کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کے 36 سالہ سپروائزر فرقان اختر غیر قانونی ہائیڈ رنٹس کو تلاش کرکے اسے اپنے ادارے کو رپورٹ کرنے کے کام پر مامور تھے۔ وہ ضلع غربی کے علاقے منگھوپیر میں موٹرسائیکل پر اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے سڑکوں پر احتیاط کے ساتھ رواں دواں رہتے تھے اور جیسے ہی پانی چوری کرنے والی جگہوں کی معلومات حاصل ہوتیں، وہ جلد از جلد اپنے دفتر کو آگاہ کرتے۔
کے ڈبلیو ایس بی کے اہلکار ان ہائیڈرنٹس کو منہدم کرنے کے لیے چھاپے مارتے۔ اکتوبر میں ایسا ہی ایک آپریشن 48 گھنٹے تک جاری رہا اور اس کے نتیجے میں 7 غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو ختم کر دیا گیا۔ پولیس رپورٹ کے مطابق یکم نومبر 2022ء کو فرقان کو مسلح افراد نے راستے میں اس وقت روکا جب وہ منگھوپیر فلٹر پلانٹ سے معمول کے مطابق کھانا کھا کر واپس آرہے تھے۔ انہوں نے فرقان کے سر میں گولی ماری اور ان کی موٹر سائیکل پر فرار ہوگئے۔ فرقان کی ایک 6 سالہ بیٹی ہے۔ یہ موٹر سائیکل چھیننے کا ایک سیدھا سیدھا معاملہ ہوسکتا تھا اور نہیں بھی۔ فرقان کے اہلِ خانہ نےعدم تحفظ کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ڈان سے بات کرنے سے انکار کردیا۔
کے ڈبلیو ایس بی حکام کا دعویٰ ہے کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو بند کرنے کے آپریشن کی کوشش کے دوران پانی چوری کرنے والے ہائیڈرنٹس کے مالکان سے پُرتشدد جھڑپیں بھی ہوجاتی ہیں۔ فرقان کے ایک ساتھی نے اپنے سر کے اوپری حصے کو نرمی سے چھوتے ہوئے کہا کہ ’حالیہ دنوں میں ایوب گوٹھ میں ایک چھاپے کے دوران ان میں سے ایک نے مجھے ایک بڑا پتھر دے مارا۔
’میں اب بھی اپنے سر میں تکلیف محسوس کرتا ہوں۔ آپریشنز کے دوران ہمارے ساتھ 2 یا 3 پولیس موبائلیں رہتی ہیں لیکن وہ خود ٹینکر مافیا سے خوفزدہ نظر آتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ فرقان کے قتل کے بعد دفتر میں موجود ہر شخص پریشان ہے۔ ’گزشتہ ہفتے کے روز، ہم نے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف چھاپہ مارنا تھا، لیکن ہمیں اس وقت تک ایسا کرنے سے روک دیا گیا جب تک کہ ہمیں مزید معلوم نہ ہوجائے کہ فرقان کو کس نے اور کیوں مارا ہے‘۔
غیر قانونی ہائیڈرنٹس کراچی میں عوام کے ساتھ لوٹ مار کرنے والے گروہ کا ایک حصہ ہیں جو کراچی میں ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی کے گرد گھومتا ہے۔ مختلف ذرائع اور شواہد پر مبنی ایک انتہائی محتاط اندازے سے پتا چلتا ہے کہ پانی کے ٹینکر کے کاروبار میں روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 6 کروڑ 20 لاکھ روپے کا پانی شہر بھر میں ٹینکروں کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے جس کی مقدار کم و بیش 32 ملین گیلن یومیہ (ایم جی ڈی) ہے۔ یہ اعداد و شمار شہر میں صرف 6 قانونی ہائیڈرنٹس کو مدِنظر رکھ کر معلوم کیے گئے ہیں۔
اہم ترین سیاسی شخصیات، حکومتی ارکان، کے ڈبلیو ایس بی کے اہلکار، فوجی اہلکار، ہائیڈرنٹ کے ٹھیکیدار، ٹینکر مالکان، پولیس، رینجرز، مقامی سطح کے مضبوط افراد/سیاسی کارکن سب اس بڑے منافع بخش کاروبار کا حصہ ہیں۔ شہر میں مساوی طور پر پانی کی تقسیم کے بجائے پینے کے پانی کو سونے جیسی ایک شے بنا دیا گیا ہے۔ جو قیمت ادا کرسکتا ہے اسے یہ بیچ دیا جاتا ہے۔
ڈان انویسٹی گیشنز کو سائٹ وزٹ اور انٹرویوز کے ذریعے معلوم ہوا (زیادہ تر انٹرویو دینے والے، موضوع کی نوعیت کے پیش نظر گمنام رہنے کو ترجیح دیتے ہیں) کہ اصل صوتحال تو کہیں زیادہ خراب ہے۔ یہاں کچھ حلقے دوسروں سے زیادہ غیر ذمہ دار ہیں اور یہ پاکستان میں حکومتی لوٹ مار کی حقیقی عکاسی ہے۔
ماہرِ تعلیم اور محقق ڈاکٹر نعمان احمد کہتے ہیں کہ ’پانی تک رسائی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ کراچی کے باشندوں کی اکثریت کو اس بنیادی حق سے محروم رکھا گیا ہے‘۔ انہوں نے شہریوں کی پانی تک رسائی کی رکاوٹ میں اہم عوامل کے طور پر ’سماجی اور سیاسی روابط، کے ڈبلیو ایس بی یونین کے عملے کا اثر و رسوخ، مقامی بااثر افراد اور دیگر طاقتور افراد‘ کا حوالہ دیا۔
کراچی میں 6 ’باقاعدہ‘ واٹر ہائیڈرنٹس ہیں جن میں نیپا، شیرپاؤ (اسٹیل ٹاؤن کے قریب)، صفورا، منگھوپیر (کرش پلانٹ ہائیڈرنٹ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے)، سخی حسن اور لانڈھی ہائیڈرنٹس شامل ہیں۔ ان کا انتظام نجی ٹھیکیداروں کو 2 سال کی مدت کے لیے نیلامی کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ اگلی نیلامی کا عمل 26 جنوری 2023ء سے شروع ہوگا۔
2 دیگر ہائیڈرنٹس ایسے ہیں جو اس نیلامی کے عمل سے باہر ہیں۔ ایک ضلع کیماڑی میں بلدیہ میں ہے جو ’ڈپٹی کمشنر کوٹے‘ پر کام کرتا ہے اور اس کا مقصد صرف بلدیہ اور اورنگی کے علاقوں کے رہائشیوں کے لیے پانی کی فروخت ہے۔ یہ علاقے پانی کی قلت سے شدید متاثر ہیں۔ دوسرا ڈسٹرکٹ ایسٹ میں این ای کے ہائیڈرنٹ ہے، جو نیشنل لاجسٹکس سیل (این ایل سی) کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ اس کے کام کی نگرانی فوج کے میجر کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ 2 ہائیڈرنٹ کے ڈبلیو ایس بی سے آزاد رہ کر کام کررہے ہیں جبکہ کے ڈبلیو ایس بی ایک سرکاری ادارہ ہے جس کا قانونی طور پر شہر کے زیرِ زمین پانی پر بھی اختیار ہے۔
(ٹینکر کے ذریعے 32 ملین گیلن یومیہ پہنچائے جانے والے پانی کے تخمینے میں، این ایل سی کے ٹینکر شامل نہیں ہیں)۔
