سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط50)

شہزاد احمد حمید

سندھو پھر سے سرگوشی کرنے لگا ہے؛ ”اونٹ یہاں کی اہم سواری ہے۔ اس کی پیٹھ پر بوروں میں کپاس لاد کر لائی لے جائی جاتی ہے یا پھر اونٹ گاڑی کھینچ رہے ہوتے ہیں یا ساربان کے پیچھے قطار میں چلتے قدیم زمانے کی عکاسی کر تے ہیں۔ ان کے گلے میں بندھے ٹل کی آواز دور سے صاف سنائی دیتی ہے۔ بیل بھی گڈے کھینچ رہے ہوتے ہیں اور اکثر ان پر چارہ یا سبزی لدی ہوتی ہے۔ گاڑی بان کے علاوہ گھر کے دوسرے فرد بھی سوار ہوتے ہیں۔ کالے کوے، خاکستری چیلیں اور سبز طوطے اڑتے اور آوازیں لگاتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ گرمی کی دوپہر میں جیسے کائنات سائے یا درختوں کی پناہ میں پہنچ جاتی ہے۔ ہر طرف سناٹا چھا جاتا ہے تو شام کو درجہ حرارت کم ہوتے ہی زندگی پھر سے اپنی ڈگر پہ چلنے لگتی ہے۔ توانائی لوٹ آتی ہے اور انسان دن بھر کا باقی کام ختم کرنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ خواتین کنویں سے پانی بھر کر گھروں کو چل پڑتی ہیں۔ آزاد چھوڑے ہوئے اونٹ، بیل، خچر، گدھے واپس آ کر چارے کی کھرلیوں کو منہ مار رہے ہوتے ہیں۔ سندھو کنارے پانی میں موج مستی جگالی کرتی کالی بھینسیں گھر کی راہ لیتی دکھائی دیتی ہیں۔ بکریوں کے ریوڑ بھی کہیں درختوں یا جھاڑیوں کو منہ مارتے نظر آتے ہیں۔ پھر پنجابی بکری کی تو شان ہی نرالی ہے۔ یہ اچھلتی کودتی شراتیں کرتی چرواہے کے پیچھے شام سے پہلے اپنی پناہ گاہ کی راہ لئے ہوتی ہے۔“

”کالا باغ کے قریب میں (سندھو) سطح سمندر سے تقریباً 700 فٹ بلند ہوں اور یہاں سے سمندر تک سفر لگ بھگ نو سو (900) میل ہے۔ تم اس فاصلے اور اونچائی سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہو کہ فی میل ڈھلوان کیا رہی ہوگی۔ قدرت کا کمال ہے کہ میں ہزاروں فٹ کی بلندی سے بہنا شروع کرتا ہوں اور سمندر میں گرنے تک کس طرح میل در میل اپنی بلندی کم کرتا ہوں۔ سبحان اللہ۔ گرمی کے موسم میں میرے اور پنجند کے باقی دریا اس قدر زور و شور سے بہتے ہیں کہ اپنے کناروں سے باہر نکل جاتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ میدانوں میں اپنے لئے نئے راستے تلاش کر لیتے ہیں۔ سارے دریا ایسا ہی کرتے رہتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے میدان انہی دریاؤں کی نقل و حرکت اور لائی مٹی سے تشکیل پاتے ہیں، جو بہت عمدہ اور باریک ہے۔“

میانوالی سے گزرتے ہم بھکر کو رواں ہیں۔ یہ سیلابوں کی سر زمین ہے۔ اسی خطے میں آریاؤں کی مقدس کتاب ’وید‘ لکھی گئی۔ اسی سر زمین میں پانڈؤں کے 10 راجاؤں کے درمیاں لڑائی ہوئی۔ اسی سرزمین پر سکندر کے سالار ’اسکولس‘ کو چندر گپت کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست ہوئی۔ میانوالی کے قریب ہی جناح اور چشمہ بیراج ہیں۔کالا باغ سے نیچے سندھو کے دونوں جانب ریت پھیلی ہے۔ یہاں سے پنجند کا علاقہ ’ساگر دوآب‘ کہلاتا ہے۔ فارسی زبان کے لفظ دوآب سے مراد دو دریاؤں کے درمیانی علاقہ۔اکبر اعظم کے نو رتن اور ’اکبر نامہ‘ کے مصنف شیخ ابو الفضل بن مبارک کے مطابق اکبر اعظم نے پنجاب کو ’پانچ دوآب‘ میں تقسیم کیا اور ان کے نام بھی خود تجویز کئے۔ پانچ دو آب یہ ہیں:
سندھ ساگر دوآب (دریائے سندھ اور دریائے جہلم کا درمیانی خطہ)۔
باری دو آب (دریائے بیاس، ستلج اور دریائے راوی کا درمیانی خطہ)
رچنا دوآب (دریائے چناب اور دریائے راوی کا درمیانی خطہ)
چھچھ دوآب (دریائے چناب اور دریائے جہلم کا درمیانی خطہ)
بسط دوآب، یہ دوآب ’دوآبا‘ کہلاتا ہے (دریائے ستلج اور دریائے بیاس کا درمیانی خطہ)

