تشدد کے مظاہر: تاریخی پس منظر

ڈاکٹر مبارک علی

تاریخ میں مجرموں سے اقبالِ جرم کرانے کے لیے تشدد کو استعمال کیا جاتا تھا تاکہ مجرم کی شخصیت کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ اس میں مزاحمت کی قوت باقی نہ رہے اور اسے یہ احساس ہو جائے کہ اس کے لیے رہائی کا کوئی راستہ باقی نہیں ہے

تاریخ کے ابتدائی دور میں ہی تشدد کے لیے نئے آلات اور مشینیں ایجاد ہوئی تھیں۔ تشدد کرنے والے جلاد بے رحمی کے ساتھ ان کو استعمال کرتے تھے۔ وہ مجرم کی تکلیف، دُکھ اور اس کی جسمانی اذیت سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ ابتداء میں اذیت کے اس عمل کو پبلک کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان عبرتناک مناظر کو دیکھ کر جرائم سے دور رہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں یہ بھی احساس ہوتا تھا کہ ریاستی اداروں کی طاقت کے سامنے وہ بے بس ہیں۔ اس لئے انہیں قانون پر عمل کرنا چاہئے اور ریاست کا وفادار ہونا چاہئے

اس موضوع پر J.Martschukat اور Silvan Niedermeier نے Violence and Visibility in Modern History یعنی ”جدید تاریخ میں نظر آنے والا تشدد‘‘ پر ایک کتاب لکھی ہے۔ ان کے مطابق جب مجرم کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا تو پبلک اس کو دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتی تھی۔ وہ گھنٹوں تشدد کے اس عمل کو دیکھتے تھے اور مجرم کی چیخ و پکار کو سنتے تھے۔ مجرم کو زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانے کے لیے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جاتے تھے اور آخر میں اسے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ جن مجرموں کو زیادہ سخت سزائیں دی جاتی تھیں ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا تھا۔ Michael Foki (d.1984) نے اپنی کتاب Discpline and Punish (d.1984) یعنی ”تنظیم اور سزا‘‘ میں ایک مجرم کا حوالہ دیا ہے جس نے بادشاہ کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر سرعام تشدد کیا گیا۔ پہلے اس کے سیدھے ہاتھ کو جلایا گیا، پھر اس کے جسم کے مختلف حصوں سے گوشت کاٹا گیا اور ان زخموں پر پگھلتا ہوا سیسہ ڈالا گیا، پھر اس کے دونوں بازوؤں کو گھوڑوں سے باندھ دیا گیا اور پھر ان گھوڑوں کو دو مختلف سمتوں میں دوڑایا گیا اور اس کے بازوؤں کو جسم سے علیحدہ کر دیا گیا۔ آخر میں اسے پھانسی سے لٹکا کر اس کی اذیت کا خاتمہ کیا گیا

جب کسی بھی فرد پر مسلسل تشدد کیا جاتا ہے تو وہ اپنے ہوش و حواس کھو کر ہر جرم کو تسلیم کر لیتا ہے۔ جب عہد وسطیٰ میں جادو گرنیوں کو اذیت دی جاتی تھی، تاکہ وہ اقبال جرم کر لیں تو اس کا واقعہ اس طرح سے بیان کیا جاتا ہے کہ ایک راہب تشدد کے اس عمل کو جب دیکھنے آیا تو چرچ کا عہدیدار اسے اس کمرے میں لے گیا جہاں ایک عورت کو پہیے سے باندھ کر اذیت دی جارہی تھی۔ ان کو عورت نے دیکھتے ہی چیخ کر کہا ”ہاں میں ایک جادوگرنی ہوں‘‘ میں نے لوگوں کو مینڈک بنایا ہے اور میں جھاڑو کے سہارے ہوا میں بھی اُڑی ہوں۔ راہب یہ دلخراش منظر دیکھ کر متاثر تو ضرور ہوا مگر تشدد کے اس عمل کو نہیں روک سکا

