”ہتھنی انسان نہیں، اس لیے اسے چڑیا گھر میں ہی رہنا چاہیے“ امریکی عدالت کا حکم

ویب ڈیسک

نیویارک کی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ برونکس چڑیا گھر میں طویل عرصے سے رہنے والی ’ہیپی‘ نامی ہتھنی کو وہیں رہنا چاہیے، کیونکہ وہ امریکی قانون کے تحت کوئی فرد نہیں

اس طرح امریکی ہتھنی ہیپی ، پاکستانی ہاتھی کاون کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہو سکی

منگل کو ریاست کی اعلیٰ ترین عدالت کے پانچ میں سے تین ججوں نے جانوروں کے حقوق کے گروپ کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ ہیپی کو چڑیا گھر میں غیر قانونی طور پر قید کیا گیا تھا

عدالت کا کہنا تھا ”ہاتھی متاثر کن ہیں لیکن وہ انسانوں کی طرح آزادی کے حقوق کے حقدار نہیں“

جانوروں کے حقوق کے گروپ نے ہیپی کو ہاتھیوں کی پناہ گاہ میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ عدالت میں اس معاملے پر اس حوالے سے بحث ہوئی کہ آیا ہیبیس کارپس نامی قانون، جو غیر قانونی قید سے تحفط فراہم کرتا ہے، کا دائرہ کار ایسے جانوروں تک پھیلایا جا سکتا ہے، جو ذہین اور جذباتی طور پر پیچیدہ ہوتے ہیں؟

چیف جج جینیٹ ڈیفیور نے فیصلہ میں لکھا ”اگرچہ کوئی بھی ہاتھیوں کی متاثر کن صلاحیتوں پر اختلاف نہیں کرتا لیکن ہم درخواست گزار کے ان دلائل کو مسترد کرتے ہیں کہ ہیپی کے لیے ہیبیس کارپس کے تحت تلافی حاصل کی جا سکتی ہے“

عدالتی فیصلے کے مطابق ”ہیبیس کارپس ایک طریقہ کار ہے, جس کا مقصد انسانوں کے آزادی کے حقوق کو محفوظ بنانا ہے، جنہیں غیر قانونی طور پر پابند کیا جاتا ہے نہ کہ جانوروں کو“

یہ فیصلہ بھی ذیلی عدالتوں کی ان فیصلوں کی توثیق کرتا ہے، جنہوں نے نیویارک کی جانوروں کے حقوق کی تنظیم کی جانب سے دائر مقدمے میں بار بار برونکس چڑیا گھر کا ساتھ دیا تھا

گروپ کا اصرار ہے کہ اکیاون برس کی ہتھنی کو برونکس چڑیا گھر سے نکالا جائے کیونکہ اسے محض ایک ایکڑ کے احاطے میں قید کر کے رکھا گیا ہے

لیکن وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی، جو چڑیا گھروں کا انتظام سنبھالتی ہے، اس بیانیے کو مسترد کرتی ہے۔ سوسائٹی کا کہنا ہے ”ہیپی اور اس کے ساتھی ہاتھیوں کی چڑیا گھر میں اچھی دیکھ بھال ہو رہی ہے“

منگل کو ایک بیان میں جانوروں کے حقوق کی تنظیم نے اس فیصلے میں ججوں کے اختلاف رائے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ’طاقتور‘ قرار دیا اور کہا کہ ان کا ارادہ ہے کہ وہ اسے کیلیفورنیا میں ہاتھیوں کے حقوق کے لیے جاری ایک دوسرے مقدمے میں استعمال کریں گے

واضح رہے کہ اپنے اختلافی نوٹ میں جج ڈینی ریویرا نے لکھا ہے ”ہیپی کی قید فطری طور پر ناانصافی اور غیر انسانی ہے۔ یہ ایک مہذب معاشرے کی توہین ہے اور ہر روز وہ اسیر بنی رہتی ہے، انسانوں کے لیے ایک تماشا، ہم بھی، کمتر ہوتے جا رہے ہیں“

ہیپی 1970ع کی دہائی میں تھائی لینڈ کے جنگل میں پیدا ہوئی تھی، اسے اس وقت امریکہ لایا گیا، جب وہ صرف ایک برس کی تھی۔ وہ سنہ 1977ع سے برونکس چڑیا گھر میں مقیم ہے

وہ چڑیا گھر میں رہ جانے والے دو ہاتھیوں میں سے ایک ہے

کاون کی کہانی

یاد رہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک چڑیا گھر میں مقیم ہاتھی کی آزادی کے لیے بھی ایسا ہی ایک مقدمہ چلا تھا، جس پر فیصلہ سناتے ہوئے اسے محفوظ پناہ گاہ میں بھجوانے کا حکم سنایا گیا تھا جس کے بعد کاون کو مناسب دیکھ بھال کے لیے کمبوڈیا وائلڈ لائف سینکچری کے حوالے کر دیا گیا تھا

اڑتیس سالہ کاون کو چھ سال کی عمر میں اسلام آباد چڑیا گھر میں لایا گیا تھا اور گذشتہ چند برس کے دوران اس کے بچاؤ کے لیے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر مہم چلائی جاتی رہی

پاکستانی نژاد امریکی شہری ثمر خان نے چڑیا گھر میں کاون کی حالت دیکھنے کے بعد ایک آن لائن پیٹیشن کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے کاون کی کیفیت کی بابت آگاہ کرتے ہوئے حکام سے درخواست کی تھی کہ اسے چڑیا گھر سے نکال کر جانوروں کی کسی محفوظ پناہ گاہ پہنچایا جائے

اس آن لائن پیٹیش پر دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے افراد نے دستخط کیے اور اس کے سپورٹرز کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہو گئی

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے چند اداروں اور اسلام آباد کے شہریوں نے ہفتہ وار بنیاد پر چڑیا گھر کے سامنے مظاہرے کرنے شروع کیے اور کاون کو محفوظ پناہ گاہ بھیجنے کی درخواستیں کی جاتی رہیں

کاون کی آزادی کی مہم میں امریکی گلوکارہ شیر بھی پیش پیش رہیں۔ جنہوں نے سنہ 2020ع میں بلآخر کاون کی منتقلی پر حکومتِ پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close