کل پھیکے کمیار کے گھر کے سامنے ایک نئی چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔۔
سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔۔۔!
جانے کون ملنے آیا تھا۔۔۔؟
میں جانتا تھا پھیکا پہلی فرصت میں آ کر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔۔ وہی ہُوا، شام کو بیٹھک میں آ کر بیٹھا ہی تھا کہ پھیکا چلا آیا۔۔ حال چال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔۔ ”صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ہے۔۔ آپ کو یاد ہے، ماسی نوراں ہوتی تھی جو پٹھی پر دانے بھونا کرتی تھی۔۔ جس کا اِکو اِک پُتر تھا وقار۔۔“
میں نے کہا ”ہاں یار، میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ہوں۔“
”اللہ آپ کا بھلا کرے صاحب جی۔۔ وقار اور میں پنجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ اسکول میں اکثر وقار کے ٹِڈھ میں پیڑ رہتی تھی۔۔ صاحب جی اک نُکرے لگا روتا رہتا تھا۔۔ ماسٹر جی ڈانٹ کر گھر بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھا اور دوائی لے۔ اک دن میں آدھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔۔ میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا اور اچار کھولا۔۔ صاحب جی! آج وی جب کبھی بہت بھوک لگتی ہے نا، تو سب سے پہلے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا ہی یاد آتا ہے۔ اور سارے پنڈ میں اُس پراٹھے کی خوشبو بھر جاتی ہے۔ پتہ نئیں صاحب جی، اماں کے ہاتھ میں کیا جادو تھا۔
صاحب جی وقار نے پراٹھے کی طرف دیکھا اور نظر پھیر لی! اُس ایک نظر نے اُس کی ٹِڈھ پیڑ کے سارے راز کھول دیئے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کی آنکھوں میں آندروں کو بھوک سے بلکتے دیکھا۔۔ صاحب جی وقار کی فاقوں سے لُوستی آندریں۔۔ آنسوؤں کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھیں، جیسے کہتی ہوں ’اک اتھرو بھی گرا تو بھرم ٹوٹ جائے گا۔۔۔‘ وقار کا بھرم ٹوٹنے سے پہلے میں نے اُس کی منتیں کر کے اُسے کھانے میں شریک کر لیا۔ پہلی بُرکی ٹِڈھ میں جاتے ہی وقار کی تڑپتی آندروں نے آنکھوں کے ذریعہ شکریہ بھیج دیا۔۔ میں نے چُپکے سے ہاتھ روک لیا اور وقار کو باتوں میں لگاظے رکھا۔۔ اس نے پورا پراٹھا کھا لیا۔۔۔ اور پھر اکثر ایسا ہونے لگا۔ میں کسی نہ کسی بہانے وقار کو کھانے میں شریک کرنے لگا۔ وقار کی بھوکی آندروں کے ساتھ میرے پراٹھے کی پکی یاری ہو گئی۔۔ اور میری وقار کے ساتھ۔ خورے کس کی یاری زیادہ پکی تھی۔۔؟ میں اسکول سے گھر آتے ہی بھوک بھوک کی کھپ مچا دیتا۔۔۔! ایک دن اماں نے پوچھ ہی لیا۔ ’پُتر تجھے ساتھ پراٹھا بنا کر دیتی ہوں کھاتا بھی ہے کہ نہیں! اتنی بھوک کیوں لگ جاتی ہے۔؟ میرے ہتھ پیر پھول جاتے ہیں۔ آتے ساتھ بُھوک بُھوک کی کھپ مچا دیتا ہے۔۔۔! جیسے صدیوں کا بھوکا ہو!‘
میں کہاں کُچھ بتانے والا تھا صاحب جی۔۔ پر اماں نے اُگلوا کر ہی دم لیا۔ ساری بات بتائی، اماں تو سن کر بلک پڑی اور کہنے لگی۔ ’کل سے دو پراٹھے بنا دیا کروں گی۔‘ میں نے کہا ’اماں پراٹھے دو ہوئے تو وقار کا بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔۔ میں تو گھر آکر کھا ہی لیتا ہوں۔‘ صاحب جی اُس دن سے اماں نے پراٹھے کے ول بڑھا دیئے اور مکھن کی مقدار بھی۔ کہنے لگی ’وہ بھی میرے جیسی ماں کا پتر ہے۔ مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے۔ مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔؟“
میں سوچ میں پڑ گیا۔۔۔! پانچویں جماعت میں پڑھنے والے پھیکے کو بھرم رکھنے کا پتہ تھا۔ بھرم جو ذات کا مان ہوتا ہے۔ اگر ایک بار بھرم ٹوٹ جائے تو بندہ بھی ٹوٹ جاتا ہے! ساری زندگی اپنی ہی کرچیاں اکٹھی کرنے میں گزر جاتی ہے۔۔ اور بندہ پھر کبھی نہیں جُڑ پاتا۔۔۔ پھیکے کو پانچویں جماعت سے ہی بھرم رکھنے آتے تھے۔۔ اِس سے آگے تو وہ پڑھ ہی نہیں سکا تھا! اور میں پڑھا لکھا اعلیٰ تعلیم یافتہ۔۔۔! مجھے کسی اسکول نے بھرم رکھنا سکھایا ہی نہیں تھا!!
