بھارت میں انتہا پسند ہندوتوا نظریات کی حامل مودی سرکار تاریخی مقامات کے نام بدلنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے، اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں دارالحکومت دہلی میں واقع راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر) کے مغل گارڈن کا نام بدل کر ’امرت ادیان‘ رکھ دیا گیا ہے
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کی جانب سے اپنی حکومت کے اس اقدام کو ’تاریخی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق بی جے پی کی ترجمان سمبت پترا نے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے اس اقدام کو ’تاریخی فیصلہ‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ ’غلام ذہنیت‘ سے نکلنے کے لیے ضروری تھا
بی جے پی کے دیگر رہنما بھی مغل گارڈن کی نام کی تبدیلی پر جشن مناتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ انڈین ریاست بہار میں بی جے پی کے ممبر اسمبلی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’غلامی کے نشان کا خاتمہ کردیا گیا۔‘
بھارتی صدارتی ترجمان کے مطابق مغل گارڈن کا نیا نام ’امرت اُدیان‘ انڈیا کی صدر دروپدی مُرمو کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا
انتہا پسند حلقے جہاں بھارت کی آزادی کے پچھترویں سال میں جاری ’امرت مہوتس‘ (جشن امرت) کے تعلق سے مغل گارڈن کا نام بدلے جانے کی تعریف کر رہے ہیں، وہیں ملک کے سنجیدہ حلقوں کی جانب سے اس عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنا جا رہا ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر رواں حکومت میں نام بدلنے کی مہم کا مذاق اڑاتے ہوئے میمز بھی شیئر کی جا رہی ہیں
اس حوالے سے ہندی اور انگریزی دونوں زبان میں ہیش ٹیگ ’مغل گارڈن‘ ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے، اس کے ساتھ راشٹرپتی بھون بھی ٹرینڈ کر رہا ہے
بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق بھارتی صدر کی ڈپٹی پریس سکریٹری نویکا گپتا نے کہا کہ ملک کی آزادی کے پچھترویں سال کے موقع پر راشٹرپتی بھون کے تمام باغات کو ’امرت اددیان‘ کہا جائے گا
بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے اس خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ”امرت کال میں ’غلامی کی ذہنیت‘ سے باہر آنے کے لیے مودی حکومت کا ایک اور تاریخی فیصلہ۔۔۔ راشٹرپتی بھون میں واقع ’مغل گارڈن‘ اب ’امرت اددیان‘ کے نام سے جانا جائے گا“
مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے مغل گارڈن کا نام تبدیل کرنے پر ایک وڈیو بھی ٹویٹ کی ہے، جس میں کچھ ملازمین امرت اددیان کا بورڈ لگاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں
راشٹرپتی بھون کی ویب سائٹ کے مطابق یہ باغ پندرہ ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے، جسے صدارتی محل کی روح کے طور پر دیکھا جاتا ہے
مغل گارڈن جموں و کشمیر کے مغل باغات، تاج محل کے ارد گرد کے باغات، ہندوستان اور پیرس کی منیئیچر پینٹنگز سے متاثر ہے
سر ایڈون لوٹینز نے سنہ 1917ع میں مغل باغات کے ڈیزائن کو حتمی شکل دی تھی۔ اسے سال میں ایک بار عوام کے لیے کھولا جاتا ہے اور رواں سال 31 جنوری سے اسے عوام کے لیے کھولا جا رہا ہے
مغل گارڈن میں دنیا کے تمام معروف پھولوں کی موجودگی اس کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہے اور یہ باغ ان پھولوں کی خوشبو سے معطر رہتا ہے
یہاں ہالینڈ کے ٹیولپس ہیں۔ برازیل کے آرکڈز، جاپان کے چیری کے پھول اور دیگر موسمی پھولوں کے ساتھ چین سے لائے جانے والے کنول کے پھول بھی ہیں
یہاں مغل طرز کی نہریں، چبوترے اور پھولوں کی کیاریاں، یورپی پھول، لان اور سکون بخش باڑوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں
جہاں حکمراں جماعت بی جے پی نام بدلنے کے اس عمل کو تاریخی قرار دے رہی ہے، وہیں حزبِ اختلاف کی پارٹی کانگریس نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے
