تھرپاکر: لڑکیوں کی شادیوں میں رکاوٹ بننے والی ’ہاتھ بند‘ کی روایت کیا ہے؟

ویب ڈیسک

جہاں صحراؤں کے نیچے قدرت نے کوئلہ، تیل اور گیس جیسے قیمتی خزانے رکھے ہیں وہاں ان کے اوپر آباد جانداروں کی زندگی بھی مشکل اور مشقت طلب بنادی ہے۔ کراچی سے سوا چھ سو کلو میٹر دور جنوب مشرق کی طرف اکیس ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا صحرائے تھر دنیا کے بڑے صحراؤں میں ایک ہے۔ یہ ریگستانی خطہ سرحد پار رن آف کچھ اور راجستھان سے شروع ہو کر اندرونِ ملک صحرائے نارا سے ہوتا ہوا پاکستان کے ایک اور ریگستان، چولستان تک پھیل جاتا ہے

یہ صحرا مخصوص جغرافیائی خدوخال، منفرد ثقافتی ورثے، ماحولیات اور خصوصیات کی وجہ سے ہمیشہ داستانوں کا حصہ رہا ہے کیونکہ مقامی آبادی کی مخصوص روایات، عقائد اور رسوم نے اسے انسانی تاریخ میں ایک انفرادیت عطا کی ہے۔ تھر کی زبان ، ثقافت اور رسم و رواج باقی ماندہ سندھ سے الگ ہیں

نوے سالہ سادمی ہنگورو کا تعلق اسی صحرا کے علاقے اچھڑو تھر سے ہے۔ وہ حُر جماعت سے وابستہ ہیں، جن کے روحانی پیشوا پیر پگارا ہیں اور اُن کی خانقاہ پیر گوٹھ خیرپور میں موجود ہے

سادمی نے پیر صبغت اللہ شاہ راشدی سے بیعت لی تھی، جن کو ’سورہیہ بادشاہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور 1943ع میں انگریزوں نے انھیں پھانسی دی تھی

سادمی ہنگورو کا کہنا ہے ”ہمیں خلفا نے بڑی تکلیف پہنچائی۔ نہ کہیں آ سکتے ہیں اور نہ جا سکتے ہیں۔ بیٹیاں جوان ہیں لیکن اُن کا نکاح نہیں کر سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارا ’ہاتھ بند‘ ہے لہٰذا نہ تمہیں رشتہ دیں گے اور تم سے رشتہ لیں گے“

سادمی ہنگورو کے بیٹے ہاشم ہنگورو بتاتے ہیں ”ہم صدیوں سے ضلع سانگھڑ کی تحصیل کھپرو کے صحرائی گاؤں کھارکی ہوندو فقیر میں رہتے آئے ہیں۔ ہمارے وہاں چالیس کے قریب گھر اور زمین بھی ہے۔ ان زمینوں پر ایک اور شخص نے دعویٰ کیا اور فیصلہ حُر جماعت کے خلیفوں کے پاس گیا۔ مخالفین کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اس کے باوجود انہوں نے ہم پر فیصلہ مسلط کیا اور جب ہم نے فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا تو انہوں نے ہمارا ’ہاتھ بند‘ کر دیا“

ان کے بقول: سنہ 2012ع سے اُن کے خاندان سمیت بارہ افراد کا ہاتھ بند ہے

’حُر جماعت کی تاریخ‘ کے مصنف اور شاعر استاد نظامانی کہتے ہیں کہ پیر صبغت اللہ شاہ عرف سورہیہ بادشاہ کے زمانے سے فیصلوں اور سوشل بائیکاٹ کی روایات ملتی ہیں اور پیر پگارا کا اپنی جماعت کو حکم تھا کہ تنازعات کے فیصلے آپس میں ہی کریں

درگاہ پر ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے، جس کے پاس لوگ شکایت کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کمیٹی خلفا کو عرضی لکھ کر فیصلہ کرنے کا کہتی ہیں اور خلیفہ جو فیصلہ کرتا ہے، اگر اس کو نہ مانا جائے تو پوری کمیونٹی ایسے خاندان کا سوشل بائیکاٹ کر دیتی ہے

