صاف ہوا ہر شہری کا آئینی حق ہونے کے باوجود ہوا کے معیار کو بہتر بنانا ہمارے اداروں کی ترجیحات میں شامل نظرنہیں آتا
شہروں کے تناظر میں موسمیاتی تبدیلیوں اور خراب ہوا کے معیار کی وجہ سے صحت عامہ کا بحران ایک عمومی بات نظر آرہی ہے اور عالمی ادارے اس حوالے سے انتباہ کر رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے اکثر شہر اس تباہی سے دو چار ہیں اور فضائی آلودگی کے سبب اموات میں اضافہ نہ صرف نظر آ رہا ہے بلکہ مستقبل میں اس میں سنگین اضافے کی توقع ہے۔ یوں ہمارے شہروں کا مستقبل صحت عامہ کے مسائل کے لحاظ سے ایک بڑے خطرے سے گھرا ہوا ہے
سانس کے امراض، پھیپڑوں کی بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں کیونکہ ہم آلودہ، بلکہ زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔ اگر ہم ارد گرد نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ غیر صحت مند ہے کیونکہ موسم چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو گلے کی بیماریاں، کھانسی اور نزلہ ایک معمول ہے۔ پھر سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں کم عمر بچے یا بوڑھے یا پھر وہ لوگ، جو پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہیں، شامل نظر آتے ہیں
پاکستان کے تمام بڑے شہروں کو دیکھیں وہ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نبرد آزما ہیں اور کسی نہ کسی قسم کے خطرات سے دوچار نظر آتے ہیں کراچی اور اسلام آباد میں شہری سیلاب، شدید بارشیں تو پنجاب کے شہروں میں دھند ہے۔ تو کہیں پینے کا پانی میسر نہیں ان سب عوامل کے ساتھ آلودہ اور زہریلی ہوا سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ شہر کے شہر اس کی لپیٹ میں ہیں اور یہ حدود و قیود سے آزاد ہے۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک آلودگی کے وہ ذرات ہیں جنہیں پی ایم ۲.۵ کہا جاتا ہے اور یہ انتہائی باریک ہوتے ہیں۔ ہم عام آنکھ سے انہیں نہیں دیکھ سکتے بلکہ مائکرو اسکوپ سے اس کی موجودگی پتہ چلتی ہے۔ اور یہ طویل فاصلے تک سفر کر سکتے ہیں۔ پھر شہروں میں صنعتی گیسوں کا اخراج، گاڑیوں کے دھویں کا اخراج اس صورتحال کو مزید پیچیدہ کرتا ہے۔ یہ وہ قاتل ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے مگر اسکی نگرانی کے پیمانے لگا کر اپنی ہوا کے معیار کو ناپ سکتے ہیں اور اگلے مرحلے میں صورتحال کو بہتر بنانے پر کام کیا جا سکتا ہے
دنیا کے بڑے شہر اپنی ہوا کے معیار کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں اور اپنے پڑوسی شہروں کو بھی اس بات پر آمادہ کر رہے ہیں کیونکہ یہ کام باہمی اشتراک کے بغیر ممکن نہیں۔ ان شہریوں کو سمجھ ہے کہ ہوا کسی جغرافیائی یا سیاسی حدود کی پابند نہیں ہوتی۔ شہریوں کو صاف ہوا کی فراہمی ایک عالمی مقصد کے طور پر سامنے آ رہا ہے، دنیا کے شہر اپنے کچرے کو تلف کرنے کے نظام میں تبدیلی لارہے ہیں۔ بلکہ اس سے توانائی حاصل کر رہے ہیں، ساتھ ہی کاربن کے اخراج کو کم کر رہے ہیں، اور قابل تجدید توانائی کے طریقوں کو فروغ دے رہے ہیں- اسی تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۸ جولائی ۲۰۲۲ کو ایک تاریخی قرارداد منظور کی جس میں اعلان کیا گیا کہ کرہ ارض پر ہر فرد کو صاف ہوا، پانی اور مستحکم آب و ہوا سمیت صحت مند ماحول کا حق حاصل ہے۔ انسانی بہبود پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے، یہ قرارداد بہت سے ممالک کے شہریوں کو انسانی حقوق کی قانون سازی کے تحت ماحولیاتی تباہ کن پالیسیوں کو چیلنج کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ پاکستان نےاس قرار داد کے حق میں ووٹ دیا اور کہا کہ یہ صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کے حق کی حمایت کرتا ہے جبکہ اصل میں زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ صاف ستھرا ماحول تمام شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۹ اور ۱۴ کے تحت جو “زندگی کے حق” اور “عزت کے حق” کی ضمانت دیتے ہیں۔ زندگی اور انسانی وقار کے آئینی حقوق میں صحت مند اور صاف ماحول کا حق شامل ہے۔ ۱۸ویں ترمیم کے تحت ہوا کے معیار کا انتظام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر ساتھ ہی وفاقی ادارے بری الزمہ نہیں ہوسکتے یوں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں قومی سطح پر صاف ہوا کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کیونکہ ہوا جغرافیائی حدود کا احترام نہیں کرتی
قانون موجود ہونے کے باوجود ‘فضائی آلودگی’ پاکستان کی صحت کے لیے دوسرے سب سے زیادہ خطرے والا عنصر ہے- یہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے، جسے ہم مزید نظر انداز کرنے یا مسترد کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ فضائی آلودگی کے صحت پر پڑنے والے اثرات مختلف انداز میں سامنے آتے ہیں۔ جس میں بنیادی بیماریاں پھیپھڑوں کا کینسر اور سانس کے انفیکشن ہیں۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ماہرین صحت کے مطابق فضائی آلودگی ادراک کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتی ہے – یعنی ہماری صلاحیتیں جس میں منطقی سوچ، استدلال، خیالات اور معلومات کو برقرار رکھنے کی صلاحیت شامل ہیں اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ یعنی فضائی آلودگی دماغ کے اعصابی افعال کو براہ راست متاثر کرتی ہے، جس سے علمی تنزلی ہوتی ہے۔ چونکہ دوسری طرف، فضائی آلودگی کا بنیادی اثر پھیپھڑوں پر دیکھا جا سکتا ہے، مناسب طریقے سے سانس لینے میں ناکامی فرد کی توجہ کو متاثر کرتی ہے۔ جب ہم صحیح طریقے سے سانس نہیں لے سکتے تو بنیادی کاموں پر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہو جاتا ہے
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر ۱۰ میں سے ۹ افراد خطرناک سطح تک آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں۔ جبکہ فضائی آلودگی کے نتیجے میں ہر سال تقریباً ۷۰ لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ پوری دنیا اس وقت فضائی آلودگی کے حوالے سے سنجیدہ نظر آتی ہے برطانیہ، امریکہ سے لے کر جاپان اور سنگاپور تک صاف ہوا کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات کئے جارہے ہیں. جبکہ ہمارے پاس ابھی تک بنیادی تحقیق ہی موجود نہیں کہ فضائی آلودگی ہمارے شہروں اور آبادیوں کو کس طرح اور کتنا متاثر کر رہی ہے۔ نومولود بچوں سے لے کر کم قوت مدافعت والے افراد اور بزرگوں پر اس کے کیا اثرات ہیں؟ خواتین کو یہ کیسے متاثر کرتی ہے؟ اور جن کا کام ایسا ہے کہ کھلی فضا میں انہیں اہنا دن بسر کرنا ہے یا وہ لوگ جو پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہیں ان کی بیماری کے اثرات کو یہ کیسے بڑھاتی ہے؟ جبکہ دوسری جانب بیرونی فضائی آلودگی کو بڑھانے والے عوامل جیسےفیکٹریوں اور کوئلہ، کچرا، تیل یا ٹائر جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں یا گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں- یہ سب ہماری ہوا کو بری طرح آلودہ کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہوا کا معیار آلودگی کی پانچ اقسام پر مبنی ہے: زمینی سطح اوزون، پارٹیکیولیٹ مادہ، کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ۔ جبکہ ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ شاید ہم صرف درخت لگا کر ہوا کو صاف کر سکتے ہیں جن کی تعداد میں بھی کمی آتی جارہی ہے۔ فضائی آلودگی کی زیادہ تر وجوہات انسانی ساختہ ہیں۔ اس لیے گنجان آبادی والے شہروں میں فضائی آلودگی کثرت سے دیکھی جاتی ہے
ہوا کےمعیار اور آلودہ شہر کی درجہ بندی کے حوالے سے ہوا کا معیار ناپنے والی عالمی ویب سائٹ کو دیکھا جائے جہاں فضائی آلودگی کے لحاظ سے مختلف ممالک اور شہروں کی فہرست جاری کی جاتی ہے تو لاہور اور کراچی دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں صف اوّل میں شامل نظر آتے ہیں
شہر کراچی جہاں 3 کروڑ لوگ بس کر رہے ہیں یہاں کے اداروں کی جانب سے استعمال کرتے ہوئے کتنے پیمانے پر موجود ہیں جو معیار کی جانچ کر رہے ہیں؟ حکومت بھر میں امن کو تحفظ دینے کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اس کی تفصیلات فراہم کرنے والا ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ کی بنیاد پر ماحول لیبارٹری اور دیگر سائنسی غیر فعال کیوں ہیں؟ شہر میں ٹھوس فضلے کو جلانا ایک عام سی بات ہے کہ ریستورانوں کا دھواں ہو یا صنعتی اداروں کی طرف سے ماحول کو آلودہ کرنا ہو جو معیار کے گراوٹ میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں۔ مگر اداروں کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا جا سکتا- اب کی ذمہ داری حکومت ان لوگوں کو ایک صاف، صحت مند اور پائیدار فراہم کرتی ہے۔ اور یہ سماجی انصاف کا راستہ، جس میں ادارے کی طرف سے جانے والے اقدامات کے لیے زیادہ سے زیادہ جواب دیا جاتا ہے
کراچی جیسے بڑے شہر میں معیار کو جانچنے والے کو 100 معیار کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مقامی طور پر معیار کا تعمیر کیا جا سکے شہر میں افسوسناک بات یہ ہے کہ پورے ہوٹل میں معیاری سطح پر معیار کو ماپنے کا ایک معیار بھی ہے۔ پیمانہ موجود نہیں ہے جبکہ نجی اداروں کی جانب سے دو درجن نمبر درج کیے گئے ہیں۔ لیکن ان سے حاصل اعدادوشمار کی کوئی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔ اب یا تو سرکار ان اعدادوشمار کو تسلیم کرے یا پھر اپنے نمبر کو تسلیم کرے کیونکہ یہ ایک مجموعی مسئلہ ہے
ہمیں اپنے علاقائی سطح پر قابل اعتماد فضا کے معیار کی نگرانی کے لیے جال کو بچھانے اور اسے پائیدار انداز میں تعداد پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اداروں کو اجازت ہے کہ اس کو سنجیدگی سے دیکھیں اور اسے کم کرنے کے لیے دیگر معیارات اور فریم ورک قائم کریں۔ اس کے ساتھ ہی معیار کی نگرانی کرنے والے آلات انسٹال کریں۔ اس کے ساتھ معیار کو بہتر بنانے کے لیے دیگر کلیدوں کے ساتھ بھی توجہ کی جائے، جیسے کہ گاڑیوں کو تبدیل کرنا اور بالخصوص کراچی اور لاہور میں پبلک کی فراہمی کو یقینی بنانا اور اس کے ساتھ ہی اس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا۔ لوگوں کے لیے مقامی لوگوں سے بات کرنا ، اسے استعمال کرنا اور صرف ایک مسئلہ کے طور پر، اسے فوری طور پر قابو میں کرنا بہت ضروری ہے۔
بشکریہ: دی انوائرمنٹل
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)