”صاحب جی، اس کے بعد امّاں بہانے بہانے سے وقار کے کار جانے لگی۔ ’دیکھ نوراں ساگ بنایا ہے چکھ کر بتا کیسا بنا ہے‘ وقار کی اماں کو پتہ بھی نہ چلتا اور اُن کا ایک ڈنگ ٹپ جاتا۔ صاحب جی وقار کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔۔ پھر اماں نے مامے سے کہہ کر ماسی نوراں کو شہر میں کسی کے گھر کام پر لگوا دیا۔۔ تنخواہ وقار کی پڑھائی اور دو وقت کی روٹی طے ہوئی۔ اماں کی زندگی تک ماسی نوراں سے رابطہ رہا۔۔۔! اماں کے جانے کے چند ماہ بعد ہی ماسی بھی گزر گئی۔ اُس کے بعد رابطہ ہی کٹ گیا۔
کل وقار آیا تھا۔۔۔! ولایت میں رہتا ہے ج،ی واپس آتے ہی ملنے چلا آیا۔ پڑھ لکھ کر بہت بڑا افسر بن گیا ہے، مجھے لینے آیا ہے صاحب جی، کہتا تیرے سارے کاغذات ریڈی کر کے پاسپورٹ بنوا کر تجھے ساتھ لینے آیا ہوں۔۔۔ اور ادھر میری اماں کے نام پر لنگر کھولنا چاہتا ہے۔۔۔ صاحب جی میں نے حیران ہو کر وقار سے پوچھا۔ ’یار لوگ اسکول بنواتے ہیں، ہسپتال بنواتے ہیں، تُو لنگر ہی کیوں کھولنا چاہتا ہے اور وہ بھی امّاں کے نام پر۔؟‘ کہنے لگا۔۔۔ ’پھیکے بھوک بہت ظالم چیز ہے۔۔ چور ڈاکو بنا دیا کرتی ہے۔ خالی پیٹ پڑھائی نہیں ہوتی۔ ٹِڈھ پیڑ سے جان نکلتی ہے۔۔تیرے سے زیادہ اس بات کو کون جانتا ہے پھیکے۔ سارے آنکھیں پڑھنے والے نہیں ہوتے۔۔ اور نہ ہی تیرے ورگے بھرم رکھنے والے۔‘ پھر کہنے لگا۔ ’یار پھیکے تجھے آج ایک بات بتاؤں۔۔۔! جھلیا میں سب جانتا ہوں۔۔۔ چند دنوں کے بعد جب پراٹھے کے بل بڑھ گئے تھے۔۔۔ اور مکھن بھی۔۔ آدھا پراٹھا کھا کر ہی میرا پیٹ بھر جایا کرتا۔ اماں کو ہم دونوں میں سے کسی کا بھی بھوکا رہنا منظور نہیں تھا پھیکے۔۔۔‘ وقار پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ اماں یہاں بھی بازی لے گئی صاحب جی۔۔۔۔“
اور میں بھی اس سوچ میں ڈُوب گیا کہ لُوستی آندروں اور پراٹھے کی یاری زیادہ پکی تھی یا پھیکے اور وقار کی۔۔ بھرم کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کبھی ٹوٹا نہیں کرتے۔۔۔
پھیکا کہہ رہا تھا ”مُجھے امّاں کی وہ بات آج بھی یاد ہے صاحب جی۔۔۔اس نے کہا تھا۔۔ ’مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے۔۔ مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔‘ اُس کے ہاتھ تیزی سے پراٹھے کو ول دے رہے تھے۔۔ دو روٹیوں جتنا ایک پیڑا لیا تھا امّاں نے صاحب جی۔۔ میں پاس ہی تو چونکی پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔ روٹی بیلتے بیلتے نماز کا سبق پڑھاتی۔۔ میرے ساتھ نکیاں نکیاں گلاں کرتی۔۔ آج بھی ویہڑے میں پھرتی نظر آتی ہے۔۔۔!“ پھیکا ماں کو یاد کر کے رو رہا تھا۔۔۔
”سورج کی پہلی کرن جیسا روشن چہرہ تھا اماں کا صاحب جی۔“ باتیں کرتے کرتے پھیکا میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اُس پل میں لے گیا اور ایک دم میرے سامنے کسی پُرانْی فلم کی طرح سارا منظر بلیک اینڈ وائٹ ہو گیا۔۔۔! زندگی کے کینوس پر صرف ایک ہی رنگ بکھرا تھا، مامتا کا رنگ۔۔۔
سچ ہے ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے۔ آج ملک کے حالات کرپشن اور مسائل کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا۔ کاش سب مائیں پھیکے کی اماں جیسی ہو جائیں۔۔
میں ہر بار پھیکے سے ملنے کے بعد وطن کی بند کھڑکیوں سے چھن چھن کر آتی سنہری روشنی کو دیکھتا ہوں۔۔۔! روشنی جو راستہ تلاش کر ہی لیتی ہے۔۔۔