امریکی فوج نے ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری کو گوانتانامو بے کی جیل سے رہا کر دیا ہے
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی فوج نے کہا ہے کہ اس نے ایک پاکستانی جسے سی آئی اے نے تشدد کا نشانہ بنایا اور القاعدہ کی مدد کرنے کا اعتراف کرنے کے بعد اسے سولہ برس تک گوانتانامو بے جیل میں رکھا گیا، کو رہا کر دیا ہے
2003 میں امریکی حکام نے ماجد خان کو گرفتار کیا تھا اور گوانتانامو بے میں بھیجنے سے قبل ان سے تین سال تک امریکی انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے پوچھ گچھ کی تھی
ماجد خان نے 2012 میں پاکستان کے صدر کے قتل کی سازش میں شامل ہونے اور انڈونیشیا کے ہوٹل پر بم حملے کی منصوبہ بندی کے لیے مَنی کوریئر کے طور پر کام کرنے کا اعتراف کیا تھا
لیکن 11 ستمبر2001 میں امریکہ پر حملوں کے نتیجے میں پکڑے گئے اہم قیدیوں میں سے ایک کے طور پر بیالیس برس کے ماجد خان کو صرف دو برس قبل سزا سنائی گئی تھی
ان کو چھبیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن تعاون کے معاہدے کی بنیاد پر ان کو 2022 میں رہا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا
اپنی سزا کے کیس کی سماعت کے دوران ماجد خان وہ پہلے اہم قیدی ہیں، جنہوں نے امریکی فوجی عدالت میں یہ بیان دیا کہ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کو کئی دنوں تک بغیر خوراک اور کپڑوں کے رکھا گیا اور سی آئی اے کے تفتیش کاروں نے ان کو کئی مرتبہ مارا پیٹا اور ریپ بھی کیا
ماجد خان نے کہا کہ انہوں نے شروع ہی میں اپنے کیے کا اعتراف کا کیا تھا، تاہم کئی برسوں تک ان کو بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا ’جتنا میں ان کے ساتھ تعاون کرتا اور معلومات دیتا تو مجھے اتنا زیادہ ہی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔‘
پینٹاگون نے کہا ہے کہ ماجد خان نے اپنے تعاون کے معاہدے کا احترام کیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی سزا میں کمی کی گئی ہے اور کیریبئن اور وسطی امریکی ملک بیلیز نے ان کو قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے
ماجد خان کے وکلا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کو زندگی نے ایک اور موقع دیا ہے اور ان کو اپنے کیے پر سخت افسوس ہے
ماجد خان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ان کاموں پر افسوس ہے جو میں نے کئی سال پہلے کیے تھے اور میں نے کوشش کی ہے کہ میں ان کا ازالہ کر سکوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’20 سال میں دنیا بہت بدل چکی ہے، لیکن میں بھی بدل چکا ہوں۔‘
ماجد خان نے کہا کہ وہ بیلیز میں ایک ریستوران کھولیں گے یا فوڈ ٹرک کا کام شروع کریں گے ’میں ایک زبردست خانساماں ہوں اور اپنے نئے ملک میں پاکستانی کھانوں کو متعارف کرواؤں گا۔‘
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق ماجد خان بیلیز میں ہی مستقل طور پر سکونت اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی اہلیہ اور نوجوان بیٹی، جو ان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہوئیں تھیں، بھی اسی ملک میں ان سے مل جائیں گے
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ماجد خان کی ایک دوسرے ملک میں رہائی کسی امریکی شرط کا نتیجہ ہے یا نہیں
نیو یارک ٹائمر کے مطابق بیلیز کے وزیر خارجہ نے ایک بیان میں ماجد خان کو اپنے ملک میں رہائش کی اجازت دینے کے فیصلے پر کہا کہ اگرچہ انہوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیا ’لیکن ان پر تشدد ہوا اور اب وہ انتہا پسندی کو خیر آباد کہہ چکے ہیں، انھوں نے امریکی حکام سے تعاون کیا ہے اور اپنی سزا مکمل کی۔‘
واضح رہے کہ میکسیکو کے جنوب میں واقع بیلیز تقریبا چار لاکھ نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے جہاں انگریزی زبان بولی جاتی ہے
◼️ماجد خان کون ہیں؟
سعودی عرب میں پیدا ہونے والے ماجد خان کا بچپن پاکستان میں گزرا تھا اور پھر 16 برس کی عمر میں وہ امریکہ چلے گئے۔
انھوں نے امریکی ریاست بالٹیمور میں تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کے پیٹرول پمپ پر کام کیا۔ پھر سنہ 2002 میں وہ پاکستان واپس آ گئے جہاں ان کا القاعدہ سے تعارف ہوا۔
