان نہیں تھا۔

تقریباً چار برس تک مقدمہ فوجی اور دیگر ملکی عدالتوں میں روایتی تاخیر کا شکار ہوا اور مائی جندو کا خاندان انصاف کا منتظر رہا۔

اب اسے عدل کی فراہمی کی سست رفتار کہہ لیں یا نظام انصاف کی طویل محکمہ جاتی خامیاں مگر مائی جندو کے خاندان کو اپنے بے گناہ بیٹوں اور داماد سمیت نو افراد کے قاتلوں کو سزا دلوانے اور صرف ایک کو تختۂ دار تک پہنچانے کے لیے دو اور جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔

ستمبر 1996 میں مائی جندو کی دو صاحبزادیوں حاکم زادی اور زیب النِسا نے اعلان کیا کہ اگر اُن کے بھائیوں اور شوہر کے قاتلوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہ ہوا اور مزید تاخیر کی گئی تو وہ حیدرآباد میں عدالت کی عمارت کے سامنے خود سوزی کر لیں گی

اسے بھی بدقسمتی کہا جائے یا نظام انصاف کی کمزوری کے مائی جندو کی بیٹیوں کو آخرِ کار 11 ستمبر 1996 کو اپنی دھمکی پر عملدرآمد کرنا ہی پڑا۔

جھلس کے شدید زخمی ہو جانے کے بعد انتہائی نازک حالت میں دونوں بہنوں کو بیسیوں میل دُور کراچی کے سول ہسپتال منتقل کیا گیا کیونکہ پورے صوبے میں اس وقت کسی دوسرے ہسپتال میں برن وارڈ ہی نہیں تھا۔ اسی برن وارڈ میں دونوں بہنیں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بالآخر جان کی بازی ہار گئیں۔

دونوں بہنوں کے یوں زندگی ہار جانے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد 19 ستمبر 1996 کو مجھے وہ بزرگ کراچی میں ایک عدالت ہی کے باہر ملے۔ اُن بزرگ سے اپنی ملاقات میں کبھی فراموش نہیں کر پاؤں گا۔ وہ بدھ کی عجیب وحشت انگیز سی صبح تھی

کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع سٹی کورٹ کی ایک راہداری میں جامشورو سے آئے ایک بزرگ، جن کی نیلی مائل چھوٹی آنکھیں، پتلا مگر جھریوں بھرا چہرہ، روایتی سندھی مونچھیں، خشخشی ڈاڑھی، کاندھے پر پڑی اجرک اور ملگجا عام سا مگر صاف ستھرے لباس میں ملبوس۔۔

انھوں نے کہا تھا ’پُٹ (بیٹے) انسانی گوشت کے جلنے کی بُو تو شاید کمرۂ عدالت تک بھی نہیں پہنچ رہی تھی مگر آگ کے شعلوں سے جھلس جانے والی دونوں بہنوں کی چیخیں نظامِ انصاف کے کانوں میں وہ صُور پھُونک رہی تھیں کہ یوں لگا کہ پتّھر کی بنی ہوئی قانون کی دیوی بھی اپنی آنکھوں پر بندھی ہوئی سیاہ پَٹّی نوچ کر پھینک دے گی۔‘

مائی جندو کی بیٹیوں کی ہلاکت کے باوجود سزا پر عمل درآمد اس وقت تک نہیں ہو سکا جب تک سپریم کورٹ نے میجر ارشد کی سزائے موت کے خلاف اپیل اور پھر صدرِ پاکستان نے رحم کی اپیل مسترد نہیں کر دی۔

آخرِکار 28 اکتوبر 1996 کو میجر ارشد کو حیدرآباد کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی مگر واقعے کے دیگر ملزمان کو موت کی سزا نہ دی گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close