کانگریس رہنما راشد علوی نے پوچھا ہے ’حکومت مغل گارڈن کا نام کیوں بدل رہی ہے؟ کیا اسے بی جے پی نے بنایا تھا؟ راشٹرپتی بھون کو بھی انگریزوں نے بنایا تھا، کیا آپ اسے بھی گرا دیں گے؟ کیا آپ لال قلعہ اور تاج محل کا نام بھی بدل دیں گے؟ جہاں وزیر اعظم رہتے ہیں، اسے بھی انگریزوں نے بنایا تھا، کیا اس کو بھی گرا دیا جائے گا؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کو اپنا گارڈن بنانا چاہیے۔ دوسری حکومت آئے گی تو وہ بھی نام بدل سکتی ہے
مغربی بنگال میں برسرِ اقتدار پارٹی ترنمول کانگریس کے رہنما ڈیریک اوبرائن کا کہنا ہے ”کون جانتا ہے کہ وہ اب ’ایڈن گارڈن‘ کا نام بدل کر ’مودی گارڈن‘ کہنا چاہیے۔ انہیں نوکریاں پیدا کرنے، مہنگائی کی روک تھام اور ایل آئی سی جیسے قیمتی وسائل کو بچانے پر توجہ دینی چاہیے“
بی جے پی سے تعلق رکھنے والے مغربی بنگال میں حزب اختلاف کے رہنما سوویندو ادھیکاری نے کہا ہے ’صرف مغل گارڈن ہی نہیں بلکہ پورے دیس سے ان کا نام ہٹا دینا چاہیے۔ بنگال میں بی جے پی کی حکومت آئے گی تو ایک ہفتے میں انگریزوں اور مغلوں کا نام ہٹا دے گی۔‘
بہرحال سیاسی جماعتوں کے علاوہ عوام نے بھی اس کے متعلق اپنی آرا کا اظہار کیا ہے
شاعر اور رکن پارلیمان عمران پرتاپگڑھی نے طنز کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ”اڈانی کے شیئر گر رہے تھے اور سرکار کی ساکھ بھی۔۔ اس سب سے پریشان عوام کو سرکار نے فوری طور پر راحت دیتے ہوئے مغل گارڈن کا نام بدل کر ’امرت اددیان‘ کر دیا ہے“
صحافی شیام میرا سنگھ نے لکھا ”بھینس کو چرانے والے اپنے ایک آدمی کو بھینسوں کی گھنٹی لے کر دوسری سمت میں بھگا دیتے تھے اور خود بھینسوں کو لے کر دوسری سمت میں چلے جاتے تھے۔ گاؤں والے گھنٹیوں کی آواز کے پیچھے بھاگتے تھے اور چور دوسری سمت سے بچ نکلتے تھے۔ ایسے ہی مودی ہے۔ اڈانی کی جانچ کروانے کی بجائے مغل گارڈن کا نام بدل رہے ہیں“
بھارتی جماعت ترنمول کانگریس کے رہنما جاہور سرکار نے ایک طنزیہ ٹویٹ میں لکھا ’انتظار ہے کہ مغلائی پراٹھے کا نام تبدیل کر کے سورگا لوک یا اندرا لوک پراٹھا رکھ دیا جائے۔‘
کرنل ریٹائرڈ اشوک سنگھ نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ مغل وہ پہلے لوگ تھے، جنہوں نے ہندوستان میں منظم باغات بنائے۔ انہوں نے فواروں کے ساتھ کئی باغات بنائے۔ مغلوں سے پہلے ہندوستانیوں کو باغ کا کچھ نہیں پتہ تھا اور اسی لیے برطانویوں نے صدر کی رہائش گاہ میں باغ کو مغل گارڈن کا نام دیا تھا۔‘
مینگ سکسینا اس حوالے سے بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’کوئی ان بے وقوفوں کو اطلاع دے کہ مغل گارڈن صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک فنِ تعمیر کا ٹکڑا ہے، جو فارس کے باغات سے متاثر ہو کر مغلوں کے ذریعے ہندوستان آیا۔‘
صحافی انورادھا رمن کے خیال میں نام کی تبدیلی کے باوجود اس جگہ کو ہمیشہ مغل گارڈن کے نام سے ہی یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں پوچھا ’کیا قطب مینار کا نام تبدیل کرکے امرت رکھنے کا منصوبہ بھی ہے؟‘
سواتی مشرا نامی ایک صارف نے لکھا ہے ”مغل گارڈن کا نام بدلنے میں حکومت نے نو سال لگا دیے جبکہ یہ جگہ تو ان کے سب سے قریب ہے۔ حکومت کو ایک ’نام رکھنے والی وزارت‘ بنانی چاہیے تو ہی جلدی نام بدل پائيں گے۔ جگہوں کے نام بدل جائيں تو اس وزارت کو بچوں کے نام رکھنے کا کام دیا جا سکتا ہے۔ ابھی تو حکومت یہی کر رہی ہے“
اسی طرح صحافی دلیپ منڈل نے لکھا ”راشٹرپتی بھون کے مغل گارڈن کو انگریزوں نے بنایا تھا۔ مغل گارڈن کا نام بھی انہوں نے ہی دیا تھا۔ دلی انگریزوں نے مغلوں سے چھینی تھی۔ دنیا میں انگریزوں کا سکہ چلتا تھا لیکن اپنے باغیچے کا نام مغل گارڈن رکھا مغل طرز کی وجہ سے۔ اس میں ان کی کمزوری نہیں طاقت کا مظاہرہ ہوا“
سیما سینگپتا نے لکھا ”میرے لیے صدر مرمو کا راشٹرپتی بھون کی روح مغل گارڈن کا نام بدلنا ایسا ہے جیسے کہ کوئی مہمان میزبان کے گھر کا نام بدل دے کیونکہ وہ اس محل کے مہمان خانہ میں رہتی ہیں۔۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک برٹش ماہر فن تعمیر نے اس شاندار باغ کے تصور کو زمین پر اتارا، ہم صرف اس کا نام بدل کر اس کے کریڈٹ کو ہڑپ نہیں سکتے“