خیبر پختونخوا: مسجد دھماکے میں 93 اور تاندہ ڈیم میں کشتی ڈوبنے سے 40 ہلاکتیں

ویب ڈیسک

تھانہ پولیس لائنز کی مسجد کے اندر خود کش دھماکے کے نتیجے میں اب تک امام مسجد اور اہلکاروں سمیت 93 افراد شہید جبکہ 47 زخمی ہوگئے

دوسری جانب کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں کشتی ڈوبنے کے واقعے میں جاں بحق ہونے والے طلباء کی تعداد 40 تک پہنچ گئی ہے

تفصیلات کے مطابق پشاور میں مسجد میں دھماکا عین نمازِ ظہر کے وقت ہوا جہاں حملہ آور پہلی صف میں موجود تھے

لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے میں اب تک 93 افراد شہید ہوئے جبکہ ایل آر ایچ میں زخمیوں کی تعداد 47 ہے۔ اسپتال لائے گئے زخمیوں میں 10 کی آپریشن تھیٹرز میں سرجری کی گئی

پولیس کے مطابق خدشہ ہے کہ حملے میں بھاری دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا جس کی شدت کے باعث مسجد اور اس سے متصل کینٹین کی چھت دونوں گر گئیں، ملبہ ہٹانے کے لیے کرین منگوائی گئی۔ واضح رہے کہ پشاور پولیس لائنز کو ہیڈکوارٹر کے طور جانا جاتا ہے اور یہاں حساس عمارتیں سمیت اہم افسران کے دفاتر بھی ہیں

اطلاعات کے مطابق حملہ آور نمازیوں کے ساتھ تھانے کے مرکزی دروازے سے داخل ہوکر تین سے چار چیکنگ پوائنٹس عبور کر کے مسجد میں داخل ہوا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے کے بعد تھانہ پولیس لائنز کے مرکزی دروازے کو بند کر دیا گیا

سی سی پی او پشاور نے کہا کہ دھماکے میں بلڈنگ کو گرانے والا مواد استعمال کیا گیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تھانے کے اندر حملہ سیکیورٹی کی ناکامی ہے، فی الحال چھت کا ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے تاکہ زخمیوں کو نکالا جا سکے۔ مسجد میں 300 کے قریب افراد موجود تھے

ادہر کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں کشتی ڈوبنے کے واقعے میں جاں بحق ہونے والے طلباء کی تعداد 40 تک پہنچ گئی ہے

پولیس کے مطابق ریسکیو آپریشن بدستور جاری ہے اور مبینہ طور پر زیر آب دو طلباء کی لاشوں کو تلاش کیا جا رہا ہے، ریسکیو آپریشن کی تمام تر کارروائی کی نگرانی ڈی پی او کوہاٹ عبدالرؤف بابر قیصرانی خود کر رہے ہیں

مہتمم مدرسہ شاہد نور نے بتایا کہ انہوں نے خود کشتی میں 50 بچوں کو ترتیب سے بٹھایا تھا، جس میں ان کا ایک بیٹا اور چھ بھانجے بھی موجود تھے۔ شہید ہونے والوں میں میرا بیٹا محمد طلحہٰ اور میرے بھانجے بھی شامل ہیں

واضح رہے کہ اتوار 29 جنوری کو کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں کشتی الٹنے سے طلباء ڈوب گئے تھے۔ اتوار کو میر باش خیل اور سلیمان تالاب نامی دیہات کے بچے پکنک منانے تاندہ ڈیم گئے تھے جہاں وہ کشتی الٹ گئی جس پریہ بچے سوار تھے۔ کوہاٹ کے قریب میر باش خیل گاؤں کے قریب واقع تاندہ ڈیم مقامی لوگوں کے لیے ایک اہم پکنک پوائنٹ ہے

اس حادثے میں صرف سات بچوں کو بچایا جا سکا جبکہ ڈوبنے والے بچوں کی لاشیں نکالنے کا عمل تین دن سے جاری ہے

شاہ محمود نے بتایا ’ڈیم میں جب پہلی نظر پڑی تو بچوں کے سر نظر آ رہے تھے وہ پانی میں ہاتھ مار رہے تھے، بچے جیسے تڑپ رہے تھے۔ میں پانی میں کود گیا تھا اور کچھ دیر میں ہم نے مل کر چھ سات بچے نکال لیے تھے۔‘

جب باہر آیا تو پولیس انسپکٹر نے بچوں کی فہرست دی، میں اس فہرست کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ پانچ نمبر پر میرے بیٹے کا نام اور ولدیت میں میرا نام لکھا تھا، میرے پیروں تلے سے جیسے زمین ہی نکل گئی۔۔۔‘

