کبھی آپ نے سوچا ہے کہ بحری جہاز، ہوائی جہاز، ٹرینیں اور گاڑیاں ناکارہ ہونے کے بعد کہاں جاتی ہیں؟ اگر نہیں تو بتاتے چلیں کہ ان کا آخری ٹھکانہ کراچی میں شیرشاہ کا کباڑی بازار ہے
شیر شاہ میں واقع یہ کباڑ بازار پاکستان کی سب سے بڑی اسکریپ مارکیٹ ہے، جہاں ٹنوں کے حساب سے اسکریپ کو کاٹ کر اسے ری سائیکل اور دوبارہ فروخت کیا جاتا ہے
اسکریپ مارکیٹ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل اور اسکریپ ڈیلر آغا عبدالخالق کا کہنا ہے ”سوئی سے لے کر ہوائی جہاز کے پرزوں تک، سب یہاں ملتا ہے“
عبدالخالق جان کی طرح، ان کے والد بھی کباڑ کے کاروبار سے وابستہ تھے، جنہوں نے 1947ع میں پاکستان کی آزادی کے بعد سے یہ کاروبار شروع کیا تھا اور 1960ع میں جب یہ بازار بنا تو شیر شاہ میں دکان لگانے والے پہلے اسکریپ ڈیلروں میں سے ایک تھے۔ عبدالخالق جان اُس وقت اپنی دکان پر اپنے والد کی مدد کرتے تھے
وہ بتاتے ہیں ”اُس وقت یہ لیاری ندی کے کنارے صرف ایک زمینی پٹی تھی، جہاں کراچی کا کچرا بہتا تھا۔ پہلی دکان اس کچرے کے ڈھیر پر بنائی گئی تھی“
سفید لباس میں ملبوس سفید داڑھی والے عبدالخالق جان اب اس بازار میں اپنے اسکریپ ڈیلر بیٹوں کے اوپر نگران ہیں، جس نے ان کی تین نسلوں کو پالا
کئی دہائیوں کے دوران، عبدالخالق نے اس مارکیٹ کو چند سو دکانوں سے ہزاروں کی مارکیٹ میں بدلتے دیکھا، جو پہلے انڈسٹریل اسٹیٹ سائٹ کا حصہ تھی اور اب ملحقہ علاقوں میں بھی پھیل رہی ہے۔ عبدالخالق کہتے ہیں کہ دکانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ بازار پھیل رہا ہے
آج بازار کے بہت سے گوداموں، کباڑخانوں اور اسپیئر میٹل پارٹس کی قطار در قطار افراتفری کے درمیان کھو جانا آسان ہے، جو کلو کے حساب سے خریدے جانے اور ہر طرح کی مشینوں اور کاروں کی مرمت کے لیے تیار ہیں۔ یہاں سے تجارتی مرکز کراچی اور اس سے باہر کی صنعتوں کو بھی سپلائی میں مدد ملتی ہے
یہ بازار اس لیے بھی ملک میں درآمد شدہ اسکریپ کا سب سے بڑا مرکز ہے کہ کراچی سے صرف اڑتالیس کلومیٹر مغرب میں صوبہ بلوچستان کا شہر گڈانی ہے، جہاں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ موجود ہے
کراچی سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی پرزے بھیجے جاتے ہیں، تاہم زیادہ تر لین دین اسی شہر میں ہوتا ہے
اسکریپ مارکیٹ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل نے مزید بتایا ”بیرونِ ملک اسکریپ ہونے والی چیزیں اس مارکیٹ میں آتی ہیں۔ بحری جہاز ٹوٹنے کے بعد یہاں آتے ہیں۔ ہوائی جہازوں کو جب گراؤنڈ اور ختم کر دیا جاتا ہے، تو وہ یہاں آتے ہیں“
مکینیکل نوعیت کے پارٹس کی خرید و فروخت کو دیکھتے ہوئے، بازار کا تکنیکی مہارت رکھنے والے افراد تیار کرنا فطری ہے، جو اسپیئر پارٹس کو ٹھیک کرنے اور دوبارہ انجینیئرنگ کرنے میں ماہر ہوں
عبدالخالق جان مسکراتے ہوئے کہتے ہیں ”مارکیٹ سے وابستہ لوگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’انجینیئرز‘ کہلانے لگے ہیں، اب صنعتی یونٹس کو خدمات فراہم کر رہے ہیں، جن کے مالکان اکثر پلانٹس لگانے اور ان کی مرمت کے لیے مشورہ لینے آتے ہیں“
یہ بازار کافی عرصے تک جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے بھتہ خوری کا مرکز بھی بنا رہا۔ اگرچہ 2013 میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن آپریشن کے ذریعے سکیورٹی کے بارے میں تاجروں کی تشویش کو کافی حد تک دور کیا گیا، لیکن درآمد شدہ سامان کا کاروبار کرنے والی اس مارکیٹ کو اب ایک اور تشویش کا سامنا ہے
عبدالخالق جان بتاتے ہیں ”سکیورٹی کی صورتحال بہت بہتر ہے، لیکن تاجر اب پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے، جس سے ہماری فروخت متاثر ہوئی ہے۔ گاہک بہت کم ہیں اور جب وہ آتے ہیں، تو ان میں سے بھی بہت سارے خریداری کیے بغیر چلے جاتے ہیں“
پاکستان جو خطے میں ری کنڈیشنڈ کاروں کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے، نے گذشتہ چاربرسوں میں ستاسی ہزار استعمال شدہ کاریں درآمد کی ہیں
اضافے کا رجحان برقرار رکھتے ہوئے اس ملک نے 2022ع کے پہلے آٹھ مہینوں میں بیس ہزار یونٹس درآمد کیے ہیں جبکہ 2021ع کے تمام مہینوں میں اکیس ہزار یونٹس درآمد کیے گئے تھے
اگرچہ ری کنڈیشنڈ کاریں نسبتاً سستی ہیں، لیکن ان کے پرزے پاکستان میں آسانی سے دستیاب نہیں۔ یہیں سے شیر شاہ جیسی بڑے اسکریپ مارکیٹ کا کردار شروع ہوتا ہے، جو استعمال شدہ گاڑیوں کو چلانے میں مدد کرتی ہے
اس مارکیٹ میں آٹو پارٹس ڈیلر طاہر سعید نے بتایا ”ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کے پرزے مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ آپ کو بیرون ملک سے استعمال شدہ چیزیں خریدنی پڑتی ہیں۔ درآمد شدہ کار کا ایک نیا پرزہ، جس کی قیمت ہچاس ہزار ہے، یہاں آسانی سے دس ہزار میں خریدا جا سکتا ہے“