ربِ کائنات نے زمین کو سرسبز و شاداب جنگلات، قدآور درختوں، لہلاتی فصلوں، کھیتوں، آب شاروں، دریاؤں، سمندروں، پہاڑوں اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال کیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس صاف ستھرے ماحول میں بعض ایسے مضر اجزاء یا مادّے شامل ہو رہے ہیں، جوآلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔ کرہِ ارض میں آلودگی پیدا کرنے والے عوامل قدرتی بھی ہو سکتے ہیں اور انسان کے اپنے پیدا کردہ بھی
گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کا شمار بھی اسموگ سے متاثرہ مُمالک میں کیا جا رہا ہے۔ تاہم، پنجاب اور بالخصوص وسطی پنجاب اور لاہور سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔اسموگ دراصل دھند اور دھوئیں کی آمیزش سے بنتی ہے، جو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
اسموگ کے مضر اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں کہ عام طور پر ایسے بچّوں کا وزن کم ہوتا ہے اور پیدایش کے بعد ذہنی امراض میں مبتلاہو نے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور کلائمیٹ چینج کے نہایت واضح خطرات کے تحت، پاکستان میں اس وقت شجرکاری کی شدید ضرورت ہے، کیونکہ درخت ماحولیاتی آلودگی سے لڑنے کے لیے قدرتی ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں
لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون سے درخت ہیں، جن میں قدرت نے ماحولیاتی آلودگی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ رکھی ہے
صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں امریکہ کے ’ٹری فنڈ‘ کی مالی معاونت سے ہونے والی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ برگد اور جامن جیسے درخت فضائی آلودگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں
پاکستان میں پورا سال فضائی آلودگی کا مسئلہ رہتا لیکن سردیوں میں فصلوں کی باقیات کو جلانے کی وجہ سے یہ سنگین صورتحال اختیار کر لیتا ہے، اس کے علاوہ سموگ بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتی ہے
دنیا بھر کے کئی ممالک میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے شجرکاری کو ترجیح دی جاتی ہے، کیونکہ یہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کا ایک بائیولوجیکل طریقہ ہے۔ل
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں بھی ایک ایسی ہی تحقیق امریکہ کے ٹری فنڈ کی مالی معاونت سے کی گئی ہے
اس ابتدائی تحقیق میں برگد کے درخت کو پہلا نمبر دیا گیا ہے، جو ماحول میں موجود سب سے زیادہ آلودہ ذرات جمع کر کے انہیں صاف کرتا ہے
اس کے بعد دوسرے نمبر پر ارجن کا درخت ہے، جو فضا سے آلودہ ذرات کو صاف کرتا ہے۔ اس درخت کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں
تیسرے نمبر پر جامن کا پھل دار درخت ہے، اسے بھی شہروں میں لگا کر فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے
اس تحقیق کا بنیادی تصور یہ ہے کہ مختلف درختوں کے پتوں کی بناوٹ اور ساخت الگ ہوتی ہے، جو فضائی آلودگی کا باعث بننے والے ذرات پر قابو پانے اور اس کے زیادہ یا کم موثر ہونے کا باعث بنتے ہیں
پاکستان میں ہونے والی اس تحقیق کے لیے دس درختوں کے پتے تین الگ الگ مقامات سے لیے گئے
ان میں ایک فیصل آباد شہر کا مرکزی علاقہ تھا، دوسرا فیصل آباد شہر کا نواحی علاقہ تھا اور تیسرا دیہاتی علاقہ تھا
تحقیق کے دوران اس عمل کو تین بار دہرایا گیا۔ دس درختوں کی پہلی سیمپلنگ بارش کے ایک سو اٹھائیس دن بعد کی گئی، جبکہ دوسری اور تیسری سیمپلنگ اس علاقے میں ہونے والی بارش کے تیس دن بعد کی گئی
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی وجہ سے ہوا کو صاف کرنے کا تصور بڑھ رہا ہے، اس لیے پاکستان میں بھی شہری ماحول سے مطابقت رکھنے والے درخت لگا کر فضائی آلودگی کے مسئلے پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