پچاسی سالہ اللہ بخش بہنڑ بھی حُر جماعت سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے برطانوی دور حکومت میں، جب حروں کے خلاف آپریشن ہوا تھا تو کچھ عرصہ حراستی مرکز میں گزارا تھا۔ ان دنوں پیر صبغت اللہ شاہ عرف سورہیہ بادشاہ گدی نشین تھے

اللہ بخش بہنڑ کہتے ہیں ”رشتے کے لین دین، جائیداد کی تقسیم اور زمین کے بٹوارے کے جو تنازعات ہیں، وہ جماعت کے خلفا کے پاس آتے تھے، مولوی اس میں شرعی اصولوں کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ اگر کوئی فریق فیصلہ تسلیم نہ کرے تو کہا جاتا کہ اس کا ’ہاتھ بند‘ ہے یعنی اس کو غمی خوشی میں نہیں بلایا جائے گا“

پیر پگارا کی حر جماعت صوبہ سندھ، بلوچستان کے علاوہ بھارت کی ریاست راجستھان میں بھی موجود ہے۔ ان علاقوں کو تنظیمی طور پر بارہ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر علاقے کو ’چوکی‘ کہا جاتا ہے، جس کا ایک خلیفہ ہوتا ہے

ہاشم ہنگورو کہتے ہیں کہ 2012ع میں اُن کا ہاتھ بند کیا گیا، ان کی بیوی اس پریشانی میں بیمار پڑ گئیں کہ اب لڑکیوں کے رشتے کیسے ہوں گے اور اسی میں وہ انتقال کر گئیں

وہ بتاتے ہیں ”ہماری آٹھ لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں لیکن ان کی شادی نہیں کر سکتے کیونکہ خلفا ہمارے رشتے داروں کو دبا رہے ہیں کہ اگر کس نے رشتہ لیا تو جماعت سے باہر نکال دیں گے“

ہاشم ہنگورو کے بیٹے محمد ابراہیم ہنگورو کہتے ہیں کہ جب ان کے خاندان کا ’ہاتھ بند‘ ہوا تو اس وقت ان کی عمر بیس سال تھی۔ ’ہاتھ بند‘ ہونے کی وجہ سے اُن کی بھی شادی نہیں ہو سکی کیونکہ کوئی رشتہ دینے کے لیے تیار نہیں

”جب 2019ع میں پیر سائیں دعوت پر آ رہے تھے تو ہمارا ہاتھ کھول دیا گیا لیکن بعد میں دوبارہ بند کر دیا گیا“

ہاشم ہنگورو کہتے ہیں کہ گاؤں میں وہ سب سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں، جن کا ہاتھ بند ہے، صرف وہ ہی آپس میں تعلق رکھتے ہیں

خلیفے اور ان کے ساتھی انہیں کہتے ہیں کہ آپ جماعت سے خارج ہو آپ مسلمان ہی نہیں، وہ نماز جمعہ پڑھنے نہیں دیتے اگر کوئی عزیز انتقال کر جائے تو اس کے جنازے میں نہیں جا سکتے، اپنے پیاروں کا آخری دیدار تک کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوئی

”2015 میں میرا بھانجا وفات پا گیا۔ ہم علی تڑ گاؤں گئے لیکن وہاں نماز جنازہ پڑھنے نہیں دی گئی۔ اسی گاؤں میں میرا بہنوئی رہتا تھا، اس کے انتقال پر گئے تو چہرہ دیکھنے نہیں دیا۔ ہمارے گھر کی لڑکیاں گئیں تو انھیں رات کو گھر سے نکال دیا گیا“

”اس کے بعد میرا کزن اور ماموں انتقال کر گئے لیکن ہم شریک نہیں ہو سکے۔ ایک ماہ قبل میری بہن کا انتقال ہوا اسی گاؤں میں جہاں ہم رہتے ہیں لیکن ہم شریک نہیں ہو سکے۔ اب حال ہی میں ہمیں جمعہ نماز بھی پڑھنے نہیں دیتے۔ کہتے ہیں آپ مسلمان ہی نہیں، آپ جماعت کے ساتھ کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں“

