مضر صحت چکنائی سالانہ پانچ لاکھ قبل از وقت اموات کا سبب: پاکستان سرفہرست ممالک میں شامل!

ویب ڈیسک

عالمی ادارہ صحت نے ڈبوں میں بند خوراک ، بیکری کی اشیاء اور پکانے کے تیل اور مارجرین وغیرہ میں عمومی طور پر پائے جانے والے ایک مصنوعی زہریلے کیمیکل کو مکمل طور پر ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرانس فیٹ نامی یہ کیمیکل ہر سال پانچ لاکھ افراد کی قبل از وقت اموات کی وجہ بنتا ہے

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں پانچ ارب لوگوں کو ’ٹرانس فیٹس‘ سے دل کی بیماریوں کا خطرہ لاحق ہے۔ عام طور پر صنعتی سطح پر تیار کی گئی یہ چکنائی کوکنگ آئل، بیکری مصنوعات اور پیک شدہ غذاﺅں میں استعمال کی جاتی ہے

زیادہ ترمصنوعی ٹرانس فیٹ جسے بناسپتی گھی یا ٹھوس چربی بھی کہا جاتا ہے، در اصل سبزیوں کے تیل میں ہائیڈروجن گیس کی کچھ مقدار شامل کر کے تیار کی جاتی ہے، جس سے تیل کمرے کے درجہ حرارت میں ٹھوس شکل اختیار کر لیتا ہے

جزوی طور پر ہائیڈروجن پر مشتمل یہ تیل یا بناسپتی گھی سستا ہوتا ہے اور اس کے جلد خراب ہونے کا امکان بھی کم ہوتا ہے اس لیے اس سے تیار کی گئی خوراک زیادہ عرصے تک استعمال ہو سکتی ہے

کچھ ریسٹورنٹس جزوی ہائیڈروجن پر مشتمل ویجیٹیبل آئل کو اپنے ڈیپ فریرز میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اسے اتنے تواتر سے نہیں بدلنا پڑتا جتنا کہ تلنے کے لیے استعمال کیے جانے والے دوسرے تیل تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے

بناسپتی گھی خوراک کی متعدد مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے، جن میں کمرشل طور پر تیار کیے گئے کیک، بسکٹس اور پائیز شامل ہیں

صحت عامہ کے ایک ادارے ریزولوو ٹو سیو لائیوز ، کے چیف ایکزیکٹو آفیسر ٹام فریڈن کا کہنا ہے کہ خوراک سے عالمی سطح پر ٹرانس فیٹ کے خاتمے سے 2040 تک دل کی بیماریوں سے ہونے والی سترہ لاکھ اموات کو روکا جا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مصنوعی ٹرانس فیٹ یا مصنوعی چربی کی کوئی غذائی اہمیت نہیں ہے، یہ تمباکو کی طرح نقصان دہ ہے

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی تازہ رپورٹ کے مطابق ٹرانس فیٹس (Trans Fats) دنیا میں صحت کا ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔ مصر، پاکستان، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا ان ممالک میں سرِ فہرست ہیں، جو ٹرانس فیٹس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں

ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق صنعتی سطح پر تیار کردہ چکنائی کی اس قسم سے دل کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور اس کے باعث سالانہ تقریباً پانچ لاکھ افراد قبل از وقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں

ڈبلیو ایچ او نے 2018 میں ایک اپیل جاری کی تھی کہ کھانے کی اشیاء میں صنعتی طور پر تیار ہونے والے فیٹی ایسڈز کو سن دو ہزار تئیس تک دنیا بھر سے ختم کر دیا جائے۔ تب ایسے شواہد سامنے آئے تھے کہ صنعتی سطح پر تیار کی جانے والے ایسے چکنائی والے اجزا سے سالانہ نصف ملین افراد ہلاک ہو جاتے ہیں

رپورٹ کے مطابق 2.8 بلین افراد کی مشترکہ آبادی والے 43 ممالک نے اب اس تناظر میں بہترین طرز عمل کی پالیسیاں نافذ کی ہیں، لیکن اس دنیا کے تقریباً پانچ ارب انسان اب بھی ایسے فیٹی ایسڈز سے غیرمحفوظ ہیں

