نقیب محسود کیس میں راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کی بریت کے فیصلے میں کیا ہے؟

ویب ڈیسک

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رواں ہفتے کے آغاز پر سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت اٹھارہ پولیس اہلکاروں کو ثبوتوں کی عدم دستیابی کی بنیاد پر نقیب اللہ محسود کے قتل سے بری کر دیا ہے

عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں ایسے بہت سے نکات اٹھائے ہیں، جو پولیس کی ناقص تفتیش کی نشاندہی کرتے ہیں جن کی بنیاد پر نامزد ملزمان عدالت سے بری ہوئے

اس تفصیلی فیصلے کے مطابق نقیب اللہ محسود قتل کیس کے تفتیشی افسران نے پولیس مقابلے میں ملوث ملزم اہلکاروں کے زیر استعمال پولیس موبائیلز کا نہ تو ٹریکر ریکارڈ حاصل کیا جبکہ نقیب اللہ کے تین موبائل فونز اور دو گواہوں کے موبائل فونز کا سی ڈی آر ریکارڈ (جس کی مدد سے کسی بھی شخص کا محل وقوع اور نقل و حرکت معلوم کی جا سکتی ہے) حاصل نہیں کیا

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے تفصیلی فیصلے کے مطابق اس کیس کے تفتیشی افسر ایس پی عابد قائم خانی نے جرح کے دوران عدالت کے سامنے تفتیش میں ہونے والی کوتاہیوں کا ناصرف اعتراف کیا بلکہ یہ بھی تسلیم کیا کہ مقتول نقیب اللہ اور اس کے دوستوں (حضرت علی اور محمد قاسم) کو حراست میں لینے والے کسی بھی پولیس اہلکار کے موبائل فون کا سی ڈی آر ریکارڈ حاصل نہیں کیا گیا

انہوں نے نقیب اللہ کے پانچ سم نمبرز کا جائے وقوع معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں تین نمبروں کی لوکیشن یاد نہیں تھی جبکہ 4 جنوری کو دوپہر دو نمبروں کی لوکیشن آصف سکوائر پر تھی جبکہ انھوں نے نقیب اللہ کے دوستوں حضرت علی اور قاسم کی لوکیشن حاصل نہیں کی تھی

عدالتی فیصلے کے مطابق دونوں گواہوں کی گل شیر ہوٹل پر 3 یا 4 جنوری کو موجودگی سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں کی گئی

عدالتی فیصلے کے مطابق ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ گل شیر آغا، جہاں سے نقیب اللہ اور ان کے دوستوں کو اٹھایا گیا، میں موجود گواہوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پولیس سے رہائی کے لیے رابطہ کیا تھا تاہم ان گواہان کی بھی سی ڈی آر حاصل نہیں کی گئی

ڈاکٹر رضوان احمد نے دوران جرح تسلیم کیا کہ انہوں نے ملزم راؤ انوار کو آواز کی شناخت کے لیے پیش نہیں کیا اور کسی بھی ملزم کا فون فارنزک تجزیے کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا۔ انھیں سی ڈی آر رپورٹ سیلیولر کمپنی کے کور لیٹر اور کسی اتھارٹی کے دستخط کے بغیر ملی تھی، جو ایکسل فارم میں تھی

تفتیش میں ہونے والی اِن کوتاہیوں اور خامیوں کا فائدہ راؤ انوار اور ان کے ساتھیوں کو پہنچا۔ عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ سی ڈی آر خامیوں سے بھرپور ہے کیونکہ یہ موبائل کمپنی کی جانب سے تصدیق شدہ نہیں تھی جبکہ کمپنی میں سے کسی کو بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا

سی ڈی آر رپورٹ تصدیق کے لیے کسی فارنزک لیبارٹری کو نہیں بھیجی گئی، نہ وائس ریکارڈنگ پیش کی گئی اور نہ ہی ملزم راؤ انوار اور مفرور ملزم (پولیس اہلکاروں) کے درمیان بات چیت کا کال ریکارڈ اس کیس کی سماعت کے دوران پیش کیا گیا

عدالت کے مطابق اگر یہ تسلیم بھی کیا جائے کہ راؤ انوار جائے وقوعہ پر موجود تھے جہاں ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی موجود تھے، تو فقط اُن کی موجودگی سزا دینے کے لیے کافی نہیں