کراچی کا سرکاری پانی کا کوٹہ 650 ملین گیلن یومیہ (ایم جی ڈی) ہے۔ اس کی آبادی کو دیکھتے ہوئے، کم از کم 450 ملین گیلن یومیہ کی قلت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ درحقیقت نیسپاک کے ایک حالیہ سروے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کراچی اپنے 650 ملین گیلن یومیہ کے کوٹے کا مکمل پانی حاصل نہیں کرپارہا۔ شہر میں داخل ہونے والے پانی کی مقدار تقریباً 520 ملین گیلن یومیہ ہی ہے۔ کراچی کو فراہمیِ آب کے 3 ذرائع ہیں جن میں سندھ میں کینجھر جھیل اور ہالیجی جھیل اور بلوچستان میں حب ڈیم شامل ہیں۔
کراچی کے ضلع غربی اور کیماڑی کم آمدن والے طبقے کے علاقے ہیں اور انہیں پانی کی دستیابی حب ڈیم سے ہوتی ہے۔ حب ڈیم میں پانی کا انحصار مکمل طور پر کیرتھر پہاڑی سلسلے سے آنے والے بارش کے پانی پر ہے۔ نہروں، نالیوں، پمپنگ اسٹیشنوں، فلٹر پلانٹس، کے 2 اور کے 3 منصوبوں اور لائنوں وغیرہ کے نیٹ ورک کے ذریعے سے کراچی کے مکینوں کے لیے پانی لایا جاتا ہے۔ کے ڈبلیو ایس بی اس کے انتظام اور تقسیم کی نگرانی کرتا ہے۔ ناقص انتظامات کے سبب اس پانی کا ایک تہائی حصہ ’نان ریونیو واٹر‘ کے طور پر ضائع ہوتا ہے، یعنی یہ پانی پمپ کیا جاتا ہے لیکن کراچی کے لوگوں تک پہنچ نہیں پاتا اور ضائع ہوجاتا ہے۔
دسمبر 2016ء میں وکیل شہاب استو کی طرف سے دائر آئینی درخواست کے جواب میں سپریم کورٹ نے سندھ کے رہائشیوں کو صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ صوبے میں صفائی کے مسائل کا جائزہ لینے کے لیے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن کی سربراہی پہلے سندھ ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور بعد ازاں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس امیرہانی مسلم نے کی۔ اس کمیشن نے صوبے بھر میں مرتب کیے جانے والے نتائج کو عدالتِ عظمیٰ کے سامنے 4 رپورٹوں کی صورت میں پیش کیا۔
کمیشن نے کراچی میں فراہمی آب کے نظام سے متعلق بدنظمی اور 30 فیصد آپریشنل نقصانات کا پتا لگایا اور ’پانی کی سپلائی لائنوں کے ناقص نیٹ ورک، چوری اور غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس‘ کو اس کا سبب بتایا۔ دوسری رپورٹ میں پانی کے ہائیڈرنٹس سے متعلق سیکشن میں بتایا گیا کہ وہ ’بغیر کسی طے شدہ اصول و ضوابط کے چل رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ ہائیڈرنٹس کو ٹھیکے پر دینے کا عمل بالکل نامناسب ہے۔ آخری ٹھیکے 2008ء اور 2009ء میں دیے گئے تھے۔ پانی کی قیمت کا تعین بھی من مانے انداز میں کیا گیا ہے‘
اس شعبے کو بہتر بنانے کے لیے 14 سفارشات پیش کی گئیں جن میں یہ بھی کہا گیا کہ ’تمام ہائیڈرنٹس کو پانی سے محروم علاقوں میں عوامی خدمت کےجذبے کے ارادے کے تحت اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے‘۔ ان رپورٹس کے بعد شہر کی تاریخ میں ناجانے کون سی بار اور سپریم کورٹ کے دباؤ پر متعدد غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو مسمار کردیا گیا۔ حکومت کی طرف سے منظور شدہ ہائیڈرنٹس کی تعداد کو بھی کم کرکے 6 پر لایا گیا، جنہیں پبلک پروکیورمنٹ رولز کے مطابق ’شفاف طریقے سے‘ نیلام کیا جانا تھا۔
ہر ہائیڈرنٹ پر فلو میٹر ٹینکروں میں بھرنے والے پانی کی مقدار کا تعین کریں گے اور احاطے میں لگے کیمرے اس ’شفافیت‘ کو مزید بہتر کردیں گے۔ لیکن زمینی صورتحال اس سے بہت مختلف ہے۔ کے ڈبلیو ایس بی کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ ’تمام میٹروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ وہ جتنا چاہیں پانی لے سکتے ہیں۔ ہر سرکاری ہائیڈرنٹ پر کے ڈبلیو ایس بی کا ایک شخص تعینات ہوتا ہے جو ٹینکروں کے ہر چکر کی تعداد گن کر کراس چیک کرتا ہے۔ لیکن جب وہ ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، تو آپ صحیح اعداد و شمار کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ ذرا تصور کریں، واٹر بورڈ اپنے 6 ہائیڈرنٹس پر میٹروں کا انتظام بھی نہیں کرسکتا‘۔
سپریم کورٹ کے زیرِ انتظام واٹر کمیشن نے کے ڈبلیو ایس بی کے ایک ایگزیکٹو انجینئر ندیم کرمانی کو بدعنوانی کے الزامات پر برطرف کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے جرائم میں فلو میٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی شامل ہے۔ لیکن انہیں ایک سال بعد اسی عہدے پر سندھ حکومت کی طرف سے دوبارہ تعینات کیا گیا اور وہ آج تک وہیں ہیں۔ وہ کے ڈبلیو ایس بی کے وائس چیئرمین نجمی عالم کے اسٹاف آفیسر بھی ہیں۔
8 ستمبر 2016ء کو کراچی میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف درخواستوں کے ایک کیس کی سماعت کرنے والے 2 رکنی بینچ کی طرف سے سپریم کورٹ کے حکم میں کے ڈبلیو ایس بی کے اہلکار راشد صدیقی کو ’غیر مجاز طریقے سے ہائیڈرنٹس کو ٹھیکے پر دینے کا ذمہ دار‘ قرار دیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ اس کی محکمانہ انکوائری کی جائے مگر حکومت نے راشد صدیقی کو واٹر بورڈ کے اینٹی تھیفٹ سیل کا انچارج بنا دیا اور وہ کچھ عرصہ پہلے تک وہاں رہے۔ ان پر ایک اور الزام بھی لگا جو شاید حیران کن بھی نہیں ہے کہ وہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف جعلی آپریشن بھی کرتے تھے۔
(جب ڈان کی ٹیم شیر پاؤ ہائیڈرنٹ کے قریب پہنچی، جو اس وقت ڈی ایچ اے کے لیے ٹینکر سروس کا بنیادی ذریعہ ہے، تو وہاں موجود ایک شخص نے گاڑی کو اپنے سیل فون پر ریکارڈ کرنا شروع کردیا۔ پھر ایک مسلح گارڈ نے آگے بڑھ کر ٹیم سے کہا کہ تصویریں لینا بند کردیں اور قریب نہ آئیں۔)
