خوش آمدید کہو کہ دنیا میں ایک ایسا مہمان آیا ہے، جو پچاس ہزار سال میں آج تک نہیں آیا
سبزی مائل دمدار ستارہ کئی مہینوں سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن اس ہفتے یہ دمدار ستارہ ہر اس شخص کو زیادہ واضح دکھائی دے گا، جو اسے دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ یہ ستارہ زمین کے سب سے زیادہ قریب سے ہو کر گزرے گا
روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق زمین سے دو کروڑ چونسٹھ لاکھ میل کی دوری پر، یہ ستارہ زمین کے اتنا قریب ہوگا، کہ اسے باآسانی دیکھا جا سکے۔ مزید یہ کہ ستارے کی رفتار بھی کم ہوگی، جس کی وجہ سے لوگ اسے اس ہفتے اور اس کے بعد دیکھ سکیں گے
یہ کومیٹ پچاس ہزار برس میں پہلی بار زمین کے قریب سے گزرے گا اور شاید ایک مہینے تک یہ اسی کے آس پاس رہے
اس سے پہلے کہ ہم اس پر بات کریں، جس کی توقع اس وقت کی جا سکتی ہے، جب کائنات سے آنے والا یہ مہمان زمین کے قریب ترین ہو کر گزرے گا، آئیے پہلے جانتے ہیں کہ دمدار ستارہ کیا ہوتا ہے؟
دمدار ستارہ، جنہیں ماہرین فلکیات نے ’ڈرٹی سنوبالز‘ کا نام دے رکھا ہے، برف، دھول اور چٹانوں پر مشتمل گولے ہوتے ہیں، جو عام طور اس برفانی مواد کے حلقے سے آتے ہیں، جسے اورٹ (Oort) بادل کہا جاتا ہے، جو ہمارے نظامِ شمسی کے بیرونی کنارے پر موجود ہے۔ حقیقت میں معروف دمدار ستارے 21/بوریسوف کا تعلق ہمارے نظامِ شمسی سے باہر سے ہے
دمدار ستارے چٹان، برف اور دھول کے ٹھوس اندرونی حصے پر مشتمل ہوتے ہیں اور زیادہ برف اور دھول کی پتلی اور گیسی فضا سے ڈھکے ہوتے ہیں، جسے کوما کہتے ہیں۔ دمدار ستارے سورج کے قریب پہنچتے ہی پگھل جاتے ہیں۔ شمسی تابکاری اور پلازمے کی وجہ سے ان کی سطح سے اڑنے والی گیس اور دھول ایک دھارا بناتی ہیں اور وہ دھندلی اور باہر کی طرف سے دم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں
دمدار ستارے نظامِ شمسی کے اندر کی جانب گھومتے ہیں کیونکہ کشش ثقل کی مختلف قوتیں انہیں اورٹ بادل سے دور دیتی ہیں۔ جب وہ سورج سے خارج ہونے والی حرارت کے زیادہ قریب پہنچتے ہیں تو زیادہ واضح دکھائی دینے لگتے ہیں۔ دنیا بھر کی رسد گاہوں کے ذریعے ہر سال ایک درجن سے بھی کم دمدار ستارے دریافت ہوتے ہیں
اس وقت ہم جس دمدار ستارے کی بات کر رہے ہیں، یہ آخری بار زمین سے اس وقت گزرا تھا، جب ابھی نیئنڈرتھال (قدیم انسان) یوریشیا میں آباد تھے۔ ہماری انواع اپنی رسائی افریقہ سے باہر بڑھا رہی تھیں۔ برفانی دور کے بڑے ممالیہ جانور، جن میں دیوقامت ہاتھی اور تلوار کی شکل والے دانتوں کی مالک بلیاں بھی شامل ہیں، زمین پر گھومتی تھیں اور شمالی افریقہ ایک نم، زرخیز اور بارانی مقام تھا
کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں فزکس کے پروفیسر تھامس پرنس کے مطابق دمدار ستارہ ابتدائی شمسی نظام کے بارے میں سراغ فراہم کر سکتا ہے، کیونکہ یہ نظامِ شمسی کے ابتدائی مراحل کے دوران تشکیل پایا تھا
دمدار ستارے کا رنگ سبز کیوں ہے؟
سبز رنگ کا دمدار ستارہ، جس کا رسمی نام سی/2022 ای تھری ہے، دو مارچ 2022 کو ماہرین فلکیات نے اسے سان ڈیاگو میں کیلٹیک کی پالومر آبزرویٹری میں زوکی ٹرانزیئنٹ فیسیلٹی کی دوربین کا استعمال کرتے ہوئے دریافت کیا
اس کا سبزی مائل زمرد جیسا رنگ دمدار ستارے کی کیمیائی ساخت کے بارے میں بتاتا ہے۔ یہ رنگ دمدار ستارے کے مرکز میں واقع چمکدار دودھیا بادل میں موجود کاربن پر مبنی مالیکولز کے درمیان تصادم کا نتیجہ ہے
خلائی تحقیق کا امریکی ادارہ ناسا اس دمدار ستارے کا مشاہدہ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ (جے ڈبلیو ایس ٹی) کی مدد سے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس سے نظامِ شمسی کی تشکیل کے بارے میں سراغ مل سکتا ہے
ریاست میری لینڈ میں ناسا کے گوڈرڈ اسپیس فلائٹ سینٹر میں سیاروں کی سائنسدان اسٹینفی میلم کا کہنا ہے ”ہم ان مالیکیولز کے فنگر پرنٹ تلاش کرنے جا رہے ہیں، جن تک ہم زمین سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔۔ چوں کہ جے ڈبلیو ایس ٹی انتہائی حساس ہے، اس لیے ہم نئی دریافتوں کی توقع کر رہے ہیں“
سبز رنگ کے دمدار ستارے کو کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟
رات کے وقت جب آسمان صاف ہو، دوربین کا استعمال کرتے ہوئے دمدار ستارے کو شمالی آسمان پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک دستی دوربین سے یہ سبز رنگ کی ایک چھوٹی سی چمکتی ہوئی چیز کی طرح نظر آئے گا
پیر کو یہ بگ ڈِپر نامی ستاروں کے جھرمٹ میں واقع ستارے پولارس، دا نارتھ اسٹار کے درمیان نمودار ہوا اور بدھ کو کیملوپارڈیلس نامی ستاروں کے جمگھٹے کے قریب ظاہر ہونے کے لیے پوزیشن میں تھا۔ ستاروں کا یہ جمگھٹا ارسا میجر، بگ ڈپر اور لٹل ڈپر کی سرحد پر ہے
آبادی والے علاقوں میں روشنی کی پیدا کردہ آلودگی سے بچنے کے لیے دور دراز مقام کا پتہ لگانا دمدار ستارے کا اچھا نظارہ کرنے کی کلید ہے، کیونکہ یہ ہمارے سیارے کے پاس سے گزرتا ہوا سورج سے دور جا رہا ہوتا ہے۔ یہ دمدار ستارہ نظام شمسی کے بیرونی حصوں کی طرف واپس رہا ہے
ناسا نے اپنے ایک بلاگ میں کہا کہ ’کومیٹس کی پیشگوئی کرنا بے حد مشکل ہے پر اگر یہ اپنی روشنی میں اضافے کا یہی رجحان برقرار رکھتا ہے تو اسے دیکھنا آسان ہوگا۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تاریک آسمان تلے برہنہ آنکھ سے بھی دیکھا جا سکے۔‘