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جب ادارے کی جانب سے اس بارے میں درگاہ پیر گوٹھ کے چیف خلیفہ سے فون پر رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے وہ بات نہیں کر سکتے

پیر پگارا کیسے بنے؟

راشدی سلسلہ کی بنیاد سید محمد راشد نے رکھی جو قادری طریقے کے پیروکار تھے۔ ان کے والد محمد بقا شاہ بھی روحانی شخصیت تھے جو ڈاکوؤں کے حملے میں ہلاک ہوئے

بزرگ الھورایو بہنڑ بتاتے ہیں کہ ان کے پیر نے کلہوڑا دور حکومت میں اپنے مریدین کو اسلامی طور طریقے نماز، روزہ اور شریعت سے منظم کیا تھا ان کی نسبت یہ خاندان راشدی کہلانے لگا

سید محمد راشد تریسٹھ برس کی عمر میں سنہ 1818ع میں انتقال کر گئے اور ان کے بیٹے پیر صبغت اللہ شاہ کو گدی نشیں مقرر کیا گیا لیکن اس انتخاب پر ان کے بھائی سید محمد یاسین نے اختلاف کیا

سندھ کے نامور محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں کہ محمد یاسین شاہ نے تالپور حکمرانوں کو یہ شکایت کی اور انھوں نے نواب ولی محمد خان کو فیصلے کے لیے بھیجا

اس فیصلے میں پیر صبغت اللہ کی گدی برقرار رکھی گئی، جس کے باعث وہ پگارو (یعنی ’پگ وارو یا ’دستار والا‘) کہلائے جبکہ دوسرے بھائی محمد یاسین شاہ کو والد کی وراثت میں سے جھنڈا دیا گیا، جو ’پیر جھنڈا والا‘ کہلائے جانے لگے

حُر جماعت

پیر صبغت اللہ شاہ جب مسند پر بیٹھے تو پنجاب پر سکھوں کی حکومت موجود تھی۔

علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی لکھتے ہیں کہ پنجاب میں مسلمانوں پر مظالم ہو رہے تھے اور پیر صبغت اللہ شاہ ان سے غافل نہیں تھے۔ انہیں یہ بھی خطرہ تھا کہ سکھ آگے بڑھ کر سندھ میں داخل نہ ہوں، اس لیے انہوں نے جہاد کا عزم کر لیا تھا

’وہ جو بھی وعظ کرتے تھے، اس میں جہاد کے فضائل بیان کرتے تھے اور جو مریدین ان میں شریک نہیں ہو سکتے تھے تو ان کو جہاد کے تحریری دعوت نامے بھیجتے تھے۔‘

پروفیسر محمد لائق زرداری اپنی کتاب ’تحریک پاکستان میں سندھ کا حصہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ان دنوں سید احمد بریلوی نے اپنے مریدین کے ساتھ سکھوں کے مظالم کو ختم کر کے اسلامی ملک کے قیام کے لیے صوبہ سرحد کو مرکز بنانے اور وہاں سے پنجاب پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اس سے قبل انہیں سندھ آنا تھا کیونکہ سندھ کے میر حکمران سکھوں سے نفرت کرتے تھے

سید احمد بریلوی سندھ آئے، پیر پگارا سے ملاقات کی۔ یہاں پر تیرہ روز قیام کیا تاکہ کشتیوں کا بندوست ہو سکے۔ پیر پگارا نے ان کی میزبانی کی اور مدد کی یقین دہانی کرائی

انہوں نے درزی منگوا کر جنگجوؤں کے لیے جنگی لباس تیار کروائے اور اپنے مریدین کی جماعت سید احمدی بریلوی کے ساتھ روانہ کی، مجایدین کی اس جماعت کا نام ’حُر‘ رکھا گیا

سید احمد بریلوی کے اہل خانہ نے پیر گوٹھ میں ہی قیام کیا اور پیر پگارا ان سے خط و کتابت کے ذریعے رابطے میں رہے

پروفیسر لائق زرداری لکھتے ہیں کہ سید احمد بریلوی کی تحریک نے پیر پگارا کے خاندان پر گہرا اثر مرتب کیا جس کی وجہ سے یہ گھرانہ ہمیشہ غیر ملکیوں کی حکومت سے نفرت کرتا تھا اور مسلمانوں کی حکومت کا خواہشمند تھا

