دنیا بھر میں میڈیکل اور پروفیشنل امتحانات کامیابی سے پاس کرنے والے مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹ نے پاکستان کے اعلٰی تعلیم کے ادارے ایچ ای سی کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اس حوالے سے حکمت عملی طے کرنے کے لیے ماہرین کا گروپ تشکیل دے دیا گیا ہے
چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد نے بتایا کہ ان کا ادارہ ماہرین کا ایک گروپ تشکیل دے گا تاکہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے امتحانات پاس کرنے اور تحقیقی مقالے لکھنے والے طاقتور ترین چیٹ بوٹ کی چیلنج سے نمٹا جا سکے
دوسری جانب اوپن آئی اے نے اپنے تازہ اعلامیے میں اعلان کیا ہے کہ اس نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ٹول تیار کر لیا ہے، جس کی تفصیل ہم اس رپورٹ کے آخر میں بیان کریں گے
اگرچہ چیٹ بوٹس کوئی نئی ٹیکنالوجی نہیں ہے، تاہم ’اوپن اے آئی‘ کے چیٹ جی پی ٹی بوٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں صارفین کے سوالات کا جواب دینے میں انسانوں جیسی صلاحیت حاصل کر کے تہلکہ مچا دیا تھا، جس کے بعد بہت سے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ ٹیکنالوجی میں اس پیش رفت کی وجہ سے اہم مسائل پیدا ہو سکتے ہیں
دنیا بھری میں ماہرین تعلیم اس بات پر تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت والے چیٹ بوٹس امتحانات میں نقل اور دھوکہ دہی کی ترغیب دے سکتے ہیں
اس ماہ کے شروع میں نیویارک شہر کے محکمہ تعلیم نے اپنے اسکولوں کے آلات اور نیٹ ورکس سے چیٹ جی پی ٹی پر پابندی کا اعلان کیا۔
مصنوعی ذہانت سے چلنے والے چیٹ بوٹ نے حال ہی میں یونیورسٹی آف پنسلوینیا میں ایم بی اے کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ اسی بوٹ نے اس سے قبل میڈیکل کا امتحان کامیابی سے پاس کر لیا تھا
اسی ماہ دنیا کے سرفہرست سائنسی جرائد نے نئی ادارتی پالیسیوں کا اعلان کیا ہے جس کے تحت محققین پر سائنسی مطالعات لکھنے کے لیے چیٹ جی پی ٹی جیسے آرٹیفشل انٹیلیجنس بوٹس کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی
پاکستان میں ایچ ای سی نے فی الحال اس مسئلے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، تاہم ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے عندیہ دیا ہے کہ اس سلسلے میں جلد ایک پالیسی بنا دی جائے گی
ایچ ای سی کے ماہرین اس سے قبل سرقہ کے انسداد اور کاپی رائٹس کے تحفظ کے لیے سافٹ ویئر ’ٹرن اٹ ان‘ استعمال کر رہے ہیں، تاہم نئے چیٹ بوٹ کے پاس اس پرانے سافٹ ویئر کا توڑ موجود ہے کیونکہ اس سے موصول ہونے والے جوابات میں چوری شدہ مواد پکڑا نہیں جا سکتا
◼️چیٹ جی پی ٹی تھری کیا ہے؟
گزشتہ کئی دہائیوں کی محنت کے بعد تیار کردہ بوٹ چیٹ جی پی ٹی تھری انگریزی کے لفظ ’جنریٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر ورژن تھری‘ کا مخفف ہے
بظاہر یہ ایک سرچ انجن جیسا ویئر ہے جس پر سوال لکھنے پر تفصیلی جواب مل جاتے ہیں۔ مگر یہ اتنا سادہ نہیں بلکہ انتہائی طاقتور ترین ہتھیار ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں انٹرنیٹ پر اس کی دھوم اس وقت مچنا شروع ہوئی جب صارفین نے اس کے ذریعے سوالات پر سیکنڈوں میں اتنے متاثر کن جوابات شیئر کیے جو انسانوں کو دیے جائیں تو انہیں گھنٹوں یا دن لگ جائیں
