موسیٰ ہساہیا کیسرا کے بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ ان سب کے نام بھی یاد نہیں رکھ پاتے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں اپنی 12 بیویوں، 102 بچوں اور 548 پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں پر مشتمل خاندان کی گزر بسر میں مشکلات کا سامنا ہے اور محسوس کرتے ہیں کہ اب بس بہت ہو گیا ہےاور وہ اپنے خاندان میں مزید اضافہ نہیں کریں گے
موسیٰ ہساہیا کی عمر اڑسٹھ برس ہے۔ وہ یوگنڈا کے علاقے بوٹالیجا کے ایک دور دراز گاؤں بوگیسا کے رہنے والے ہیں
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا بڑا کنبہ انہیں پہلے ایک مذاق محسوس ہوتا تھا لیکن اب ان کے لیے مسئلہ بن چکا ہے
وہ کہتے ہیں ”اب میری صحت بھی خراب رہتی ہے۔ میرے پاس صرف دو ایکڑ زمین ہے، جو اتنے بڑے کنبے کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے“
وہ بتاتے ہیں کہ ان کی دو بیویاں ان کو صرف اس وجہ سے چھوڑ گئیں کہ وہ ان کے کپڑے، خوراک اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے نہیں کر پا رہے تھے
موسیٰ ہساہیا اس وقت بے روزگار ہیں۔ البتہ وہ اپنے گاؤں میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”اب میری بیویاں ضبطِ تولید کی دوائیں استعمال کرتی ہیں لیکن میں ایسا نہیں کرتا“
موسٰی نے کہا ”اب میں مزید بچے پیدا نہیں کروں گا کیوں کہ مجھے اپنی غیر ذمے داری کا احساس ہوگیا ہے کہ مجھے اتنے بچے پیدا نہیں کرنے چاہیے تھے جن کی دیکھ بھال میرے لیے ممکن نہیں تھی“
ہساہیا کا یہ بڑا سا کنبہ جن گھروں میں رہتا ہے، وہ خستہ حال ہو چکے ہیں۔ ایک احاطے میں اس کے کنبے کی تقریباً دو درجن جھونپڑیاں ہیں
موسیٰ ہساہیا کی پہلی شادی 1972ع میں سترہ برس کی عمر میں ہوئی تھی، جس کے ایک برس بعد ہی ان کے ہاں لڑکی کی پیدائش ہوئی
وہ بتاتے ہیں ”ہم صرف دو بھائی تھے اس لیے ایک بڑا کنبہ چاہتے تھے۔ میں نے اپنے بھائی کو بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ زیادہ شادیاں کرکے بڑا خاندان بنائے تاکہ ہمارا نام زندہ رہے“
موسٰی اپنی نوجوانی کے دور میں مویشیوں کی خریدو فروخت اور قصاب کا کام کرتے تھے۔ مالی حالت اچھی تھی اس لیے رشتے بھی آسانی سے مل جاتے تھے اور کئی مرتبہ اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکیوں کے پیغامات بھی آتے تھے
سن 1995ع میں یوگنڈا کمیں کمسنی کی شادیوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی، البتہ مردوں کو مغربی افریقی ممالک کی بعض مذہبی روایات کی وجہ سے ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت ہے
ہساہیا کہ ایک سو دو بچوں کی عمریں دس سے پچاس برس کے درمیان ہیں، جبکہ ان کی کم عمر ترین بیوی پینتیس سال کی ہیں
وہ کہتے ہیں ”مجھے صرف اپنے سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے بچے کے نام یاد ہیں اور مجھے اپنے زیادہ تر بچوں کے نام یاد نہیں رہ پاتے“
اس مشکل کا حل انہوں نے یہ نکالا ہے کہ اپنے بچوں کی پیدائش کے اعتبار سے انہوں نے ایک فہرست بنا کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی مائیں بھی ان کو بچوں کے نام یاد دلانے میں مدد کرتی ہیں
لیکن مشکل یہ ہے کہ موسیٰ کئی مرتبہ اپنی بیویوں کے نام بھی بھول جاتے ہیں۔ اس کے لیے وہ شعبان نامی اپنے تیس سالہ بیٹے سے مدد لیتے ہیں، جو ایک پرائمری اسکول کا استاد ہے۔ وہ اپنے ان چند بہن بھائیوں میں شامل ہے، جو تعلیم حاصل کر پائے ہیں۔ شعبان خاندن کی دیکھ بھال میں اپنے والد کا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں
اتنے بڑے خاندان میں ہونے والے جھگڑوں اور تنازعات کو نمٹانے کے لیے ہر مہینے ایک بڑی بیٹھک بھی ہوتی ہے
موسیٰ ہساہیا کے گاؤں بگیسا کی آبادی چار ہزار ہے۔ اس گاؤں کے مقامی سرکاری عہدے دار کا کہنا ہے کہ کئی مسائل اور مشکلوں کے باوجود موسیٰ نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی ہے۔ ان میں سے کسی کے بارے میں کبھی لڑائی جھگڑے یا چوری وغیرہ کی شکایت نہیں آئی
بگیسا میں رہنے والوں کی بڑی تعداد زراعت اور گلہ بانی کے پیشوں سے وابستہ ہے
موسٰی کے خاندان کے اکثر لوگ اپنے پڑوسیوں کا ہاتھ بٹا کر پیسے یا خوراک جمع کرتے ہیں یا پھر ایندھن کے لیے لکڑیاں اور پیدل سفر کر کے گھر کے استعمال کے لیے پانی جمع کرتے ہیں
گھر میں موجود خواتین چٹائیاں بُنتی ہیں یا ایک دوسرے کے بال گوندھتی رہتی ہیں، جبکہ مرد کسی درخت یا چھپر کے سائے میں بیٹھے تاش کھیلتے رہتے ہیں
دوپہر کے کھانے میں اکثر کساوا نامی ترکاری ابال کر تیار کر لی جاتی ہے۔ کھانے تیار ہونے کے بعد موسٰی اپنی جھونپڑی سے نکل کر سب کو کھانے کے لیے آواز دے کر جمع کرتے ہیں
موسٰی کی تیسری بیوی زبینا کہتی ہیں ”مشکل ہی سے کھانا پورا ہوتا ہے۔ مجبوراً کئی مرتبہ بچے صرف دن میں ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ کبھی بہت اچھا دن ہو تو دو وقت کی روٹی بھی مل جاتی ہے“
زبینا کا کہنا ہے کہ انہیں اندازہ ہوتا کہ ان کے شوہر کی مزید بیویاں ہیں تو وہ کبھی ان سے شادی نہیں کرتیں۔ بعد میں انہیں اپنے مقدر سے سمجھوتا کرنا پڑا
موسٰی کی دیگر تین بیویاں گھر میں جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے دوسرے قصبے منتقل ہو گئی ہیں۔ لیکن موسیٰ کا خیال ہے کہ ان کی مزید بیویاں ان سے دور نہیں جائیں گی کیوں کہ وہ ان سے پیار کرتی ہیں۔