روحانی جماعت سے عسکریت پسندی

پیر راشد شاہ نے جس روحانی جماعت کی بنیاد رکھی تھی، ان کے بعد یہ جماعت حریت پسند عسکری جماعت بن گئی اور اس کی بنیاد پیر صبغت اللہ شاہ اول نے رکھی اور یہ سلسلہ پیر صبغت اللہ شاہ ثانی تک جاری رہا

1831ع میں سید صبغت اللہ کی وفات ہو گئی، جس کے بعد سید علی گوہر شاہ گدی نشین ہوئے۔ ان دنوں سندھ پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ انھوں نے اس تحریک میں کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا

سید علی گوہر شاہ کے انتقال کے بعد حزب اللہ شاہ گدی نشین ہوئے۔ انہوں نے دوبارہ اپنی جماعت کو منظم کیا اور اس کے بعد حُر جماعت نے کئی سال انگریزوں کے خلاف گوریلا کارروائیاں کیں

پروفیسر لائق زرداری لکھتے ہیں کہ حزب اللہ شاہ پیر پگاران میں زبردست پیر گزرے ہیں۔ ان کی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: ایک شریعت محمدی کے مطابق چلنے والے جو خود کو ’سالم‘ کہتے تھے جبکہ دوسرے مرشد پر سر قربان کرنے والے (فدائی) جن کو ’فرق کرنے والے‘ کہا جاتا تھا

سندھیانا انسائیکلوپیڈیا کے مطابق فرق والوں نے مخالفین کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں جس سے پیر پگارا نے لاتعقلی کا اظہار کیا

اس دوران خیرپور ریاست کے حکمران میر مراد علی تالپور پر حملہ ہوا، جس میں وہ محفوظ رہے۔ اس حملے میں دو مریدین کو نامزد کیا گیا اور ان کی مانگ کی گئی لیکن پیر پگارا نے انکار کردیا

تالپور اور انگریز حکمرانوں سے تنازعے کے بعد حر جماعت نے اپنے پیر کو بادشاہ کے نام سے پکارنا شروع کیا اور انھیں شاہی لباس، زیوارت دیے

حزب اللہ شاہ کے بعد سید علی گوہر شاہ ثانی 1890 میں مسند نشین ہوئے۔ انہوں نے فرق والوں سے پابندی ختم کر دی۔ اس کے بعد حروں نے انگریز حکمرانوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا اور بارہ کمانڈرز نے سانگھڑ ضلع میں اپنی نجی حکومت قائم کر لی۔ یہ سلسلہ کبھی شدت تو کبھی ہلکی نوعیت کے واقعات سے جاری رہا

اس عرصے میں انگریزی حکومت نے حراستی کیمپ بنا کر حروں کو وہاں تک محدود کر دیا اور پیر پگارا پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ان گوریلوں کی گرفتاری پیش کریں جس پر کچھ نے گرفتاری پیش کی لیکن انھیں پھانسی دی گئی، جس کے بعد دوبارہ اس لڑائی میں شدت آ گئی

سید علی گوہر شاہ کے بعد ان کے بھائی سید شاہ مردان شاہ اول سجادہ نشین ہوئے۔ اس عرصے میں سانگھڑ میں فضائی بمباری کی گئی۔ انھوں نے مصحلت پسندی اختیار کی اور دوسری عالمی جنگ کے لیے 500 سپاہی بھی فراہم کیے اور مالی مدد بھی فراہم کی، جس کے بعد ان حراستی کمیپوں کو ختم کیا گیا

پیر کو پھانسی اور گدی معطل

سید شاہ مردان شاہ کے بعد ان کے چھوٹے بیٹے سید صبغت اللہ شاہ ثانی کو گدی نشین مقرر کیا گیا اس وقت ان کی عمر بارہ سے چودہ سال بتائی جاتی ہے