یہ ٹیورنگ ٹیسٹ پاس کر چکا ہے۔ ٹیورنگ ٹیسٹ کا نام ایلن ٹیورنگ کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ آیا مصنوعی ذہانت اتنی آگے جا چکی ہے کہ عام انسان کو بے وقوف بنا کر یقین دلا دے کہ دوسری طرف بھی انسان ہی بات کر رہا ہے
چیٹ جی پی ٹی کا تحریر پکڑنے والا ٹول تیار کر لینے کا اعلان
مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کا استعمال کرنے والے معروف چیٹ بوٹ ’چیٹ جی ٹی پی‘ کے سامنے آتے ہی طلبہ میں یہ خاص طور پر مقبول ہوا اور دنیا بھر میں اسے مضامین لکھنے کے لیے استعمال کیا گیا، جس پر دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا
تاہم اب ’چیٹ جی ٹی پی‘ کی ملکیتی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ نے خود ہی اس مسئلے کا حل بھی نکال لیا ہے اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے لکھی گئی تحریروں کی شناخت کے لیے ایک سافٹ ویئر ٹول متعارف کروا دیا ہے
واضح رہے کہ چیٹ جی پی ٹی ایک مفت سروس فراہم کرنے والا پروگرام ہے، جو اسے دی گئی کمانڈ کے جواب میں تحریر تیار کرتا ہے، جس میں آرٹیکلز، مضامین، لطیفے اور یہاں تک کہ شاعری بھی شامل ہے
اس چیٹ بوٹ نے نومبر میں اپنے آغاز کے بعد سے ہی کاپی رائٹ اور سرقہ (ادبی چوری) کے بارے میں خدشات کے باوجود وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل کی ہے
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کمپنی کا نیا ٹول ’اے آئی کلاسیفائر‘ ایک لینگویج ماڈل ہے، جو ایک ہی موضوع پر انسانوں اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے لکھی گئی تحریروں کے ڈیٹا سیٹ کا موازنہ کرنے میں ماہر ہے اور اس کا مقصد دونوں تحریروں میں فرق کرنا ہے
کمپنی نے کہا کہ یہ ٹول غلط معلومات پر مبنی مہم اور تعلیمی میدان میں بے ایمانی جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے متعدد پرووائیڈرز کا استعمال کرتا ہے
اوپن اے آئی نے عوامی طور پر تسلیم کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کا پتہ لگانے والا یہ ٹول ایک ہزار حروف سے کم ٹیکسٹ کے لیے کافی حد تک ناقابل اعتبار ہے اور کلاسیفائر کو دھوکہ دینے کے لیے مصنوعی ذہانت کے ذریعے لکھے ہوئے متن کو ایڈٹ کیا جا سکتا ہے
اوپن اے آئی کا ’ہم کلاسیفائر کو عوام کے لیے فراہم کر رہے ہیں تاکہ ان کی رائے حاصل کی جا سکے کہ آیا اس جیسے نامکمل ٹولز کارآمد ہیں بھی یا نہیں۔‘
کمپنی نے بیان میں مزید کہا: ’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے لکھی گئی تحریروں کی شناخت اساتذہ کے درمیان بحث کا ایک اہم نکتہ رہا ہے اور ضروری ہے کہ کلاسیفائر کلاس رومز میں مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ٹیکسٹ کی حدود اور اثرات کو پہنچانے۔‘
دیگر کمپنیوں نے بھی تھرڈ پارٹی کا پتہ لگانے والے ٹولز بنائے ہیں جن میں جی پی ٹی زیرو ایکس شامل ہے تاکہ اساتذہ کو مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تحریروں کا پتہ لگانے میں مدد مل سکے
اوپن اے آئی نے کہا کہ وہ چیٹ جی پی ٹی کی صلاحیتوں اور حدود پر بات کرنے کے لیے اساتذہ کے ساتھ بات چیت کر رہے تاکہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تحریروں کی کھوج پر کام جاری رکھا جا سکے
امریکی ویب سائٹ ’فارچون‘ کے مطابق امریکہ اور دنیا بھر میں طلبہ دھوکہ دہی کے لیے چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز کا استعمال کر رہے ہیں جس کے بعد تعلیمی اداروں میں اس حوالے سے تشویش پیدا ہو رہی ہے