عہد وسطیٰ ہی میں چرچ کا بنایا ہوا انکلویژن کا ادارہ ان افراد پر تشدد کرتا تھا جو مذہب کی تعلیمات سے منحرف تھے۔ ان اذیت کی مشینوں کو دیکھ کر Galileo (d.1642) نے یہ تسلیم کر لیا کہ زمین نہیں گھومتی ہے۔ 1992ء میں جاکر چرچ نے اپنی غلطی کو مانا اور Galileo کو سچا قرار دیا

تشدد ایک ایسا عمل ہے، جو انتہائی طاقتور اور صحت مند شخص کے اعصاب کو توڑ دیتا ہے۔ جرمنی کا ایک مشہور ڈاکو جس کے کردار پر معروف جرمن مؤرخ اور فلسفی Friedrich Schiller (d.1805) نے ڈاکو یعنی (Rober) کے نام سے ایک ڈرامہ بھی لکھا تھا۔ جب یہ ڈاکو گرفتار ہوا اور اس کو اذیتیں دی گئیں تو اس کی شخصیت ختم ہو کر رہ گئی۔ جب ایک پادری اس سے ملنے آیا تو وہ فرش پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے چہرے پر مایوسی تھی۔ پادری کو دیکھ کر اس نے کہا کہ فادر (Father) مجھ پر رحم کرو۔ اس پر فادر نے جواب دیا کہ ”تم رحم کے قابل نہیں ہو‘‘۔ اگلی دنیا میں تمہیں جہنم کی آگ میں جلایا جائے گا

سرعام تشدد کا یہ سلسلہ شمالی امریکہ میں بھی جاری رہا۔ سزا دینے کے سلسلے میں امریکی افریقیوں کو الزام دیا جاتا تھا۔ بجائے اس کے کہ مقدمہ عدالت میں چلے اور جرم ثابت ہو۔ مجمع خود ہی فیصلہ کر لیتا تھا اور ذرا سے شُبے میں افریقی شخص کو مارتے پیٹتے بھی تھے اور پھر سولی پر لٹکا بھی دیتے تھے۔ اسے Lyinching کہتے تھے اور لوگ اسے عوامی انصاف کا نام دیتے تھے۔ امریکہ میں Lyncling کا عمل زیادہ تر جنوب ریاستوں میں ہوا جہاں سفید فام افریقیوں سے نفرت کرتے تھے

وقت کے ساتھ ساتھ سرعام تشدد اور پھانسی کے خلاف ردعمل ہوا۔ جس کی وجہ سے سرعام پھانسی دینے اور تشدد کا سلسلہ ختم ہوا اور اب یہ عمل جیل کی چار دیواری میں ہونے لگا۔ انیسویں صدی میں تشدد کے خلاف مہم چلی جس کی وجہ سے ایسے تشدد کو نہیں اختیار کیا گیا جس کے نشانات مجرموں کے جسم پر ہوں، لیکن اس کی جگہ تشدد کے دوسرے طریقوں کو استعمال کیا جانے لگا۔ جیسے قید تنہائی نیند کا پورا نہ ہونا، پوری رات کھڑا رکھنا اور سونے نہ دینا۔ مثلاً گوانتانامو بے میں قیدیوں کو قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ جہاں نہ وہ کسی انسانی شکل کو دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی کسی کی آواز سن سکتے ہیں اور نہ ہی کسی سے بات کر سکتے ہیں۔ یہ قید تنہائی اس کے برداشت ختم کر دیتی ہے۔ جب ایک کمیشن ان قیدیوں کو دیکھنے آیا تو ایک قیدی نے کہا کہ اس کے لیے ہر دن موت کا دن ہوتا ہے

اس کے برعکس پاکستان میں پولیس تھانوں میں لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی کوئی پروا نہیں کی جاتی ہے۔ پبلک بھی یہ مطالبہ کرتی رہتی ہے کہ مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے، تاکہ ان کے انتقامی جذبات ٹھنڈے ہوں۔ ضیاء الحق کے زمانے میں سیاسی مخالفین کو سرعام کوڑے مارے گئے اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے ان کی چیخوں کو سنوایا بھی گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تہذیبی طور پر پسماندہ ہیں

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close