ایم ڈی واٹر بورڈ سید صلاح الدین احمد نے اعتراف کیا کہ ہائیڈرنٹس کے میٹروں میں واقعی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ ’لیکن ہم آئندہ نیلامی کے بعد کچھ انتظامات کر رہے ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’ٹینکروں کے پورے بیڑے کو ہر فِلنگ پوائنٹ پر کیمروں کے ذریعے نگرانی میں رکھا جائے گا اور میٹر ڈویژن کو اس تک رسائی نہیں دی جائے گی۔ یہ تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ ہوگی‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹینکروں میں ٹریکر نصب کیے جا رہے ہیں، اور وہاں ایک کمپیوٹرائزڈ پرچی ہوگی جس میں کیو آر کوڈ ہوگا ’تاکہ صارف کو یہ معلوم ہو کہ پانی کہاں سے آرہا ہے‘۔
سندھ واٹر کمیشن کی جامع انکوائری کے نتیجے میں ہائیڈرنٹ چلانے کا ٹھیکہ جیتنے کے لیے اب تقریباً 3 کروڑ روپے کی بینک گارنٹی، 3 سال کے بینک اسٹیٹمنٹ، ٹیکس گوشوارے، اثاثہ جات کا ریکارڈ، ڈرائیوروں کا ڈیٹا اور پولیس کی تصدیق وغیرہ کی ضرورت ہے۔ لیکن منظم فریم ورک کی یہ ظاہری شکل پُرفریب ہے۔
اس مافیا کا ’سرغنہ‘
بااثر سیاسی و حکومتی لوگ اس مافیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس عرصے میں کچھ بھی نہیں بدلا سوائے اس کے کہ اب کے ڈبلیو ایس بی خود سرکاری طور پر شہر کے مکینوں کے ساتھ ہونے والے دھوکے میں ملوث ہے۔ یہ منظم بدعنوانی کی بہترین مثال ہے۔ پانی کے ہائیڈرنٹس کے ٹھیکے تک انہیں ہی رسائی مل سکتی ہے جن کے معاملات شہر پر مسلط سیاسی و انتظامی اختیار رکھنے والوں کے ساتھ ہوں تاکہ مٹھی بھر افراد باہمی طور پر اس فائدہ مند کاروبار کو افہام و تفہیم کے تحت چلاتے رہیں۔
ایک ہائیڈرنٹ کے ٹھیکیدار نے ڈان کو بتایا کہ وہ اپنے کاروبار کے تحفظ کی مد میں الگ سے بھاری رقم ادا کرتا ہے۔ یہ بھتہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں، واٹر بورڈ افسران اور اعلیٰ سطح پر پانی کی فروخت کے آپریشن کی نگرانی کرنے والوں اور ان کے سیاسی سرپرستوں کو جاتا ہے۔
متعدد ذرائع نے ایک ’سرغنہ‘ کے بارے میں بات کی، جو ایک ریٹائرڈ اعلیٰ صوبائی بیوروکریٹ کا داماد ہے اور جو کم از کم 2 سرکاری ہائیڈرنٹس براہِ راست یا اپنے فرنٹ مین کے ذریعے چلاتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام غیر قانونی کاموں میں اس کا ایک تہائی حصہ ہے۔ ہائیڈرنٹ آپریشنز سے قریب سے جڑے ایک فرد کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمارے تمام مسئلے مسائل حل کرنے کا انتظام کرتا ہے‘۔
اس میں ملوث کردار قانون سے اس قدر ماورا ہیں کہ جب 2017ء کے آخر میں شیرپاؤ ہائیڈرنٹ کی نیلامی پر 2 دعویداروں کے درمیان تنازع کھڑا ہوا تو فریقین میں سے ایک نے عدالت سے اسٹے لے لیا، لیکن مذکورہ بالا سرغنہ نے عدالتی بندش کے باوجود شیرپاؤ ہائیڈرنٹ سے پانی کی فروخت کا کام جاری رکھا۔
ڈان کی ویب سائیٹ پر اس عرصے کی سیٹلائٹ تصاویر سے واضح ہے جس کے دوران ہائیڈرنٹ کے آپریشن پر اسٹے تھا اور اس دوران بڑے بڑے ٹینکر پانی کی فروخت کا کام کررہے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ اس سال اپریل میں تنازعہ حل ہوگیا ہے اور ہائیڈرنٹ آپریشنز کو فوجداری مقدمات کے ایک معروف وکیل اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر کے بیٹے نے 7 ارب روپے میں خرید لیا ہے۔
اسی سرغنہ نے منگھوپیر ہائیڈرنٹ پر تھرپارکر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک ایم پی اے کے فائدے کے لیے 2 اضافی فلنگ پوائنٹس بھی لگواکردیے جو بظاہر کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کو پانی فراہم کرنے کے لیے تھے۔ لیکن کے ڈبلیو ایس بی ذرائع کے مطابق، اس حوالے سے کوئی سوال نہیں پوچھا جاسکتا کہ جہاں پانی درحقیقت پہنچایا جانا تھا وہاں پانی دینے کے بجائے اسے کہاں فروخت کیا جاتا ہے؟
اسی طرح ’ڈی سی کوٹہ‘ بھی ہے۔ واٹر بورڈ کے ایک مایوس اہلکار کے مطابق، یہاں ’لوٹ مار توقع سے بھی زیادہ ہے‘۔ اس کا آغاز 2015ء میں اس وقت ہوا جب شدید گرمی کی لہر نے کراچی کو نشانہ بنایا اور کے ڈبلیو ایس بی نے ڈی سی کوٹے کے تحت کئی سو ٹینکروں کی منظوری دی تاکہ عوامی مقامات جیسے مساجد، امام بارگاہوں وغیرہ کو جھلسا دینے والے درجہ حرارت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مفت پانی فراہم کیا جاسکے۔
وقت گزرنے کے ساتھ پانی کی فروخت، سندھ حکومت کے لیے سیاسی سرپرستی کا ایک آسان ذریعہ اور پارٹی کارکنوں کے لیے ملازمتیں فراہم کرنے کا ایک متبادل انتظام بھی بن گیا ہے جس میں مقامی سطح پر نہ صرف پیپلزپارٹی کے عہدے دار بلکہ پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے کچھ لوگ بھی پانی کے بالکل مفت ٹینکر حاصل کرتے ہیں۔ یہ ٹینکر کوٹہ روزانہ 50 ہزار گیلن سے تجاوز کرجاتا ہے۔
ایک ہائیڈرنٹ ٹھیکیدار کے مطابق، کراچی کی سیاست میں نمایاں پی پی پی رہنما اور کے ڈبلیو ایس بی کا ایک اعلیٰ عہدہ رکھنے والے فرد کے پاس سب سے زیادہ یومیہ 3 لاکھ گیلن پانی کا کوٹہ ہے۔
اس ہزاروں گیلن قیمتی پانی کو یہ خوش قسمت لوگ جیسے چاہیں استعمال کرسکتے ہیں، چاہے وہ اپنے سوئمنگ پولز کو بھریں، اپنے سرسبز لان کو پانی دیں، دوستوں کو نوازیں یا اپنے ٹینکر کے کاروبار میں مشغول ہوں۔ اگر صوبے کے انتظامی اختیارت کو حقیقی معنوں میں مقامی حکومتوں کو منتقل کردیا جائے تو یہ بھرپور عیاشی کا انتظام یقینی طور پر خطرے میں پڑجائے گا۔