عدالت نے اپنا فیصلہ پرائیوٹ گواہوں کی گواہیوں کے گرد تحریر کیا ہے اور دو گواہوں محمد قاسم اور حضرت علی، جن کو نقیب اللہ محسود کے ساتھ حراست میں لیا گیا تھا، کی گواہیوں کو ’مشکوک‘ اور ’گمراہ کن‘ قرار دیا جس کا فائدہ بھی ملزمان کو پہنچا

عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں بتایا ہے کہ نقیب اللہ محسود کے ساتھ موجود محمد قاسم، حضرت علی نے پوری تفصیل بیان کی ہے کہ کس طرح انھیں اپنے دوست مقتول نقیب اللہ کے ہمراہ آغا گلشیر ہوٹل سے رات 3:00 بجے پولیس ’اغوا‘ کر کے پولیس چوکی سچل لے گئی جہاں ان پر تشدد کیا گیا اور 72 گھنٹے (3 دن) تک حراست میں رکھا گیا۔ اس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا جبکہ مقتول نقیب اللہ کی تحویل ملزم راؤ انوار کے حوالے کر دی گئی

عدالتی فیصلے کے مطابق گواہان نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ انھوں نے شناختی پریڈ کے ٹیسٹ کے دوران چھ ملزمان کی شناخت کی۔ تاہم، ان کے بیان کی صداقت اس وقت متزلزل ہوگئی جب ان کے بیان کی صداقت پر جرح کی گئی

محمد قاسم نے دوران جرح تسلیم کیا کہ اس نے اپنے بیان میں یہ نہیں بتایا کہ یہ واقعہ 3 جنوری کا ہے یا 4 جنوری کا اور یہ بھی صحیح ہے کہ پولیس کو دیے گئے بیان میں یہ ذکر نہیں ہے کہ وہ حضرت علی کے ساتھ کپڑے خریدنے آصف سکوائر گیا تھا اور جب وہ وہاں پہنچے تو سردار ہوٹل گئے

محمد قاسم نے یہ بھی بتایا کہ اُن کے تحریری بیان میں یہ ذکر نہیں ہے کہ انھوں نے جب پولیس سے پوچھا کہ انھیں کہاں لے جایا جا رہا ہے، تو اہلکار نے انکشاف کیا کہ انھیں راؤ انوار کے پاس لے جا رہے ہیں جہاں سے آپ کو جنت میں بھیجا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس کے پولیس بیان میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ نقیب اللہ نے انکشاف کیا کہ سچل پولیس چوکی میں اس کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور اس کی رہائی کے لیے اس سے دس لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا

حضرت علی نے بھی جرح کے دوران ایسے کئی حقائق بتائے جو پولیس بیان میں پہلے نہیں بتائے تھے۔ عدالت کے تحریری فیصلے کے مطابق حضرت علی نے بتایا کہ ان کے بیان میں یہ ذکر نہیں ہے کہ رات کے وقت ایک افسر آیا جو نقیب اللہ کو لے گیا اور پھر انھوں نے اس کی چیخیں سنیں اور انھوں نے سمجھا کہ اس کے ساتھ بدسلوکی ہو رہی ہے۔ اس کے بعد اُن کو بھی لے جایا گیا اور آنکھوں پر پٹی دگنی کر دی گئی اور ہاتھ پچھلی طرف باندھ دیے گئے اور میز پر بٹھایا گیا اور اس کے بعد نسوار ملا کر چھ سات بار ناک میں پانی ڈالا گیا

پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں انھوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کو الگ رکھا گیا اور قاسم کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا، اس کے بعد انھیں دوبارہ کمرے میں لے جایا گیا اور بیڑیاں لگائی گئیں

عدالت نے ان دونوں گواہوں پر ’بے اعتمادی‘ کا اظہار کیا ہے اور فیصلے میں لکھا ہے کہ دونوں گواہوں نے اپنے بیانات میں توسیع کی ہے لہذا اُن کے بیانات ’قابل بھروسہ‘ نہیں ہیں۔ اس بارے میں سپریم کورٹ میں سردار بی بی کیس کا حوالہ دیا گیا کہ اگر گواہ عدالت کے روبرو اپنے اس بیان میں اضافہ کرے جو کہ اس نے پولیس کو دیا تھا تو یہ گواہی قابل بھروسہ نہیں رہتی اور اس کی ساکھ مشکوک ہو جاتی ہے