استغاثہ کے مطابق ماجد خان نے پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھیں اور اس سلسلے میں شدت پسند تنظیم جامعہ اسلامیہ کو رقم بھی فراہم کی تھی۔
ماجد خان پر الزام تھا کہ وہ اس تنظیم کو پچاس ہزار ڈالر دینے کے لیے بینکاک بھی گئے اور مبینہ طور پر یہی رقم اگست 2003 میں جکارتہ میں میریٹ ہوٹل پر حملے کے لیے استعمال ہوئی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ جب پاکستان گئے تو ان کے خاندان والوں نے اُن کو خالد شیخ محمد سے متعارف کروایا۔
ان کو پہلی بار مارچ 2003 میں اس وقت حراست میں لیا گیا جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے کراچی میں اُن کے مکان پر چھاپہ مارا۔
پاکستان نے ان کو سی آئی اے کے حوالے کر دیا۔ ان کو پہلے بیرونِ ملک خفیہ حراست خانے میں رکھا گیا اور سنہ 2006 میں گوانتانامو بے قید خانے منتقل کیا گیا۔
ماجد خان نے سنہ 2007 میں فوجی ٹریبونل کو بتایا تھا کہ ان کو نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھوں نے دو بار خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی
ماجد کے مطابق جب انھیں القاعدہ کے لیے کام کرنے پر اکسایا گیا تو وہ ایک ناسمجھ نوجوان تھے۔ ماجد کے مطابق اب وہ القاعدہ اور دہشت گردی، دونوں کو رد کر چکے ہیں۔
ان کے وکیل کے مطابق ماجد نے شروع سے ہی امریکی انٹیلیجنس حکام کو معلومات فراہم کیں تاہم انھیں حراست کے دوران ’سنگین اور بدترین تشدد‘ کا نشانہ بنایا گیا۔
ماجد نے گوانٹانامو بے میں لگنے والی عدالت کے سامنے 39 صفحات پر مبنی بیان پڑھا جس میں انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ کیسے انھیں برہنہ کر کے اور ان کے سر پر کپڑا ڈال کر ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا گیا۔ ان کے مطابق انھیں کئی بار سونے نہیں دیا جاتا، زبردستی کھلایا جاتا اور زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا
ان کی جانب سے دی جانے والی گواہی 11 ستمبر کے حملوں کے بعد سی آئی اے کے بیرون ملک قائم حراستی مراکز میں رکھے جانے والے کسی بھی قیدی کی جانب سے پہلا انکشاف ہے
انھوں نے عدالت کو بتایا: ’میں جتنا زیادہ تعاون کرتا مجھے اتنا ہی زیادہ ٹارچر کیا جاتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ایک وقت آیا کہ انھوں نے پوچھ گچھ کرنے والوں کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔
ماجد کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات سنہ 2014 میں ریلیز ہونے والی ایک رپورٹ سے ملتے جلتے ہیں جس میں سی آئی اے کے ’انٹیروگیشن‘ یا پوچھ گچھ کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
سنہ 2013 میں امریکی حکومت کے ساتھ کیے ایک معاہدے کے تحت ماجد کے اعتراف پر ان کی سزا کم کر دی گئی اور انھیں 26 سال قید کی سزا سُنائی گئی۔
لیکن ان کو سزا سنانے والی عدالت کی جیوری میں شامل آٹھ میں سے سات سینیئر فوجی افسران کی جانب سے لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں ماجد خان کے ساتھ رعایتی سلوک کی سفارش کی گئی۔
اس خط میں لکھا گیا کہ ماجد خان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے ’امریکی مفادات کو انٹیلیجنس کے حصول یا کسی اور طرح کوئی عملی فائدہ نہیں ہوا۔‘
خط کے مطابق: ’اس کے برعکس، امریکی اہلکاروں کے ہاتھوں ماجد خان کے ساتھ ہونے والا سلوک امریکہ کی اخلاقی ساکھ پر ایک دھبہ ہے جس سے امریکی حکومت کو شرمندگی ہونی چاہیے۔‘
گونتانامو بے میں اب کتنے قیدی باقی ہیں؟
اُدھر امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ گوانتاناموبے میں قیدیوں کی تعداد میں ذمہ دارانہ طریقے سے کمی کی جا رہی ہے، جسے آخرکار بند کر دیا جائے گا
حکام کا کہنا ہے کہ اب تک تقریبا 34 قیدی اس جیل میں قید ہیں، جن میں سے 20 کو ٹرانسفر کرنے کی اجازت مل چکی ہے جبکہ دو ایسے قیدی ہیں جن جو فوجی کمیشن سزا سنا چکے ہیں اور تین قیدیوں کی رہائی کا جائزہ لیا جانا باقی ہے
یاد رہے کہ امریکی قانون کے مطابق گوانتانامو بے سے رہا ہونے والے قیدیوں کو امریکہ میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ امریکی حکومت کو ان کے لیے کسی تیسرے ملک کی تلاش ہے چاہے وہ ان کا آبائی ملک ہو یا کوئی اور ملک۔