تمام 6 سرکاری ہائیڈرنٹس ڈی سی کوٹے کے ٹینکر بھرنے کے پابند ہیں۔ اس قیمتی پانی کا بل ہائیڈرنٹس مالکان واٹر بورڈ کے ذریعے سندھ حکومت کوپیش کرتے ہیں۔ اس وقت حکومت پر اس ضمن میں بھاری رقوم واجب الادا ہیں اور ہائیڈرنٹ کے ٹھیکیدار اس کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے عدالت میں چلے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر، سخی حسن ہائیڈرنٹ کے ٹھیکیدار شیر محمد نے ایک ارب 47 کروڑ 15 لاکھ 13 ہزار 221 روپے کی وصولی کے لیے دو مقدمے دائر کیے ہیں۔ غلام نبی، جو نیپا ہائیڈرنٹ چلاتے ہیں اور اس کاروبار میں سب سے پرانے ہیں، سندھ حکومت اور واٹر بورڈ پر 19 کروڑ 11 لاکھ 14 پزار 404 روپے کے بقایاجات کی وصولی کے لیے مقدمہ تیار کیے بیٹھے ہیں۔ مجموعی طور پر، 6 ہائیڈرنٹس کی طرف سے دعوی کردہ رقم 3 ارب 75 کروڑ 82 لاکھ 93 ہزار 707 روپے ہے۔ اگر یہ مبالغہ آرائی نہ ہو تو یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پانی سے وابستہ کام سے کتنا زیادہ کمایا جاسکتا ہے۔
دریں اثنا جب این ایل سی کے ہائیڈرنٹ کی جانچ پڑتال کی گئی تو واٹر کمیشن کی 2 رپورٹوں میں سے کسی میں بھی اس کا ذکر نہیں ملا۔ واٹر بورڈ کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ ’کے ڈبلیو ایس بی کے سینیئر افسران کو تو چھوڑیں، یہاں تک کہ وزیرِاعلیٰ بھی این ایل سی افسران سے سوال کرنے کی ہمت نہیں کریں گے‘۔
این ایل سی کی ویب سائٹ پر، ’روڈ فریٹ‘ سیکشن میں ’واٹر سروسز‘ کو بھی دکھایا گیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ’تقریباً 3 لاکھ 24 ہزار گیلن کی مجموعی صلاحیت کے ساتھ، یہ ادارہ کراچی میں سرکاری اور تجارتی اداروں کو صاف پانی کی فراہمی میں سرگرم عمل ہے‘۔
ڈسٹرکٹ ایسٹ میں واقع این ای کے ہائیڈرنٹ میں نثار نامی سپروائزر نے ڈان کو بتایا کہ ہائیڈرنٹ ’صرف تجارتی خدمات فراہم کرتا ہے‘۔ کے ڈبلیو ایس بی کے ذرائع نے تصدیق کی کہ پرائیویٹ ٹھیکیداروں کے پاس موجود ہائیڈرنٹس کے برعکس، فوج کے زیرِ انتظام این ای کے ہائیڈرنٹ کو نہ تو سرکاری اداروں کو پانی فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ڈی سی کوٹہ پورا کرنے کی۔ یعنی پانی کے کاروبار میں ملوث یہ ادارہ مکمل طور پر آزادانہ کام کررہا ہے۔ ڈی ایچ اے میں بہت سے مقامات کو این ایل سی کے ٹینکر کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
این ای کے ہائیڈرنٹ میں فلنگ پوائنٹس کے نیچے کھڑے ٹینکرز پر این ایل سی کا مخصوص لوگو پینٹ کیا گیا تھا، لیکن قریب ہی ایک درجن سے زیادہ ’عام‘ ٹینکر بھی کھڑے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا تو نثار نے کہا کہ ان کا استعمال اس وقت ہوتا ہے ’جب این ایل سی کے ٹینکر پانی کی طلب پوری کرنے سے قاصر ہوں‘۔
اس بات سے قطع نظر کہ پانی کے فروخت میں منافع خوری ایک وجہ ہے۔ این ایل سی کے ٹینکرز کا اصل مقصد حساس منصوبوں اور تنصیبات کو پانی فراہم کرنا ہے۔ 8 ستمبر 2016ء کے سپریم کورٹ کے حکم میں جس کا حوالہ اس آرٹیکل میں اوپر کی سطروں دیا گیا ہے، ایم ڈی کے ڈبلیو ایس بی کے بیان کو نقل کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اسٹریٹجک وجوہات کی بنا پر این ایل سی کے ایک ہائیڈرنٹ کو آپریشنل رکھنے کی ضرورت ہے‘۔
اس دھندے سے فائدہ اٹھانے والی اہم شخصیات
کراچی واٹر بورڈ کے تمام ہائیڈرنٹس پر پانی کا نرخ 40 پیسے فی گیلن ہے مگر فروخت کے لحاظ سے 2 سرکاری نرخ مقرر کیے گئے ہیں۔ ایک جنرل پبلک سروس (جی پی ایس) اور دوسرا کمرشل۔ 2020ء میں ہائیڈرنٹس کی نیلامی کے وقت ایک ہزار گیلن کے لیے جی پی ایس ایک ہزار 300 روپے مقرر کیا گیا تھا لیکن ہائیڈرنٹ ٹھیکیداروں نے گزشتہ سال اپنی مرضی سے اسے ایک ہزار 700 روپے تک بڑھا دیا۔ کے ڈبلیو ایس بی نے ابھی تک اس شرح کوباقاعدہ مقرر نہیں کیا ہے۔
جی پی ایس کے نر خ پر لوگوں کو ملنے والے ٹینکروں کی تعداد انتہائی محدود ہے (اگرچہ کے ڈبلیو ایس بی کے ہائیڈرنٹس کے ساتھ معاہدے کے مطابق ایک دن کے کُل کوٹہ کا 40 فیصد جی پی ایس کے تحت فروخت ہونا ہے) اور یہ صرف آن لائن بک ہونے پر دستیاب ہیں۔ یوں زیادہ تر لوگ ہائیڈرنٹس سے براہِ راست ٹینکر خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں، تب ان سے کمرشل نرخ یعنی ایک ہزار گیلن کے لیے 2 ہزار 600 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس طرح، ہائیڈرنٹ کی فروخت میں اب تک کا سب سے بڑا حصہ کمرشل نرخوں پر فروخت ہونے والے پانی کا ہوتا ہے کیونکہ یہ تجارتی/صنعتی اداروں کے ساتھ ساتھ اپارٹمنٹ بلاکس پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ دوسری جانب ایک ہزار گیلن کے لیے این ایل سی کے نرخ 3 ہزار روپے سے بھی زیادہ ہیں۔
ڈان نے کے ڈبلیو ایس بی ذرائع سے ہائیڈرنٹس اور سرکاری ایجنسیوں سے موصول ہونے والے پے آرڈرز کی فہرست حاصل کی تو اس کے مطابق مئی 2022ء میں ہائیڈرنٹ آپریشنز سے واٹر بورڈ کی مجموعی ریکوری 7 کروڑ 19 لاکھ 51 ہزار 429 روپے ہے۔ اس میں این ایل سی شامل نہیں ہے۔ تاہم ہائیڈرنٹس سیل سے منسلک سابقہ انچارج کے مطابق کے ڈبلیو ایس بی کی ریکوری اس سے حاصل کیے گئے پانی کے مقابلے میں کم ہے۔
سابقہ انچارج کا کہنا تھا کہ یومیہ 40 ملین گیلن میٹھا پانی 6 ہائیڈرنٹس سے ٹینکروں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ ان ہائیڈرنٹس میں سے ہر ایک کی روزانہ آمدن ایک ارب 60 کروڑ روپے، ماہانہ 48 ارب روپے یا سالانہ 576 ارب روپے بنتی ہے۔