عدالت نے تفصیلی فیصلے میں تحریر کیا کہ گواہوں کی خیانت اس سے بھی ظاہر ہے کہ انھوں نے اپنے اغوا (مبینہ حراست) کی کہیں شکایت درج نہیں کروائی جبکہ اُن کے اہلخانہ میں سے بھی کسی نے 72 گھنٹے گزرنے کے باوجود شکایت نہیں کروائی تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ دونوں گواہان مقتول کے دوست تھے اور انھیں اس واقعے کے بارے میں نقیب اللہ کے فیملی میں سے کسی کو آگاہ کرنا چاہیئے تھا یا اس کی ہلاکت پر کسی فورم پر اپنا بیان ریکارڈ کروانا چاہیے

سپریم کورٹ محمد صدیق کیس میں یہ قرار دے چکی ہے کہ اگر متاثر شخص کا دوست چوبیس گھنٹے خاموش رہے تو یہ مشکوک عمل ہے جبکہ موجودہ کیس میں گواہان لگ بھگ نو، دس دن تک خاموش رہے۔ چونکہ اس کیس کی پیروی کے دوران نقیب کے والد محمد خان فوت ہو گئےتھے چنانچہ بطور مدعی اُن کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا

نقیب اللہ اور اس کے دوستوں کی حراست اور اُن کے ساتھیوں کی رہائی کی تاریخ میں سامنے آنے والے تضاد کا فائدہ بھی ملزمان کو ہی دیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق آئی جی کی قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ اور ایف ائی آر کے مطابق اغوا کا واقعہ تین جنوری کو پیش آیا لیکن دونوں گواہان نے تسلیم کیا کہ انھوں نے پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں تسلیم کیا کہ واقعہ تین یا یا چار جنوری کو پیش آیا جو کہ ان کے پہلے دیے گئے بیان سے متصادم ہے

تفصیلی فیصلے کے مطابق گواہ قاسم نے دوران جرح تسلیم کیا کہ 72 گھنٹے حراست رہنے کے بعد انھیں تیسرے روز رہا کیا گیا جبکہ حضرت علی نے اعتراف کیا کہ انھیں اغوا کے 72 گھنٹے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا، جس کا مطلب ہے اگر تیسرے دن رہا کیا گیا تو واقعہ 6 جنوری کو بنتا ہے اور اگر اغوا 4 جنوری کو ہوا تو انھیں 7 جنوری کو رہا کیا گیا

فیصلے کے مطابق قاسم نے تسلیم کیا کہ 4 جنوری کو تین بجے انھیں آغا گل شیر ہوٹل سے اٹھایا گیا اور عباس ٹاؤن پولیس چوکی پر لے جایا گیا، اسی طرح موقع کے ایک گواہ نے اپنے بیان میں 3 یا 4 جنوری کی تاریخ کا ذکر کیا جبکہ جرح کے دوران اس نے تسلیم کیا کہ اس کا بیان تفتیشی افسر نے پڑھ کر سنایا تھا اور یہ تسلیم کیا کہ واقعے کا وقت اور تاریخ اس کے بیان میں شامل نہیں تھی۔ اس طرح اغوا کی تاریخ کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا

فیصلے کے مطابق موقع کے دوسرے گواہ ہمایوں کا کہنا تھا کہ واقعہ 3 جنوری کو پیش آیا مگر اس نے اس کی شکایت نہ کسی سیاسی دفتر اور نہ ہی پولیس کو کی۔ ہمایوں کا تعلق بھی وزیرستان سے ہے اور انھوں نے اعتراف کیا کہ واقعہ کے وقت وہ گلشیر ہوٹل پر موجود نہیں تھا

عدالت نے گواہوں کے بیانات پر بد اعتمادی کا اظہار کیا اور قرار دیا ہے کہ وقوعہ کے بیانات اس وقت تک قابل قبول نہیں ہیں جب تک ان کی جائے وقوعہ پر موجودگی متعلقہ وقت پر ثابت نہ ہو