یہی وجہ ہے کہ گذشہ سال نومبر میں لانچ کیے گئے بوٹ چیٹ جی پی ٹی نے لاکھوں صارفین میں وسیع مقبولیت حاصل کر لی ہے، جس کے بعد نیویارک سٹی سمیت کچھ بڑے امریکی شہروں کے سکولوں نے اے آئی چیٹ بوٹ پر ان خدشات کے پیش نظر پابندی لگا دی ہے کہ طلبہ ٹیکسٹ جنریٹر کو دھوکہ دہی یا سرقے (ادبی چوری)کے لیے استعمال کر سکتے ہیں
امریکہ کے سب سے بڑے اسکول ڈسٹرکٹ کی جانب سے سکول کے کمپوٹرز اور نیٹ ورکس پر چیٹ جی پی ٹی ویب سائٹ کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور دیگر سکولز بھی ایسا کرنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں
پاکستانی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
پاکستان کی ماہر تعلیم اور وفاقی حکومت کی تعلیمی امور پر سابق مشیر عائشہ رزاق کے مطابق یہ انتہائی طاقتور بوٹ ہے۔ ایک انگریزی اخبار کے لیے لکھے ایک حالیہ مضمون میں انہوں نے کہا کہ طالب علموں کے لیے چیٹ جی پی ٹی ایک ذاتی ٹیوٹر کے طور پر باقاعدہ سرچ انجن سے کہیں زیادہ آسان ہے
ان کا کہنا تھا کہ عوام اس کو تعلیم کے علاوہ تفریح کے لیے بھی استعمال کریں گے۔ ان میں اس کے ذریعے شاعری اور گانوں کے بول پیدا کرنا، افسانوی کہانیاں لکھنا اور کتابوں، فلموں اور ٹی وی شوز میں کرداروں کے لیے مکالمے اور ’جعلی‘ قوٹس بنانا بھی شامل ہے
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ کہ کئی لوگ اس سے جعلی خبریں اور سوشل میڈیا پوسٹس وغیرہ بھی بنا سکتے ہیں
عائشہ رزاق کے مطابق سنجیدہ لوگ اس کو دنیا کے مخصوص منصوبوں اور خطوں کے لیے کاروباری منصوبے تیار کرنے، تحقیقی خلاصے بنانے، اور کوڈ کو سمجھنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں
تاہم ان کے مطابق چیٹ جی پی ٹی ابھی گوگل اور بِنگ وغیرہ کو ختم نہیں کر رہا۔ اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں اور کچھ استعداد کی کمی بھی ہے۔ اوپن اے آئی کو چیٹ جی پی ٹی تک عوامی رسائی کو حسب توقع روکنا بھی پڑا، کیونکہ مانگ تو اس کی بہت ہے مگر اس کے ذریعے جواب پیدا کرنے کی صحیح لاگت کافی زیادہ ہے اور ایک تخمینے کے مطابق صرف توانائی کے اخراجات کے لحاظ سے 15 لاکھ سے 18 لاکھ ڈالر تک اخراجات ہیں
ماہر تعلیم عائشہ رزاق نے مزید کہا کہ ’چیٹ بوٹ تعلیمی اداروں کے لیے ایک موقع بھی ہے اور ایک چیلنج بھی۔ زیادہ تر اعلٰی درجے کے نجی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کو ہدایات اور تشخیص کو اپنانا ہوگا‘
’کچھ طریقوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کے پروگراموں میں اس کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ زیادہ تر سرکاری سکولوں پر اس بوٹ کا اثر محدود ہوگا کیونکہ ان کے ہوم ورک کے لیے زیادہ کھلی تحریر کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
ان کے مطابق تحقیق کے لیے ’چیٹ جی پی ٹی‘ ایک مددگار اور وقت بچانے والا ہتھیار بن سکتا ہے لیکن صرف اس کا استعمال کرنے والے ہی اس کو صحیح طریقے سے رہنمائی کرنے اور اس سے پیدا ہونے والے آؤٹ پٹ کا اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں
’اس کے بغیر اگر صارف کے پاس اس بوٹ کی پیداوار کی تصدیق کرنے کی مرضی یا صلاحیت نہیں ہے تو یہ صرف وقت کی بات ہو گی جب تک کہ ہم ایسے ’محققین‘ کو مضامین شائع کرتے ہوئے دیکھیں گے جو اپنی ہی ’تحقیق‘ کو سمجھ نہیں پاتے اور وضاحت کرنے سے قاصر ہیں.