16 میں 9 ممالک میں ٹرانس فیٹی ایسڈ سے دل کی بیماری کے باعث اموات کی شرح زیادہ ہے، یہ ممالک بہترین احتیاطی پالیسیوں پر عمل نہیں کر رہے۔ ان ممالک میں آسٹریلیا، آذربائیجان، بھوٹان، ایکواڈور، مصر، ایران، نیپال، پاکستان اور جنوبی کوریا شامل ہیں

رپورٹ کے مطابق ایسے فیٹی ایسڈز کے حوالے سے مناسب پالیسیاں اختیار نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک میں دل کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں

یہ چکنائی دل کی شریانوں میں خون کی گردش کو متاثر کرتی ہے اور اس کا استعمال اکثر پیک شدہ کھانوں، تلی ہوئی اشیاء اور کھانا پکانے کے تیل کی تیاری میں کیا جاتا ہے

ڈبلیو ایچ او کی طرف سے مزید کہا گیا ہے کہ ٹرانس فیٹ ایک زہریلا کیمیکل ہے، جو ہلاکت کا باعث بنتا ہے اور کھانے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے

یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریئسس کا کہنا تھا ”ٹرانس فیٹس زہریلا کیمیکل ہے، جو انسان کو موت کے منہ میں لے جاتا ہے اور اس کی کھانوں میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے، اس زہریلے کیمیکل سے ایک ہی بار میں ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کرنے کا وقت ہے‘‘

کھانے کی اشیاء تیار کرنے والی کمپنیاں ٹرانس فیٹس اس لیے استعمال کرتی ہیں کیونکہ ان کے استعمال سے اشیاء کی شیلف لائف لمبی ہو جاتی ہے اور یہ فیٹی ایسڈز سستے بھی ہوتے ہیں

فریڈن کہتے ہیں کہ ابھی تک 5 ارب لو گ بناسپتی گھی کے صحت پر تباہ کن اثرات کے خطرے کی زد میں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتیں ڈبلیو ایچ او کی بہترین پریکٹس کی پالیسیوں پر عمل کر کے ان اموات کو روک سکتی ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ متعدد ممالک، خاص طور پر میکسیکو، نائیجیریا اور سری لنکا عنقریب زندگی بچانے والی ان پالیسیوں کو منظور کرنے والے ہیں

فریڈن نے کہا کہ ایک ملک میں پالیسی کی جیت دوسرے ملکوں کو کارروائی کرنے پر مائل کر سکتی ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ اس سلسلے میں پیش قدمی کرنے والے بھارت ، بنگلہ دیش اور فلپائن جیسے ملک پورے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے خطے کے لیے مثال بن جائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ نائیجیریا جنوبی افریقہ کے ساتھ ساتھ جس نے پہلے ہی بناسپتی گھی پر پابندی لگا دی ہے اس حوالے سے افریقہ کے لیے ایک لیڈر بن جائے گا

فریڈن نے کہا کہ تجربے سے ظاہر ہوا ہے کہ یہ صنعت بناسپتی گھی کی جگہ دوسرے صحت مند متبادلات اپنا سکتی ہے ،اختراع کر سکتی ہے اور تبدیل کر سکتی ہے ۔ ایسی صرف چند ایک ہی بڑی کمپنیاں ہیں جو ایک زہریلا کیمیکل بناتی رہتی ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کمپنیاں بھی جب دیکھیں گی کہ بناسپتی گھی کے دن گنے جا چکے ہیں تو وہ بھی انہیں بنانا ترک کر دیں گی

ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بناسپتی گھی کے خاتمے کی بیشتر پالیسیاں زیادہ آمدنی والے ممالک میں نافذ کی گئی ہیں، خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں، اور یہ کہ درمیانی آمدنی والے ملکوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ان کی تقلید کر رہی ہے۔ تاہم، ابھی تک، کسی بھی کم آمدنی والے ملک نے ایسا نہیں کیا ہے

بہترین احتیاطی پالیسیوں کا مطلب تمام کھانوں میں کُل چکنائی کا فی 100 گرام صنعتی سطح پر تیار شدہ ٹرانس فیٹ کا 2 گرام ہونا چاہیے یا ٹرانس فیٹ کا سب سے بڑا ذریعہ ہائیڈرو جنیٹڈ تیل کی پیداوار یا اس کے استعمال پر پابندی عائدکرنا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close