شاہ محمود بتاتے ہیں ’اس کے بعد دیکھا تو میرے دوسرے بیٹے کا نام تھا ۔ میری حالت غیر ہو رہی تھی۔۔۔ اتنے میں دیکھا کہ میرے چار بھتیجوں کے نام بھی لکھے تھے اور ولدیت میں میرے بھائیوں کے نام تھے، یہی نہیں اس کے بعد میرے دو کزن اور ایک سالے کا نام بھی اسی فہرست میں تھا۔

شاہ محمود نے بتایا کہ ان کے ایک بیٹے کی عمر تقریباً ساڑھے چار سال اور دوسرے کی عمر آٹھ سال کے لگ بھگ ہے جبکہ بھتیجوں کی عمریں بھی چار سے پانچ سال کے قریب ہیں

شاہ محمود کہتے ہیں ’میں ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر نکالتا ہوں اور اب تو میرے اپنے بچے بھی اسی پانی کی نذر ہو گئے ہیں۔‘

شاہ محمود تاندہ ڈیم پر موجود تھے، جہاں اب ریسکیو کے ادارے کے اہلکار اور سیکیورٹی فورسز کے ماہرین ڈیم میں ڈوبے بچوں کو تلاش کر رہے تھے

پہلے روز جب یہ واقعہ پیش آیا تو مقامی افراد جن میں شاہ محمود، دو پولیس اہلکار اور ہوٹل پر کام کرنے والا ایک نوجوان اور چند دیگر افراد نے 17 افراد کو پانی سے نکال لیا تھا مگر ان میں دس بچے دم توڑ چکے تھے

شاہ محمود نے بتایا کہ انھوں نے جن بچوں کو نکالا انھیں فوری طور پر طبی امداد فراہم کی ’کچھ ایسے بچے بھی تھے جن کی سانس بمشکل چل رہی تھی، ان کی سانسیں مصنوعی سانس سے بحال کی گئیں اور فوری طور پر انھیں ہسپتال پہنچایا گیا۔‘

سلمان تالاب گاؤں میں اجتماعی نماز جنازہ کے بعد قبرستان کے قریب چارپائیوں اور کرسیوں پر بزرگ اور نوجوان بیٹھے تھے، جہاں فاتحہ خوانی کی جا رہی تھی ۔ ان میں بخت مین خان بزرگ بھی موجود تھے۔ اس گاؤں میں ان بچوں کے ساتھ تمام افراد کے کسی نے کسی طرح سے رشتہ داری ہے

انہوں نے بتایا ’ہر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہے، کسی کے بچے ہلاک ہو گئے ہیں ، کسی کے بچوں کی تلاش جاری ہے اور جن کے بچے شامل نہیں بھی تھے ان گھروں کی خواتین اور مرد بھی دیگر افراد کے غم میں شریک ہیں۔ یہ گاؤں ہیں یہاں خوشی اور غمی یکساں ہوتی ہے‘

انہوں نے بتایا کہ موسی خان دبئی میں مزدوری کرتے ہیں ان کے دو بیٹے اس مدرسے میں پڑھتے تھے اور دونوں ہی اس ڈیم میں ڈوب گئے ہیں۔ موسی خان کو دبئی اطلاع دی گئی تو وہ فوی طور پر پاکستان پہنچے لیکن ان کے بچے نہیں ملے

بخت مین خان نے بتایا کہ ’موسی خان کی حالت غیر ہے، وہ کچھ بات نہیں کرتے۔۔۔ بس بچوں کو یاد کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر کے ساتھ عزیز کا گھر ہے جو سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ عزیز کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اب وہ اکلوتا بیٹا بھی ڈیم میں ڈوب گیا ہے لیکن عزیز کو چھٹی نہیں ملی کہ وہ بیٹے کو دیکھ سکے۔‘

مقامی بزرگوں کا کہنا تھا کہ ’خواتین کو تو ہم نے شروع میں کچھ نہیں بتایا۔۔۔ انھیں کہا بس آپ قران کی تلاوت کریں لیکن بعد میں جب انھیں معلوم ہوا تو ایک کہرام تھا، لیکن انھیں تسلیاں دے کر خاموش کرایا ہے۔‘

انہوں نے شکوہ کیا کہ ’انتظامیہ کہیں نہیں ہے، اس ڈیم پر اکا دکا واقعات تو آئے روز پیش آتے رہتے ہیں لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی لیکن اب بڑی تعداد میں بچہ ڈوبے ہیں تو سب یہاں آئے ہیں لیکن انھیں نہیں لگتا کہ اس کا کوئی حل نکالا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انتظامیہ کو ایسے اقدامات لینے چاہییں تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات پیش نہ آئیں۔ یہاں کشتیاں جیکٹس اور غوطہ خور ہونے چاہییں جو ایمرجنسی میں کام کر سکیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close