واٹر بورڈ کے ایم ڈی احمد صاحب نے تسلیم کیا کہ یہ نظام بہت ڈھیلے ڈھالے انداز میں جان بوجھ کر چلایاجارہا ہے ’تاکہ [مخصوص] لوگ اس سے پیسہ کمائیں نہ کہ واٹر بورڈ‘۔ ان کے مطابق کے ڈبلیو ایس بی ہائیڈرنٹ آپریشنز سے ماہانہ 6 سے 7 کروڑ روپے کماتا ہے جبکہ یہ کم از کم 200 فیصد زیادہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے ان 6 ہائیڈرنٹس سے سرکاری اعداد و شمار کے طور پر یومیہ 18 ملین گیلن پانی کے ٹینکرز کے ذریعے ترسیل کو قبول کیا۔
یہاں ایک اور نکتہ بھی غور طلب ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی میں 21 لاکھ 40 ہزار گھر ہیں جن میں پینے کے پانی کا ذریعہ گھروں کے نلکے ہیں جن کا کنکشن واٹر بورڈ کا کہلاتا ہے۔ (تجارتی اداروں کے لیے کوئی متعلقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہے۔) ان گھروں سے واٹر بورڈ بل کی مد میں فی یونٹ اوسطاً ماہانہ 400 روپے وصول کرے تو ہر ماہ کُل وصولی تقریباً 85 کروڑ 65 لاکھ روپے بنتی ہے، جو مئی 2022ء میں واٹر بورڈ کے 6 ہائیڈرنٹس سے جمع کی گئی رقوم کے ایک ہزار فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ وصولیاں صرف ایک ماہ کی نہیں تھیں بلکہ اس میں جزوی بقایاجات بھی شامل تھے۔ اگر واٹر بورڈ کو ضروری خدمات فراہم کرنے والے شہری ادارے کے طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے تو یہ اس سے کہیں زیادہ کما سکتا ہے۔ لیکن پھر طاقتور اسٹیک ہولڈرز اپنی آمدنی کا ایک بہت بڑا منافع بخش ذریعہ کھو دیں گے۔
عام شہریوں کو بھی ٹینکرز کے لیے ادا کیے جانے والے نرخوں میں عدم مساوات پر غصہ آنا چاہیے۔ کے ڈبلیو ایس بی متعدد افراد/مقامات کو ایک ہزار 700 روپے فی ایک ہزار گیلن کی جی پی ایس شرح پر ٹینکر فراہم کرتا ہے۔ اس کی ادائیگی سندھ اور وفاقی حکومتوں کے ذریعے براہِ راست واٹر بورڈ کو کی جاتی ہے۔
اس فہرست میں وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس، چیف سیکرٹری ہاؤس، نیو زرداری ہاؤس، بلاول ہاؤس، پی اے ایف کورنگی کریک بیس، ہیڈکوارٹر 494 انجینئرنگ گروپ ایف ڈبلیو او اور سندھ رینجرز کے مختلف ونگز شامل ہیں۔ اس فہرست میں سندھ کی وزیرِ صحت عذرا پیچوہو اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی بھی شامل ہیں۔ اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے قریبی کاروباری پارٹنر کی بہو کی ملکیت ایک بوتیک بھی ہے، حالانکہ بلنگ ایڈریس پرانے کلفٹن میں بوتیک کے ’گودام‘ کا ہے۔
’سرکاری‘ ذریعے سے کراچی کے پانی کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ غیر قانونی ہائیڈرنٹس بھی پروان چڑھ رہے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ہائیڈرنٹس 2 طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کے ڈبلیو ایس بی سپلائی کی لائنوں پر ہیں اور دوسرے وہ جو زیرِ زمین پانی نکالتے ہیں۔ ہماری اس تحقیقات کا احاطہ پہلی قسم تک محدود ہے۔ حالانکہ بہت سے ٹینکر زیرِ زمین پانی بھی فروخت کررہے ہیں، یہ ایک ایسا عمل ہے جو کراچی کے لیے ماحولیاتی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
نیب کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق شہر بھر میں کے واٹر بورڈ کی پائپ لائنوں سے میٹھا پانی چوری والے کم از کم 86 غیر قانونی ہائیڈرنٹس موجود ہیں۔ ان میں سے 75 صرف ضلع غربی میں واقع ہیں جس کے کچھ حصے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے چند سال پہلے علاقہ غیر بن گئے تھے اور آج بھی وہاں حالات بہتر نہیں ہیں۔
غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی فہرست کے ایک حصے پر دسمبر کے دوسرے ہفتے میں OPP-RTI کے سینیئر منیجر اور ان کی ٹیم کی تحقیق نے ضلع غربی میں کے ڈبلیو ایس بی سپلائی لائنوں پر 10 غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے مقامات کا تعین کیا۔ کچھ علاقوں جیسے جنجال گوٹھ، ملا حسن گوٹھ اور رمضان گوٹھ کو سروے کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا گیا۔
کچھ غیر قانونی ہائیڈرنٹس، چار دیواری کے اندر واقع ہیں جس کی ایک مثال الطاف نگر، اورنگی میں ماشااللہ کوچ اڈے کے قریب واقع ہائیڈرنٹ ہے۔ جب پائپ لائن میں پانی چھوڑا جاتا ہے تو ہائیڈرنٹ بھی حرکت میں آجاتا ہے۔ اس کے بعد پانی کا رخ ان کے بڑے زیرِ زمین ٹینکوں کی جانب موڑ دیا جاتا ہے جہاں سے اسے ایک سے 2 ہزار گیلن والے ٹینکروں کے ذریعے اکثر اورنگی کے رہائشیوں کو ہی فروخت کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ بیوروکریسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت کے بغیر ایسی کارروائیاں نہیں ہوسکتیں۔ مجرمان یک طرفہ کام نہیں کرتے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔
شہری منصوبہ ساز اور سماجی کارکن پروین رحمٰن کو ضلع غربی کے علاقے میں بے رحمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا تھا۔ ان کے قتل کی تحقیقات کرنے والی دوسری جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’پانی بیچنے والے مافیا کے ارکان طاقتور افراد تھے، جن کے تعلقات اور وابستگی کراچی کے جرائم پیشہ عناصر سے تھے چاہے وہ لیاری گینگ وار ہو، ایم کیو ایم یا پاکستانی طالبان۔
سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم زمان کے مطابق ’کراچی جیسے شہر میں جرائم کینسر کی طرح عمودی اور افقی طور پر پھیلتے ہیں۔ رحیم سواتی، جسے زمینوں پر قبضے سے متعلق وجوہات کی بنا پر پروین رحمٰن کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا [اور حال ہی میں اپیل پر بری کردیا گیا ہے]، وہ بھی او پی پی کے دفتر سے کچھ دُور ایک غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹ چلا رہا تھا‘۔
واٹر بورڈ کے ایک ملازم کا کہنا ہے کہ ’غیر قانونی ہائیڈرنٹس سے نمٹنا ایک خطرناک کام ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں، وہ چند دنوں میں دوبارہ آکر اپنا کام شروع کردیتے ہیں‘۔ حقیقت یہ ہے کہ ہائیڈرنٹ کے کاروبار میں کافی طاقتور لوگ ملوث ہوتے ہیں تاکہ اسے بلاتعطل جاری رکھا جاسکے۔ مثال کے طور پر، ضلع غربی کے غریب علاقوں سے بہت دُور، شاہراہِ فیصل کے ساتھ ایک غیر قانونی ہائیڈرنٹ بھی ہے، جو قومی مفاد کا حامل حساس علاقے کا حصہ ہے۔
اس غیر قانونی سرگرمی کے ماحولیات اور ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر کے لیے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق 7 ہزار ٹینکر روزانہ ایک لاکھ 40 ہزار کلومیٹر پر محیط علاقے میں اپنا آپریشن چلاتے ہیں جس سے 23 ہزار لیٹر کے قریب ڈیزل کی کھپت ہوتی ہے۔ اس ایندھن کے استعمال سے ٹینکر 5.2 میٹرک ٹن فضائی آلودگی پیدا کرتے ہیں۔ موجودہ سرکاری شرح مبادلہ کے مطابق اس پر تقریباً 7 لاکھ ڈالر ماہانہ یا تقریباً 84 لاکھ ڈالر سالانہ کی لاگت آتی ہے۔
شہر کے وسائل پر کنٹرول
اس شہر میں پانی کے نظام کی ایک ریکٹ کی صورت اختیار کرنے کی کہانی، شہرِ کراچی کی سیاسی قسمت کی بازگشت ہے۔ شاید یہاں بدقسمتی کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔ 1980ء کی دہائی کے وسط سے کراچی بار بار مختلف نسلی و سیاسی گروہوں کے درمیان شدید تشدد کی زد میں رہا ہے پھر ایم کیو ایم کے اندر بھی گروہی اختلافت ہوئے، یہ تمام گروہ شہر پر اپنا کنٹرول چاہتے تھے۔
2000ء کی دہائی کے وسط تک اس پر زیادہ تر ایم کیو ایم کا قبضہ رہا جبکہ اس سے الگ ہونے والا دھڑا ایم کیو ایم (حقیقی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے کچھ علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اس وقت تک ان کے درمیان پانی آمدن کا ذریعہ نہیں بنا تھا۔ درحقیقت ہائیڈرنٹس سب سے پہلے 1980ء کی دہائی میں سیاسی ذمہ داری کے احساس سے وجود میں آئے تھے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ تیزی سے پھیلتے ہوئے کراچی کے ان حصوں کو پانی فراہم کیا جائے جہاں پائپ لائنیں نہیں بچھائی جاسکی تھیں۔
1999ء میں شہری انتظامیہ نے اس وقت 36 ہائیڈرنٹس سندھ رینجرز کو دے دیے تھے۔ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کا کہنا ہے کہ ’حب ڈیم ایک سال پہلے سے ڈیڈ لیول پر تھا کیونکہ بارشیں نہیں ہوئی تھیں‘۔ پانی کی وجہ سے فسادات ہونا شروع ہوگئے تھے۔ رینجرز نے شہر کے مختلف مقامات پر بڑے بڑے اسٹوریج ٹینک بنائے جنہیں ٹینکروں سے بھرا گیا۔ وہاں سے رہائشی اپنی گھریلو ضروریات کے لیے مفت پانی حاصل کرسکتے تھے۔
واٹر بورڈ کے ایک سابق ایم ڈی کہتے ہیں کہ ’کسی سیاسی قوت کے اندر اس کام میں مداخلت کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ پانی کی بلاتعطل اور منصفانہ تقسیم ہورہی تھی اور کسی سیاسی رکاوٹ کے بغیر سب کے لیے پانی موجود تھا‘۔ ان کے مطابق 2004ء اور 2008ء کے درمیان پانی کی وافر مقدار تھی ’ٹینکر مالکان نے ان 4 سالوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ روابط استوار کیے۔ شاید اسی طرح رینجرز کو پانی کی کرپشن کا مزہ چکھنے کو ملا ہو‘۔
2008ء میں کراچی کے میئر مصطفیٰ کمال نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے رینجرز کا کردار ختم کردیا کہ ایم کیو ایم کی زیرِ قیادت سٹی گورنمنٹ ٹھیکوں کی بنیاد پر ہائیڈرنٹس چلائے گی۔ اس اعلان کے بعد پانی کے کاروبار کے لیے جنگل کے قانون کا دروازہ کھول دیا گیا۔
ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کہتے ہیں کہ ’کوئی ٹینڈر نہیں ہوئے تھے۔ سیاسی طور پر طاقتور گروہوں نے اپنے زیرِ اثر علاقوں میں ہائیڈرنٹس پر زبردستی قبضہ کرلیا تھا‘۔ اس طرح اے این پی نے بنارس میں ہائیڈرنٹ چلایا، ایم کیو ایم حقیقی نے لانڈھی میں۔ مرکزی شہر ایم کیو ایم اور اس کے سرغنہ کو گیا۔ نیپا، شاہ فیصل کالونی اور گارڈن ایسٹ میں ایم کیو ایم کے زیرِ کنٹرول کم از کم 3 ہائیڈرنٹس 1980ء کی دہائی کے آخری سابق میئر کے فرنٹ مین چلا رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے آتے ہی ایک اور اسٹیک ہولڈر اس گھناؤنے کاروبار میں شامل ہوگیا۔
واٹر بورڈ کا ہائیڈرنٹس پر کوئی کنٹرول نہیں تھا اور ان سے عملی طور پر کوئی آمدنی حاصل نہیں کی جاسکتی تھی۔ 2011ء سے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی اس ریکیٹ میں سرگرم ہوگئی۔ اطلاعات کے مطابق ہائیڈرنٹ مافیا کے سب سے بڑے کھلاڑیوں میں سے ایک، مشتاق مہمند عرف مشتاق واٹر ٹینکر والا، 2013ء میں فائرنگ کے تبادلے میں 4 دیگر افراد کے ساتھ مارا گیا۔ اس نے مبیّنہ طور پر ٹی ٹی پی کے کچھ دھڑوں کو تحفظ کی رقم ادا نہیں کی تھی۔
اس طرح ایک بنیادی شہری ضرورت خونی کاروبار میں تبدیل ہوگئی جس میں ان لوگوں کو پانی مہیا کرنے کے لیے وافر مقدار میں پانی موجود تھا جو ادائیگی کرنے کے لیے تیار تھے لیکن ان لاکھوں لوگوں کے نلکے اکثر خشک رہتے تھے جن کے ماہانہ بجٹ میں کوئی اضافی رقم نہیں ہوتی تھی۔
بااثر مقامی افراد اور واٹر بورڈ کے لائن مین
