کریمک ہوٹل شاہی بازار میں واقع ہے، جس کے ساتھ مشہور گوادر کی سوغات خدا بخش گوادری کی حلوے کی دکان ہے۔ اس تنگ گلی میں بس یہی ہوٹل اور ایک پان کی دکان کئی سال گزرنے کے بعد اب بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ قطار میں کھڑے خستہ حال، کھنڈر نما اور ٹوٹ پوٹ کی شکار عمارتیں تاحدِ گَلگ منڈی کے شمال مشرقی راستے تک، پھر یہاں سے فعال دکانیں شروع ہوتی ہیں
گوادر کی قدیم آبادی کی بیچوں بیچ کا یہ تنگ گلیوں پر مشتمل علاقہ شاہی بازار کہلاتا ہے۔ اس بازار کی طرز تعمیر شہر کی باقی عمارتوں سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں مٹی اور پتھر کے بنے دو منزلہ عمارات، لکڑیوں سے بنی بالکونیاں اور دکانیں کئی سو سال قدیم ہیں
اس بازار کی تاریخ کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ پندرہویں صدی میں پرتگیزیوں کے بلوچستان کے ساحل پر قبضہ کرنے کے وقت اس بازار کو فوجیوں نے جلا دیا تھا۔ گوادر کے سینئر صحافی سلیمان ہاشم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ پرتگیزیوں نے سالار ساحل میر حملِ جیند کی گرفتاری کے بعد گوادر کے اس بازار کو آگ لگائی تھی جسے اٹھارویں صدی میں سلطنت آف عمان کے دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا
موجودہ آثار بھی عمانی دور کی نشانیاں ہیں، جو اب انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ اس بازار کی ایک اور خوبصورتی یہاں کی بین المذہبی اشتراکیت کی اعلیٰ مثال ہے، جہاں بالکل قریب قریب مندر، اسماعیلیوں کا جماعت خانہ اور مساجد ہیں
سلطنت آف عمان کے دور کے مشہور شاہی بازار کی مشہور چیز ’کریمک ہوٹل‘ کی چائے ہے۔ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو ان کے میزبان یہاں کے پرسکون ماحول کی سیر ضرور کرواتے ہیں اور انہیں کریمک ہوٹل کی چائے بھی پلاتے ہیں
اس ہوٹل میں صبح شام بزرگ اور نوجوان اپنے دوستوں کے ساتھ پرسکون ماحول کی تلاش میں آتے ہیں اور ہر گروپ کی الگ الگ محفل سجتی ہے
کریمک ہوٹل کے ایک گاہک شعبان بلوچ کے مطابق یہ ہوٹل قیام پاکستان سے پہلے کا ہے اور گودار کا قدیم ترین مقام ہے
انہوں نے بتایا ”میں گودار کا مقامی باشندہ ہوں اور ایک ماہی گیر کا بیٹا ہوں۔ کافی عرصے سے یہاں کام کر رہا ہوں۔ میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ جگہ 1948ع سے پہلے کی ہے۔ یہ ایک قدیمی اور تاریخی جگہ ہے“
شعبان بتاتے ہیں ”پہلے یہ ہوٹل ایک کمرے پر مشتمل تھا، بعد میں دو کمرے ہو گئے۔ یہاں ہزاروں لوگ آتے ہیں۔ سیاسی، سماجی لوگ، مزدور، ماہی گیر، ڈرائیور اور کبھی کبھی ڈپٹی کمشنر بھی یہاں چائے پینے کے لیے آتے ہیں“
اس ہوٹل کو ’امن پسند لوگوں کا ڈھابہ‘ قرار دیتے ہوئے شعبان نے مزید بتایا ”لوگ محنت مزدوری کر کے اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے یہاں چائے پینے آتے ہیں اور وقت گزاری کرتے ہیں“
یہاں کے ایک مستقل گاہک ذاکر داد، جو کہ فلم میکنگ کے شعبے سے منسلک ہیں، نے بتایا کہ وہ یہاں اس لیے آتے ہیں کیونکہ انہیں روز یہاں نئے کردار مل جاتے ہیں اور نئی نئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں
کہا جاتا ہے کہ اس بازار کا شمار ناصرف مکران بلکہ بلوچستان کے پُر رونق ترین بازاروں میں ہوتا تھا مگر اب شاہی بازار معدومیت کے خطرے کا شکار ہے
گوادر کی ترقی کے ساتھ ساتھ شروع دن سے ہی مقامی آبادی کو کئی خدشات لاحق ہیں، جن میں ان کے روزگار، مستقبل اور ثقافتی ورثے کی تحفظات شامل ہیں۔ گوادر کے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے نے شہر کی تاریخی و ثقافتی ورثوں کی تحفظ اور بحالی کے لیے کئی دفعہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی چلائے ہیں۔ مگر اب تک عملی طورپر کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا
ناصر رحیم سہرابی ایک سماجی کارکن اور استاد ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ثقافتی ورثے کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ”ثقافتی ورثے اور آثار قدیمہ ناصرف کسی قوم اور علاقے کی شناخت ہوتے ہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی وراثت ہیں۔ اس لیے ان کی تحفظ اور بحالی کے لیے جتنا ہوسکے کرنا چاہیے وگرنہ ان کی خاتمے سے ہم ایک پوری تاریخ کو کھو دیں گے“
سلیمان ہاشم گوادر شاہی بازار کے نام کے حوالے سے اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ یہ نام ستر کی دہائی میں اس وقت رکھا گیا، جب گوادر میں مسلم کمرشل بینک کی پہلی برانچ کا افتتاح کیا گیا تو باقاعدہ سے بینک کے سائن بورڈ پر مسلم کمرشل بینک شاہی بازار لکھا گیا۔ اس سے پہلے یہ بازار صرف گوادر بازار کے نام سے جانا جاتا تھا
ناصر سہرابی کہتے ہیں کہ یہ بازار پرانے وقتوں میں سمندری اور خشکی دونوں اطراف کے تجارت کا مرکز تھا کیونکہ یہیں سے تجارت کے سامان سمندری راستے سے عرب، ہندوستان اور افریقی ممالک میں درآمد وبرآمد کیے جاتے تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں “خشکی سے اونٹوں کے قافلوں کے ذریعے مکران اور بلوچستان سے بھی یہاں سے تجارت ہوا کرتی تھی
گوادر شاہی بازار کی یہ تنگ گلی آج سے سینکڑوں سال پہلے ایک انتہائی پررونق مقام تھا جہاں ناصرف کاروبار ہوا کرتا تھا بلکہ سیاسی و ادبی حلقوں کی بھی یہاں بیٹھکیں لگتی تھیں۔ دور دراز کے علاقوں کے لوگ اونٹوں کے قافلوں کی شکل میں یہاں تجارت کے لیے مختلف اشیا لے کر آتے تھے اور یہاں سے خُشک مچھلیاں اور نمک لاد کر لے جایا کرتے تھے۔