ڈاکٹر لائق زداری لکھتے ہیں کہ اس گدی کی وجہ سے انگریزوں کو خطرہ رہتا تھا

’سنہ 1929ع میں ایک عورت نے پولیس کو درخواست دی کہ اس کے بیٹے کو پیر گوٹھ میں قید رکھا گیا، جس پر پولیس نے چھاپہ مارکر ابراہیم نامی لڑکے کو بازیاب کرنے کے علاوہ اسلحہ و بارود برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس کیس میں پیر پگارا پیر صبغت اللہ شاہ کو 8 سال سزا سنائی گئی اور سندھ کے بعد رتنا گری جیل بھیجا گیا۔‘

پیر پگارا جیل میں انگریزوں کے خلاف ہو گئے۔ ان کی وہاں کانگریسی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں اور رہائی کے بعد انھوں نے ایک فورس بنائی جس میں ہزاروں حر شامل کیے گئے اور ان سے حلف لیا گیا کہ صرف وہ شخص اس مشن میں شامل ہو گا جو سر ہاتھ پر رکھ سکے

ڈاکٹر لائق کے مطابق ان کی تربیت شروع کی گئی۔ اس کے بعد اس تحریک کے مخالفین یا راز فاش کرنے والے کو قتل کر دیا جاتا

’جب دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو انگریزوں کے خلاف ’انڈیا چھوڑ دو‘ تحریک شروع ہوئی۔ کانگریس نے پیر پگارا کو شمولیت کے لیے کہا لیکن انھوں نے انکار کیا تاہم انھوں نے اپنے مریدین کو گوشت نہ کھانے اور کھدر پہننے کی ہدایت کی۔‘

انگریز حکومت کو معلوم ہوا کہ وہ اپنی فورس بنا رہے ہیں تو اس کے بعد انھیں کراچی میں رہنے کے لیے مجبور کیا گیا

10 اکتوبر 1941 کو جب وہ اپنے گاؤں گئے تو گرفتار کر لیے گئے، جس کے بعد حروں نے جنگ کا اعلان کر دیا

اس جنگ میں مخالفین کو نشانہ بنایا گیا، ٹنڈو آدم میں ٹرین پر حملہ کیا گیا۔ پیر پگارا کے خلاف ملٹری کورٹ میں کیس چلایا گیا اور پھانسی کی سزا سنائی گئی

پیر پگارا پیر صبغت اللہ شاہ کی پھانسی کے بعد لاش بھی ورثا کو نہیں دی گئی اور کہاں دفنائی گئی آج تک معلوم نہیں

ان کی پھانسی کے بعد درگاہ کو بند کر دیا گیا اور مؤذن مسجد میں مقرر کیا گیا جس کا کام صرف اذان دینا تھا۔ سندھ میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور حروں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ حروں کو حراستی کیمپ میں بند کر دیا گیا جو سانگھڑ میں قائم تھے

پیر صبغت اللہ شاہ کے فرزند پیر شاہ مردان شاہ کو پہلے علی گڑھ، پھراس کے بعد برطانیہ بھیج دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کی مداخلت پر پیر شاہ مردان واپس لوٹے اور ان کی گدی بحال ہوئی

شاہ مردان شاہ پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ منسلک رہے اور انھوں نے پاکستانی فوج کے لیے حروں کی خدمات پیش کیں۔ اس وقت بھی فوج میں حر فورس موجود ہے جو حالت جنگ میں ساتھ لڑتی ہے

ہاشم ہنگورو بتاتے ہیں کہ انگریزوں نے جب مارشل لا لگایا اس وقت بھی ان کے بزرگ اسی گاؤں میں آباد تھے اور ان کے چھ بزرگوں کو پھانسی دی گئی تھی

نوے سالہ سامدی ہنگورو کہتی ہیں کہ انکوں نے سورہیہ بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ ان کے پاس ان کی تصویر بھی موجود ہے، جس کی وہ زیارت کرتی ہیں کیونکہ اس وقت انہیں پیر پگارا سے ملاقات کے لیے بھی نہیں جانے دیا جاتا اور نہ زیارت کرنے دی جاتی ہے

وہ کہتی ہیں ”سماجی بائیکاٹ اور ’ہاتھ بند‘ کرنے کی روایت پہلے اتنی سخت نہیں تھی لیکن اب نئے لوگ اور نئے خلیفے ہیں، وہ سخت گیر بن گئے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close