ٹینکر مافیا کو یکطرفہ انداز میں نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ یہ ایک بہت بڑے مسئلے کی علامت ہے اور وہ مسئلہ ہے ریاست اور شہریوں کے درمیان معاہدے کا ٹوٹ جانا۔ واٹر بورڈ کا پائپ لائنوں کے ذریعے گھروں تک پانی ترسیل کا نظام شدید بدنظمی کا شکار ہے۔ حالانکہ پائپ لائنوں کا نیٹ ورک کے ڈی اے کے دائرہ اختیار میں آنے والے زیادہ تر رہائشی و تجارتی علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔
گلشن اقبال کے بلاک 6 میں یونیورسٹی کی لیکچرار محترمہ خان کو 5 سال تک پانی کی کمی سے پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس دوران ان کی گلی کی لائنوں میں عملی طور پر پانی نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ انہیں نیپا ہائیڈرنٹ سے پانی خریدنا پڑتا جو 10 منٹ کے پیدل فاصلے پر واقع ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم نے واٹر بورڈ سے شکایت کی تو ہمیں بتایا گیا کہ بلک سپلائی میں کمی ہے حالانکہ ہم اپنے گھروں سے ہی ہائیڈرنٹ پر قطار میں لگے ٹینکروں کو بھرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن واٹر بورڈ کا ہر ایک فرد جس سے میں نے بات کی یہی کہتا ہے کہ ’بس ہائیڈرنٹ کا ذکر نہ کریں‘۔
اس سال حالات قدرے بہتر ہوئے جب محلے کی خواتین نے واٹر بورڈ میں ہنگامہ کھڑا کیا اور اپنے محلے کی پائپ لائن کو بھی اپنے خرچ پر صاف کروایا۔کراچی بھر سے پانی سے متعلق جمع کی جانے والی معلومات میں یہ امر یکساں تھا کہ پانی کے حصول کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اجتماعی اقدامات اور مقامی ’بااثر‘ افراد کا کردار کچھ فرق ڈالتا دکھائی دیتا ہے۔
بلدیہ کے علاقے میں 2 کم آمدنی والے علاقوں کے درمیان موازنہ اس نکتے کو واضح کرتا ہے۔ حامد محمود ایک مقامی کمپنی میں ڈرائیور ہیں۔ وہ اتحاد ٹاؤن میں رہتے ہیں جہاں کی آبادی زیادہ تر پختون اور پنجابی ہے۔ ان کے مطابق ’ہمیں ہفتے میں ایک بار ایک گھنٹے کے لیے باقاعدگی سے لائن میں پانی ملتا ہے‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈمپر کے مالکان خیر زمان اور نوال خان یہاں رہتے ہیں۔ ان کے پاس کلاشنکوفیں ہیں اور ہر کوئی ان سے ڈرتا ہے۔ جب پانی آنے والا ہوتا ہے تو کھمبوں کو بجا کر سگنل دیا جاتا ہے کہ لوگ پانی ذخیرہ کرلیں۔
عبدالستار بلدیہ کے ایک اور حصے میں رہتے ہیں جہاں کے رہائشی زیادہ تر میمن، کاٹھیاواڑی اور کچھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بہت منقسم کمیونٹی ہے اور لوگ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ معلومات کا اشتراک نہیں کرتے ہیں۔ پائپ لائن میں پانی ایک گھنٹے کے لیے مہینے میں ایک بار آتا ہے، کبھی کبھی 2 بار بھی۔ لیکن ہمیں اس بات کا تب پتا چلتا ہے جب مقامی پمپنگ اسٹیشن پر کسی نے وال مین کو پیسے دیے ہوں‘۔
کلفٹن میں ضیاالدین اسپتال کے قریب، محمود گٹکا والا کے نام سے جانے جانے والے شخص نے کے ڈبلیو ایس بی میں رابطوں کے ذریعے نیٹی جیٹی کے قریب پورٹ گرینڈ سے 6 انچ کی پائپ لائن ڈلوائی ہے جو سمندر کے چھوٹے سے حصے سے ہوتے ہوئے ڈاکس کی قریب آبادی تک جاتی ہے۔ یہاں ایک ایک موٹر نصب ہے جو بجلی کے غیر قانونی کنکشن یا کنڈے اور بعض اوقات ڈیزل جنریٹر کے ذریعے چلتی ہے۔ یہ پانی کی لائن علاقے کے ڈسٹریبیوشن نیٹ ورک سے جوڑتی ہے۔ اس نظام کو چلانے والوں نے ڈان کو بتایا کہ ہر گھر سے ماہانہ 300 روپے وصول کیے جاتے ہیں جس میں 3 لائن مینوں کی تنخواہ بھی شامل ہیں۔
کورنگی نمبر 3 کے رہائشی پرویز خان کے پاس سکشن پمپ استعمال کیے بغیر بھی لائن میں 24 گھنٹے پانی آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی محلے کے ہر گھر سے ماہانہ 500 روپے جمع کرنے آتا ہے۔ اس ادائیگی کے لیے جو پرنٹ شدہ رسید ملتی ہے وہ واٹر بورڈ کی نہیں بلکہ محلہ کمیٹی کے ذریعے جاری کی جاتی ہے۔ پرچی کے نیچے کے ڈبلیو ایس بی کے ایک لائن مین کا موبائل نمبر پرنٹ کیا گیا ہے۔
اسی وجہ سے واٹر بورڈ حکام شکایت کرتے ہیں کہ کچی آبادیوں سے بلوں کی 20 فیصد سے زیادہ وصولی نہیں ہوتی جبکہ بہت سی جگہوں پر بڑی تعداد میں رہائشی پانی کے واجبات ادا کر رہے ہیں لیکن کے ڈبلیو ایس بی کے بل نہیں دے رہے۔ اگر کے ڈبلیو ایس بی کے نچلے عملے جیسے کہ لائن مین کے پاس اس طرح کے مقامی ’انتظامات‘ ہیں تو سوچیں واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران طاقتور اور بااثر صارفین کو کیا فائدہ دیتے ہوں گے۔
کراچی سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر، ڈملوٹٰ-کے 2 انٹرچینج سے ملحقہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے خصوصی طور پر 12 انچ کے 2 کنکشن کے ذریعے ایک پمپنگ اسٹیشن بنایا گیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ان 6 کنکشنوں میں سے ایک ہے جو واٹر بورڈ نے بغیر کسی ضابطے کے کراچی کے رہائشیوں کی قیمت پر بحریہ ٹاؤن کو دیے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت کے ایم ڈی کے ڈبلیو ایس بی نے اپنے سیاسی باس کے حکم پر اعلیٰ حکام کو اپنے دفتر میں بلایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ طے شدہ عمل کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے بحریہ ٹاون کے کنکشن پر دستخط کردیں۔
اس حوالے سے واٹر بورڈ نے اپنے خود کے کنکشن بورڈ سے اس کی منظوری نہیں لی اور اسے مطلع کرنا ابھی باقی ہے۔ بحریہ ٹاون کو فراہم کی جانے والی خدمات پر سابقہ ایم ڈی کو ریٹائرمنٹ کے بعد بحریہ ٹاؤن میں بطور کنسلٹنٹ تعینات کردیا گیا ہے۔