سندھ ساگر دوآب میں نو اضلاع (راولپنڈی، اٹک، جہلم، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، خوشاب اور قائد آباد) تین پہاڑی سلسلے (مرگلہ، کالا چٹا اور مرتی ہلز) سطح مرتفع پوٹھوہار اور کوہ نمک (سالٹ رینج) شامل ہیں۔ سندھ ساگر دوآب پنجاب کا سب سے بڑا دوآب ہے مگر سالٹ رینج اور سطح مرتفع پوٹھورہار کی وجہ سے زراعت کے حوالے سے کمزور خطہ ہے۔ یہاں کی ریت بھورے رنگ کی اور پانی کھارا ہے۔ سندھو یہاں پھیلا بہتا انسانوں، حیوانوں اور زراعت کو زندگی بخشتا ہے۔ کالاباغ سے آگے یہ سیلابی میدان میں بہتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں اس کی وسعت اتنی ہوتی ہے کہ ایک کنارے پر کھڑے انسان کو دوسرا کنارا نظر نہیں آتا اور دیکھنے والا یہ بات سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ سندھو واقعی ہی اپنے ساتھ لگ بھگ دس ہزار (10000) ندیوں، دریاؤں، چشموں، آبشاروں کا پانی لاتا ہے۔

ہم بھکر پہنچے ہیں۔ زیادہ تر صحرائی علاقے پر مشتمل پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں سے ایک ہے۔ ایک زمانے میں یہ شہر سندھو کے کنارے آباد تھا۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا تھا۔ پل باندھنے کے لئے دریا کا رخ بدلا تو سب کچھ بدل گیا ہے۔ زمین خشک ہوگئی لیکن لوگ دریا دل ہی رہے۔ بلا کے مہمان نواز۔ امیر ہو یا غریب دل کھول کر مہمان نوازی کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ اس شہر کا ایک کونہ خیبر پختون خوا سے ملتا ہے تو دوسرا پنجاب میں ہے۔ قدیم دور میں پنجاب اور افغانستان آنے جانے والے قافلے یہاں پڑاؤ کیا کرتے تھے۔بھکر کا صحرائی علاقہ تھل ریگستان کا حصہ ہے البتہ تھل کینال کی مرہون منت ریت کے اس میدان میں اب ہریالی نظر آنے لگی ہے۔

سندھو ہمارے دوست مولوی محمد اشرف (ریٹائرڈ ڈائریکٹر پنجاب لوکل گورنمنٹ اکیڈمی لالہ موسیٰ) کی آبائی تحصیل کلور کوٹ کے قریب سے بہتا ہے۔ ہم اشرف کی میزبانی میں پرتکلف چائے کا لطف اٹھا کر لیہ کو روان ہیں۔ مطلع صاف ہو تو بھکر سے تخت سلیمان کی چوٹی اپنے درشن کرواتی ہے۔

داستان گوکی آواز پھر میرے کانوں سے ٹکرائی ہے، ”میں لیہ شہر کے مغربی کنارے جنوب سے شمال کی جانب بہتا تونسہ بیراج پہنچتا ہوں۔ لیہ کو کمال خاں نامی سردار نے 1550ء میں آباد کیا تھا۔ یہ وہی کمال خاں ہے، جس نے ڈیرہ غازی خاں کا شہر بھی بسایا تھا۔ اس ضلع کی ’تحصیل چوبارہ’ زیادہ تر صحرائی ٹیلوں پر مشتمل تھل ریگستان کا حصہ ہے۔ لیہ سے بیس (20) کلومیٹر مشرقی سمت ایک ہزار تین سو پچیس (1325) میٹر ’تونسہ لیہ پل‘ ہے جبکہ تونسہ شہر یہاں سے سولہ (16) کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔“

یہ تونسہ ہے۔ حضرت محمد شاہ سلیمان تونسوی ؒ المعروفؒ ”پیر پٹھان“ کی درگاہ کا شہر۔ سلسلہ چشتیہ کے یہ درویش لورالائی (بلوچستان) سے تشریف لا ئے اور یہاں آباد ہوئے اور ارد گرد کو اپنے کردار، اسلامی تعلیمات اور بھائی چارے کے پیغام سے بدل کر رکھ دیا۔ تونسہ بیراج یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اس بیراج کی تعمیر 1952ء میں شروع ہوئی اور 1958ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس ڈیم کی تعمیر کا مقصد سندھو کے سیلابی پانی کو کنٹرول کرکے آب پاشی کے لئے پانی مہیا کرنا ہے۔ اس بیراج سے ’تونسہ پنجند لنک کینال‘ سے سندھو کا پانی دریائے چناب میں پہنچایا گیا ہے۔ ڈیرہ غازی خاں اور ارد گرد کے بہت سے تیز رفتار ندی نالے مون سون کے موسم میں میرے دوست سندھو میں اتر کر اس کے جلال اور وبال میں کئی ہزار گنا کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ اس بیراج کے پل کے ساتھ ساتھ بلوچستان سے آتی سوئی گیس اور ٹیلی فون کی مرکزی لائنز بھی گزرتی ہیں۔