اس طرح ایک گواہ افسر خان کا بیان 14 اپریل کو ریکارڈ کیا گیا جس کی قانون کی نظر میں حیثیت نہیں کیونکہ گواہ کو یقین نہیں ہے کہ واقعہ 3 یا 4 جنوری کو ہوا اور اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ مغویان دو یا تین دن کے بعد رہا ہوئے۔ اپنے بیان میں افسر خان نے کہا تھا کہ دونوں مغویان اس کے حوالے کیے گئے تھے جنھیں اس نے رکشہ میں گھر بھجوا دیا۔ یہ بیان مغویان کے بیانات اور ایف آئی آر سے متصادم ہے اس لیے ‘ناقابل یقین’ ہے

عدالتی فیصلے کے مطابق اس کیس کے تفتیشی افسر عابد قائم خانی نے صرف اُن افراد کو گواہ بنایا جن کا تعلق وزیرستان سے ہے اور انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ گواہ نے وقوع کی تاریخ 3 جنوری بتائی تھی، مزید اعتراف کیا آغا شیر ہوٹل کے متصل علاقے سے کسی کو بھی بطور گواہ نہیں لیا گیا

جج نے قرار دیا کہ اس میں کوئی بھی دو رائے نہیں کہ مذکورہ گواہان میں سے کسی کو بھی محمد قاسم اور حضرت علی کے اغوا اور رہائی کی حتمی تاریخ معلوم نہیں ہے جبکہ مذکورہ ہوٹل سے کوئی آزاد گواہ نہیں لیا گیا اور نہ ہی ہوٹل کے مالک یا ملازمین کو تفتیش افسر نے گواہ بنایا لہٰذا دونوں افراد کی گواہی مشکوک ہے بلکہ مفروضے پر مبنی ہے

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خاموشی کا عنصر مدعی کے بیان سے الگ نہیں کیا جا سکتا جو کہ محمد خان (نقیب کے والد) نے جو بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں اس نے کہا کہ اس واقعے کا علم انھیں 17 جنوری کو میڈیا کے ذریعے ہوا

جج نے قرار دیا کہ ایف آئی آر کے اندراج اور دونوں مغویان کے بیانات میں تاخیر ہوئی جو کہ 23 اگست کو ریکارڈ کیے گئے

تفتیشی افسر نے جرح کے دوران تسلیم کیا کہ حضرت علی، محمد قاسم، شروب خان اور ہمایوں کے بیانات اسی روز ریکارڈ کر لیے گئے تھے جبکہ شروب کا بیان 24 جنوری، شاہ زمان کا بیان 24 فروری جبکہ افسر خان کا بیان 14 اپریل کو یعنی تین ماہ کی تاخیر کے بعد قلمبند کیا گیا جبکہ دیگر گواہان بشمول تاج محمد، عبدالرحیم اور سیف الرحمان کے بیانات 24 فروری کو یعنی لگ بھگ ایک سال سے زائد عرصے کے بعد ریکارڈ کیے گئے

تفصیلی فیصلے کے مطابق اعلیٰ عدالتوں نے متعدد کیسز میں قرار دیا ہے کہ بیانات قلمبند کرانے میں ایک یا دو دن سے زیادہ تاخیر بغیر کسی وضاحت کے نقصان دہ ہے اور ایسے گواہان کی گواہی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا

شناخت پریڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا گیا کہ استغاثہ نے خاص طور پر زور دیا ہے کہ مغویان نے چھ پولیس اہلکاروں ارشد علی، عبدالعزیز،شفیق، الہ یار، غلام نازک اور محمد اقبال کو بطور ملزم جوڈیشیل مجسٹریٹ کے سامنے شناخت کیا تھا جبکہ متعلقہ دستاویزی شواہد کے معائنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں ملزمان کا حلیہ، جسامت، و دیگر خدو خال کا ذکر ہی نہیں کیا گیا جس کا اعتراف گواہان نے عدالت کے روبرو بھی کیا ہے

تفتیشی افسر عابد قائم خانی نے بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ گواہان نے دوران شناخت پریڈ ملزمان کے حلیے سے متعلق کوئی بیان نہیں دیا لہذا ایسی شناخت پریڈ قابل بھروسہ شہادت پر پورا نہیں اُترتی

