سرمایہ دارانہ ہوس، اب پیٹرولیم اور سونے کی طرح پانی کی بھی ’عالمی تجارت‘ ہوگی!

ویب ڈیسک

یہ شیطانی دماغ رکھنے والے کسی سرمایہ دار کی ہی کارستانی ہے کہ قدرت کی مفت ملنے والی پانی جیسی نعمت کو بھی اس نے بوتل میں بند کرکے بیچنا شروع کر دیا، یہ سرمایہ داروں کی بے پناہ لالچ اور سرمایہ کی نہ مٹنے والی بھوک کی ایک  مثال ہے.

اب خبر یہ سامنے آئی ہے کہ امریکی سرمایہ دار اداروں نے ایک نیا نظام پیش کر دیا ہے ، جس کے تحت آئندہ چند برسوں میں پانی کی عالمی تجارت بھی اسی طرح کی جائے گی، جیسے آج دنیا بھر میں ’پیشگی سودوں‘ یعنی فیوچرز کنٹریکٹس کے ذریعے تیل اور سونے کی خرید و فروخت کی جاتی ہے

اس ضمن میں امریکی مالیاتی کمپنی ’سی ایم ای گروپ‘ نے ایک معاہدہ بھی ترتیب دے دیا ہے، جس کا تعلق کیلیفورنیا میں پانی کی فراہمی کی مقامی مارکیٹ سے ہے، جس کا موجودہ تجارتی حجم 110 کروڑ ڈالر بتایا جاتا ہے، جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً 175 ارب پاکستانی روپے بنتا ہے

واضح رہے کہ کیلیفورنیا کا شمار ان امریکی ریاستوں میں ہوتا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی سے شدید طور پر متاثر  ہیں، کیلیفورنیا میں گزشتہ چند برسوں کے دوران نہ صرف اوسط درجۂ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہوا ہے بلکہ آئے روز  جنگلات میں آتش زدگی کی شدت بھی بڑھنے لگی ہے. اس کے علاوہ یہاں پانی کی قلت میں بھی غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے، جس نے لگ بھگ پورے کیلیفورنیا کو ایک غیر اعلانیہ صحرا میں تبدیل کردیا ہے

یہی وہ صورتِ حال ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ’’سی ایم ای گروپ‘‘ نے بڑے پیمانے پر پانی کی خرید و فروخت کے ایسے معاہدوں پر کام شروع کر دیا تھا جن میں گھریلو، صنعتی اور زرعی استعمال کے پانی کو ’جنسِ تجارت‘ (کموڈٹی) کا درجہ دیتے ہوئے اس کے آزادانہ نرخ مقرر کرنے اور پیشگی سودوں کو ممکن بنایا گیا تھا

ویب سائٹ ’بزنس انسائیڈر‘ نے اس بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں سی ایم ای گروپ کے ایک اہم عہدیدار، ٹم مک کورٹ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، کہ پانی کو جنسِ تجارت قرار دینے سے بالخصوص کسان طبقے کو بہت فائدہ ہوگا کیونکہ اس طرح وہ مستقبل کے امکانات مدنظر رکھتے ہوئے، مناسب ترین قیمتوں پر، زرعی پانی کے پیشگی سودے کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور یوں آنے والے مہینوں میں آبی فراہمی سے متعلق اپنے خدشات و خطرات کو ہر ممکن حد تک کم کرسکیں گے

ایک طرف سائنسدانوں کے مطابق عالمی ماحول میں تیز رفتار تبدیلی انسان کے بس سے باہر ہوتی جارہی ہے اور 2025ع تک ساری دنیا میں پانچ ارب سے زیادہ لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہوگا، جس کا اثر نہ صرف ممالک پر بلکہ عالمی سیاست پر بھی پڑے گا، تو دوسری طرف سامایہ دارانہ نظام پہلے سے ہی ممکنہ قلت آب سے بھی پیسے کمانے کے چکر میں لگ گیا ہے.

جس طرح آج ہم خبروں میں پڑھتے اور سنتے ہیں کہ پیٹرولیم یا سونے کے عالمی نرخ بڑھ گئے، وہ دن دور نہیں جب بلکل اسی طرح ہمارا پالا "پانی کی عالمی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ” جیسی خبروں سے پڑنے والا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close