”کیا تم جانتے ہو؟“ سندھو نے پوچھا۔ میں کچھ بھی نہ بولا۔ سندھو میرا جواب سنے بغیر بولنے لگا ہے۔ یہ اس کی عادت ہے کہ جواب سنے بغیر ہی بولنے لگتا ہے۔ کہنے لگا، ”یہ بڑے جاگیر داروں، سرداروں اور تمن داروں کا خطہ ہے۔لغاری، دریشک، مزاری، کھوسہ، قیصرانی، بزدار، میرانی وغیرہ۔ گو نام کے لحاظ سے یہ علیحدہ علیحدہ قبائل ہیں مگر مفادات، خصوصیات اور کردار ایک سے ہی ہیں۔ مزاج کے سخت گیر، غصے کے تیز اور ظالم۔ غلطی پر کم کم ہی معاف کرتے ہیں۔ ان کی سرداری میں آباد لوگ ان کے غلام ہیں۔ ان کی رعایا ہیں۔ ان کا مذہب سردار سے اطاعت اور صرف اطاعت ہی ہے۔ یہاں افلاس ہے، غربت ہے، بھوک ہے، پیاس ہے۔ جہالت ہے۔ نہ تعلیم کی سہولیات، نہ صحت کی، نہ عزتوں کا خیال اور نہ ذاتی انا کا سوال۔ بس سردار خوش تو جگ خوش۔ نعوذباللہ۔ نافرمانی اور شعور صرف اور صرف تعزیر کے منتظر ہیں۔ نہ سڑکیں، نہ پینے کا صاف پانی۔ یہ انسانی غلامی کا علاقہ ہے۔ رہی سہی کسر بارشیں اور برساتی نالوں میں آ نے والی طغیانی پوری کر دیتی ہے۔ انسانی زیادتیاں اپنی جگہ قدرت کی سختیاں اس کے علاوہ ہیں۔ انسان بھی ان پر ظلم کرتے ہیں اور قدرت بھی شایدان پر اتنی مہربان نہیں ہے۔ سونے پر سہاگہ ہے کہ مقامی لوگ خود بھی بلا کے سست مزاج، قدامت پرست اور پسماندہ ہیں۔ یہ سارے حالات مل کر انہیں پیروں فقیروں کے آستانوں پر پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں بڑی بڑی درگاہیں تونسہ شریف، مٹھن کوٹ اور حضرت سلطان سخی سرور ؒ کی ہیں۔ حضرت سخی سرور متقی اور پرہیزگار تھے۔ کوہ سلیمان سے چشمے، رودکھیوں ہی نہیں پھوٹتی بلکہ اس کے دامن میں حضرت سخی سرور ؒکی درگاہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے لئے زیارت خواص و عام ہے۔ البتہ گزرے وقتوں کی کچھ اچھی باتیں اب بھی قائم ہیں جیسے ہر گاؤں میں وساق (کمیونٹی سنٹر) ہے جہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، حقہ پیتے اور اپنے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں، قصے سناتے اور وقت گزارتے ہیں۔ ان کے اپنے لوک گیت اور ناچ ہیں۔ ان کا مقامی ناچ ’جھومر‘ جب ڈھول کی تھاپ پر ناچا جاتا ہے تو سماں بندھ جاتا ہے۔ لوک گیتوں میں ماہیے، دوہڑے شامل ہیں۔ ساز بھی ان کے اپنے ہیں، جس میں ’چمٹے‘ کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ ساز اور رقص وجد طاری کر دیتے ہیں۔ ’ہماچی‘ (بڑی چارپائی) پر بیٹھ کر قصے کہانیاں سنانا بھی ان کی ثقافت کا حصہ ہے۔ مرد ڈھیلا لباس پہنتے ہیں، کندھے پر چادر، بالوں کو خضاب لگانا، چھوٹی چھوٹی سیاہ داڑھی (اکثر کالا خضاب ہی لگا ہوتا ہے) عورتوں کے کم اور لونڈوں کے زیادہ شوقین ہیں۔ عورتیں پردہ کرتی اور ڈھیلے شوخ لباس پہننے کی شوقین ہیں۔ انگریز ’جنرل ایڈورڈ‘ اس خطے کے بارے لکھتا ہے: ”میں نے پنجاب کے جو بھی شہر دیکھے ہیں ان میں یہ شہر (ڈی جی خاں) سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اس کو بڑی آسانی سے کھجوروں کا شہر کہا جا سکتا ہے۔ اس کا ارد گرد بھی خوبصورت اور زرخیز ہے۔“

”کاش جنرل کو یہاں کے غریبوں پر ظلم کی چیخوں کی باز گشت بھی سنائی دیتی۔ ڈیرہ غازی خاں میرے کنارے پھیلی دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک کا اہم جزو رہا ہے۔ رحمان ڈھیری، کافر کوٹ اور دیگر آثار قدیمہ آج بھی اس کی عظمتِ رفتہ کی گواہی دیتے ہیں۔“ سندھو بتا کر خاموش ہو گیا۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close