عدالتی فیصلے کے مطابق یہ مروجہ قانون ہے کہ شناخت پریڈ قانون کی ضرورت نہیں ہے جس کا اعتراف مدعی کے وکیل نے بھی کیا ہے، سپریم کورٹ کے مطابق دوران ٹرائل شناخت پریڈ اس صورت میں قابل قبول ہے اگر یہ قابل بھروسہ اور ملزم کو سزا دلانے کے لیے مددگار ہو لیکن اس کا اطلاق موجود کیس میں نہیں ہوتا کیونکہ گواہان نے جو حقائق و واقعات بیان کیے ہیں وہ ناقابال بھروسہ ہے یہاں تک کے ایک گواہ محمد قاسم نے شناخت پریڈ کے دوران غلط افراد کو شناخت کر لیا تھا جس کو متعلقہ مجسٹریٹ نے بھی بطور شواہد نوٹ کیا تھا

مغوی حضرت علی نے بھی ملزم علی اکبر کو غلط شناخت کیا تھا جبکہ اس نے ملزم الہ یار کو شناخت نہیں کیا تھا جبکہ شفیق احمد کی شناخت کے حوالے سے بھی وہ تذبذب کا شکار تھا، لہذا الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ایسی شناخت پریڈ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا

عدالتی فیصلے میں کہا ہے کہ گواہ حضرت علی اور محمد قاسم ناقابل بھروسہ ہیں، انھوں نے اپنے بیان میں ترمیم و توسیع کی کہ ملزمان نے انہیں دس لاکھ تاوان کے لیے اغوا کیا تھا جس کا ذکر نہ تو انھوں نے پولیس کو دیے گئے بیان میں کیا تھا اور نہ ہی ایسا الزام ایف آئی آر میں لگایا گیا اور نہ ہی کسی گواہ نے اس امر کو مغویان اور مقتول نقیب کی رہائی سے متعلق کوششوں کی وجہ بیان کیا تھا

یاد رہے کہ اس مقدمے کے دوران سات پولیس اہلکار اپنی گواہیوں سے منحرف ہو گئے تھے جن کا تفصیلی فیصلے میں ذکر موجود نہیں ہے

نقیب اللہ قتل کیس کی پیروی کرنے والے وکیل صلاح الدین پنہور کا کہنا ہے کہ قتل کے بعد 13 جنوری کو تین بج کر بیس منٹ پر راؤ انور نے پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے خود اقرار کیا کہ انھیں مقابلے کا علم تھا اور ایس ایچ او نے کال کر کے کہا تھا کہ مزید فورس بھیجوں۔ ’ہمارا یہ کہنا ہے کہ اس نے اعانت کی ہے، اس نے سہولت کاری کی اور اس کی ہدایت پر سب کچھ ہوا ہے۔‘

’جب وہ بیان میں یہ کہتا ہے کہ میں تین بج کر بیس منٹ پر پہنچا ہوں تو آپ شکیل فیروز اور اظہر کی ایک روز قبل والی لوکیشن دیکھیں تو ایک ہی جگہ ہے اور موبائیل ٹاور کا سرکٹ بھی تبدل نہیں ہے، یعنی واقعے سے ایک روز قبل شکیل فیروز اور اظہر وہاں موجود تھے۔ وہاں سے شکیل نے ایس ایچ او امان اللہ مروت کو فون کیا۔‘

ایڈووکیٹ صلاح الدین پہنور کے مطابق عدالت نے پولیس مقابلے کو غیر قانونی قرار دیا، تو راؤ انوارنے جو حقائق کو توڑا مروڑا اور غیر قانونی مقابلے کو میڈیا پر نشر کیا اس میں تو اس کو سزا ملنی چاہیے

’سندھ ہائی کورٹ میں اپیل میں ان نکات کو اٹھایا جائے گا اور عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘

صلاح الدین پنہور کا کہنا تھا کہ سی ڈی آر رپورٹس ای میل کے ذریعے موصول ہوئی تھیں، انھوں نے ماہرانہ رائے طلب کرنے کی عدالت میں درخواست دائر کی تھی جو مسترد کر دی گئی جس کو انھوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جو ابھی تک زیر سماعت ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close