بھارت کی صحرائی ریاست راجستھان میں غیر ملکی سبزیوں کی کاشت

ویب ڈیسک

بھارت کی صحرائی ریاست راجستھان میں کاشتکار ایک عرصے سے صرف وہی فصلیں کاشت کر رہے تھے، جو خشک حالات اور درجہ حرارت کے شدید اتار چڑھاؤ کو برداشت کر سکیں، لیکن اب کچھ کسان کاشتکاری کے جدید طریقے استعمال کر کے دوسرے علاقوں اور دوسرے موسمی حالات میں پیدا ہونے والی فصلوں کی کاشت کا تجربہ بھی کر رہے ہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر ملکی سبزیاں اگانے کے ایسے پراجیکٹس سے بھارت کی ایک نسبتاً کم ترقی یافتہ ریاست راجستھان میں جدید فارمنگ کے طریقوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی ہوگی

واضح رہے کہ اس وقت پوری دنیا آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث مشکلات کا شکار ہے اور یہ مشکلات زندگی کے ہر شعبے میں پیش آ رہی ہیں، لیکن اس کا سب سے زیادہ اور پریشان کن اثر خوراک کی دستیابی پر پڑ رہا ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ آب وہوا کی تبدیلی کے نتیجے میں شدید گرم اور سرد موسم شدید بارشیں، سیلاب اور دوسری قدرتی آفات فصلوں کی کاشت کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تیار فصلوں کی تباہی کا سبب بن رہی ہیں اور اس طرح خوراک کی قلتوں کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں

سائنسدان خوراک کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے اور دنیا بھر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خوراک کی پیداوار بڑھانے کے لیے کاشتکاری کے جدید طریقے دریافت کر رہے ہیں اور حکومتیں اپنے کاشتکاروں کو ان طریقوں سے بہرہ ور کرنے لیے انہیں کاشتکاری کے جدید آلات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال کے طریقوں کی تربیت کا بندو بست کر رہی ہیں۔ جبکہ انہیں اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے کھاد ، بیج اور دوسری مالی معاونت بھی مہیا کر رہی ہیں

یہ دنیا کا منظر نامہ ہے، جہاں بدلتے حالات کو بھانپتے ہوئے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ہم زراعت کے لیے موجود زمین بھی کھو رہے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے دعوے کے باوجود یہاں زراعت وہ شعبہ ہے جو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جا رہا ہے

اس وقت دنیا بھر میں موسمی اور غیر موسمی سبزیاں اور پھل پھول اگانے کے لیے گرین ہاؤسز کا استعمال ہو رہا ہے، لیکن ان کی تعمیر اور ان میں کاشت کے لیے زرعی اور ٹیکنالوجی کی مخصوص مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔بہت سے ملکوں میں حکومتیں اپنے کاشتکاروں کو دونوں شعبوں میں کاشتکاری کے لیے وسائل اور تربیت فراہم کر رہی ہیں جب کہ وہاں کاشتکار انفرادی طور پر بھی ان طریقوں کو سیکھ رہے ہیں ۔ بھارت بھی ایسےہی ملکوں میں شامل ہے

بھارت کی صحرائی ریاست راجستھان میں کاشتکار ایک عرصے سے صرف وہی فصلیں کاشت کر رہے تھے، جو خشک حالات اور درجہ حرارت کےشدید اتار چڑھاو کو برداشت کر سکیں ۔ لیکن اب کچھ کسان کاشتکاری کے جدید طریقے استعمال کر کے دوسرے علاقوں اور دوسرے موسمی حالات میں پیدا ہونے والی فصلوں کی کاشت کا تجربہ بھی کر رہے ہیں

وہاں کے بیشتر کارکنوں نے ان سبزیوں کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا، جو وہ اب کاشت کرتے ہیں ۔ اس سے پہلے وہ صحرائی آب و ہوا میں درجہ حرارت کی شدت برداشت کر سکنے والی سخت ترین فصلیں اگانے کے عادی رہے ہیں

جودھ پور کے ایک کاشتکار راجنوش اگروال، جو بنیادی طورپر ایک انجینئر ہیں لیکن سفر کا ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا جودھ پور میں مہارو کھیت نامی ایک آبائی فارم ہے، جہاں وہ ایسی غیر معمولی اور غیر ملکی فصلیں اگا رہے ہیں، جن کا اس سے قبل خشک آب و ہوا اور پانی کی قلت کے شکار اس صحرائی علاقے کے کاشتکاروں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا

راجنوش اگر وال، جو ملکوں ملکوں گھوم چکے ہیں، نے یہ کام دو سال قبل کووڈ کی وبا کے دوران شروع کیا تھا۔ اپنے پراجیکٹ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل انہوں نے محسوس کیا کہ اگر وہ اپنے علاقے میں برگر کھانا چاہیں تو انہیں لیٹس چاہئے جبکہ وہاں یہ دستیاب نہیں تھا ۔اگر غیر ملکی سبزیوں کو تل کر کھانا چاہیں تو ایسا نہیں کر سکتے کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھی، تو پھر ہم نے سوچا کیوں نہ ہم خود ہی اپنی سبزیاں اگائیں

اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے آہستہ آہستہ صحرا کو غیر ملکی پھلوں اور سبزیوں سے سر سبز کرنے کے جدید طریقے سیکھنے کی ابتدا کی

انہوں نے اپنے مہارو کھیت فارم پر بڑی مرچ، چیری ٹماٹر اور سٹرابیری جیسے پودے اگانا شروع کیے، تاکہ ایسی پیداوار حاصل کی جا سکے جو ان کے آبائی شہر جودھ پور میں کبھی دستیاب نہیں تھی۔ لیکن اس کے لیے انہوں نے آہستہ آہستہ جدید کاشتکاری کے طریقے سیکھے، جدید کاشتکاری کے آلات خریدے اور اپنا گرین ہاؤس تیار کر کے ان میں اپنی پسند کی غیر ملکی سبزیوں اور پھلوں کی کاشت شروع کی

راجنوش کا کہنا تھا کہ جدید فارمنگ کے طریقوں مثلاً ڈرپ اریگیشن کے استعمال نے اس علاقے میں پانی کو محفوظ کرنے میں مدد کی جہاں زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچی تھی ۔ اور موسم گرما میں جب درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسئس کو چھوتا ہے ، بہت سے پودے گرین ہاؤسز میں اگائے جاتے ہیں

راجنوش نے بتایا کہ گرین ہاؤسز درجہ حرارت کو کم کرنے ، نمی کو بڑھانے اور اسے کنٹرول کرنے میں ہماری مدد کرتےہیں۔ ہمارے پاس گرین ہاؤس میں پانی کا چھڑکاؤ کرنے والے آلات یا سپرینکلرز ہیں جن سے ہم پودوں کے اوپر دھند پیدا کر سکتے ہیں اور جس سے ہمیں درجہ حرارت کو کم کرنے میں مدد مل جاتی ہے

فارم کے ایک ملازم پرکاش چند سینی نے بتایا کہ میں گرین ہاؤسز ز اور پولی ہاؤسز فارمنگ کے بارے میں جانتا تھا لیکن میں نے یہ ہنر یہاں غیر ملکی سبزیاں اگا کر سیکھا

اس پراجیکٹ پر کام کرنے والی ایک خاتون کاشتکار، منجو دیوی کا کہنا ہے ’میں نے پولی ہاؤس یعنی پولیتھین سے بنے گرین ہاؤسز میں مختلف پودوں کو اگانے کے طریقے سیکھے اور میں نے ان کے نام بھی سیکھے‘

اس پراجیکٹ نے کاروبار کے فروغ میں بھی مدد کی، کیوں کہ لوگوں کی توجہ صحت کی طرف مرکوز ہوئی اور تازہ سبزیوں اور پھلوں کی مانگ میں اضافہ ہوا۔رجنیش کا کہنا تھا کہ یہ کوئی عارضی رجحان نہیں ہے یہ مستقل طور پر جاری رہے گا

راجنوش کی اہلیہ ودیکا اگر وال کے لیے بھی جو بنیادی طور پر ایک ہیومن ریسورس پروفیشنل ہیں اور اس پراجیکٹ کی نگرانی بھی کرتی ہیں، یہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ انہوں نے کہا ’اس سے میری تخلیقی توانائی کو جلا ملتی ہے اور فطرت کے اتنے قریب ہونا ظاہر ہے ایسی چیز ہے جس سے ہر شخص لطف اندوز ہوتا ہے۔’

ماہرین کو توقع ہے کہ کاشتکاری کے ایسے پراجیکٹس سے مزید کاشتکاروں کو بھی اپنی فصلوں کی کاشت میں جدید طریقوں کے استعمال اور تنوع لانے کی حوصلہ ملے گا، جس سے بھارت کی ایک ایسی نسبتاً کم ترقی یافتہ ریاست میں آمدنیوں میں اضافہ ہوگا، جہاں کی معیشت ابھی تک بنیادی طور پر زراعت پر انحصار کرتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close