19ویں صدی کے اواخر میں انگریزوں کی طرف سے تعمیر کیے گئے ڈملوٹی کنوؤں کی تعداد 10 کے قریب تھی۔ اب ان میں سے صرف ایک استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ یہ صرف یومیہ 1.4 ملین گیلن سے زیادہ پانی فراہم نہیں کرپاتا۔ دیگر کنویں ندی کا حصہ بن گئے ہیں یا زیرِ زمین پانی کی سطح گرنے کی وجہ سے سوکھ چکے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کو دیا جانے والا پانی کے 2 بلک سپلائی سے آتا ہے۔
ضلع ملیر کے علاقہ میمن گوٹھ میں کراچی کی اشرافیہ کے کئی افراد کے فارم ہاؤس ہیں۔ ان میں پی ٹی آئی کے ایک سیاستدان بھی ہیں جن کا 350 ایکڑ کا فارم ہے۔ اس میں سوئمنگ پول، کاٹیجز اور فنکشن ہال شامل ہیں۔ یہ فارم ہاؤس عوام کو کرائے پر دیا جاتا ہے۔ فارم کے مالک کا وہاں اپنا ولا اور اپنا سوئمنگ پول بھی ہے۔
مینیجر نے بتایا کہ اس سہولت کے لیے پانی بور ویل کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر تھے کہ زیرِ زمین پانی کا بور کہاں واقع ہے۔ تاہم، پرائیویٹ ولا کے ایک ملازم نے کہا کہ سوئمنگ پول میں پانی ’کے ڈی اے کا ہے‘۔ کے ڈبلیو ایس بی کی بلک لائن بھی اس علاقے کے بہت قریب سے گزرتی ہے
کراچی کو فراہم کیے جانے والے پانی کا کافی حصہ شہر کے مضافات تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ شہر سے 120 کلومیٹر دُور کینجھر جھیل سے نکلنے والی 29 کلومیٹر گجو نہر کے ایک طرف سندھی جاگیرداروں کی زمینوں پر بڑے بڑے فش فارمز بنے ہیں۔ ان جاگیرداروں میں ٹھٹھہ کا سیاسی طور پر بااثر شیرازی خاندان بھی شامل ہے۔ کینجھر جھیل کے قریب کام کرنے والے ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’اس علاقے میں ایس ایچ اوز اور ایس پیز اِن کے کہنے پر تعینات کیے جاتے ہیں۔ انہیں کون روکے گا؟‘
اس نے یہ بھی کہا کہ ڈیزل سے چلنے والے پمپ رات کے وقت مچھلی کے فارموں میں نہر سے پانی کھینچنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ’آپ کو پائپ اب بھی وہاں پڑے ہوئے مل سکتے ہیں‘۔ وہاں واقعی کافی ثبوت موجود تھے۔ ڈان کے جی آئی ایس یونٹ کے بنائے نقشوں سے پتا چلتا ہے کہ فش فارمز ، جنہیں میٹھے پانی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کینجھر-گجو نہر کے دائیں کنارے پر 350 ایکڑ اور بائیں کنارے پر 305 ایکڑ کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
جس دن ڈان کی ٹیم گجو سائٹ پر گئی اس دن وہاں پانی کی سطح 8 فٹ ایک انچ تھی، اس نہر میں پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح 9 فٹ 4 انچ ہوسکتی ہے۔ واٹر بورڈ کے ایک ملازم محمد سلطان، جس کا کام نہر کے کنارے درختوں اور جھاڑیوں کو تراشنا ہے تاکہ یہ پانی میں نہ گرے، کہتے ہیں کہ ’جب 35 سال پہلے میں نے واٹر بورڈ میں ملازمت اختیار کی تھی تب اس نہر میں 9 فٹ تک پانی چھوڑتے دیکھا تھا۔ پانی بہت ہے، لیکن آگے کا انفراسٹرکچر اسے سنبھال نہیں سکتا۔ پائپ لائنیں پھٹ جائیں گی‘۔
کراچی کو فراہمیِ آب کے نظام کے دوسرے سرے پر، ضلع غربی میں حب ڈیم اور کے 3 سے پانی کے لیے حب پمپنگ اسٹیشن موجود ہے۔ اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینیئر حب پمپنگ اسٹیشن، فہد صدیقی نے بتایا کہ ’واپڈا حب کینال کے پہلے 5 کلومیٹر کا محافظ ہے، جس کے بعد ’زیرو پوائنٹ‘ پر پانی کو لے جانے والی نہر ایک شاخ کے ساتھ سندھ میں آتی ہے جو کے ڈبلیو ایس بی کی ذمہ داری ہے۔ اگر واپڈا اجازت دے تو ہمارے پاس یومیہ 200 ملین گیلن پانی پمپ کرنے کی صلاحیت ہے، لیکن حب سے کراچی کا کوٹہ صرف یومیہ 100 ملین گیلن کا ہے‘۔
دوسری جانب ایم ڈی واٹر بورڈ احمد صاحب نے ڈان کو بتایا کہ وہ ادارے میں آنے والی تبدیلیوں کی نگرانی کررہے جن میں ڈیجیٹائزڈ سسٹمز اور بہتر طریقہ کار کے ساتھ ادارے کو چلانا شامل ہے۔ اس طرح زمینی صورتحال کو آسانی سے ٹریک کیا جاسکے اور اس سے بدعنوانی میں کمی ہوگی۔
تاہم، واٹر بورڈ میں بہتری لانے کے لیے ورلڈ بینک کی جانب سے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کا منصوبہ جلد شروع ہونے والا ہے۔ احمد صاحب کا خیال ہے کہ ’پورے انفراسٹرکچر کو از سرِ نو بنانا ممکن نہیں ہے۔ اس کام کی وسعت کو دیکھیں۔ یہاں تک کہ 10 ارب ڈالر بھی کافی نہیں ہوں گے۔ اس سے صرف مختلف مقامات پر موجود خلا کو پُر کیا جاسکتا ہے‘۔
سندھ میں پانی اور صفائی سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کمیشن نے ان شعبوں میں خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے 100 سفارشات پیش کی تھیں۔ شہاب استو ہی وہ وکیل تھے جن کی درخواست پر یہ کارروائی شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ 100 میں سے صرف ایک شفارش پر کام ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد نے مجھے سماعت کا موقع دیے بغیر چند منٹوں میں کمیشن کو تحلیل کردیا۔ کمیشن کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قائم رہنا چاہیے تھا کہ اس کی تمام سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے‘۔ وہ ایک اور پٹیشن دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ان اقدامات پر کام دوبارہ شروع کیا جاسکے۔
اس دوران پاکستان کا سب سے بڑا شہر غاصبوں کے ہاتھوں یرغمال بنا رہے گا کیونکہ اس مافیا کے لیے پانی کی قلت کے باعث شہریوں کو درپیش مشکلات بے حساب دولت کمانے کا ذریعہ ہے۔
بشکریہ: ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)