توہم پرستی ایک طرح سے انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ برصغیر کا خطہ تو خاص طور پر اس حوالے سے ہمیشہ سے زرخیز رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں شعبدہ بازی ہر دور میں پنپتی رہی ہے اور آج کا جدید دور بھی اس سے محروم نظر نہیں آتا
پاکستان ہو یا بھارت، آج بھی یہاں ہزاروں پیر اور گرو موجود ہیں۔ اندھی عقیدت اور اندھ وشواس کے مارے لوگوں کی وجہ سے ان کی مانگ میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ سندھی کے معروف افسانہ نگار امر جلیل کے ایک سندھی افسانے ’اروڑ جو مست‘ میں ایسے ہی ایک ڈھونگی کا مکالمہ ہے ”لوگوں کو لوٹنے کے لیے ہتھیار ضروری نہیں، انہیں پیر بن کر آسانی سے لوٹا جا سکتا ہے“
اس وقت بھارت میں ’روحانی طاقتوں‘ کا دعویٰ کرنے والا ایک نیا متنازع گرو شہ سرخیوں میں ہے۔ دھیریندرا کرشنا شاستری کے، جو بھاگیشور دھام سرکار کے نام سے مشہور ہیں۔ ’پیراں نمی پرند، مریداں می پرانند‘ کے مصداق ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس روحانی طاقتیں ہیں، جن کی مدد سے وہ بیماروں کو ٹھیک کر دیتے ہیں، لوگوں کو جن بھوتوں کے چنگل سے نکال سکتے ہیں اور کاروبار اور مالی مسائل سے نمٹنے میں لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں
چھبیس سالہ دھیریندرا بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے بھاگیشور دھام مندر کے چیف پنڈت ہیں۔ رنگین لباس میں ملبوس اور اٹھارہویں صدی کے مہاراشٹرا کے حکمرانوں کی طرز کی ٹوپی سر پر سجائے بھاگیشور دھام سرکار کے مطابق بہت سے سیاستدان اور حکومتی وزرا ان کے پیروکار ہیں
اس وقت بھارت میں ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ان کی دھوم مچی ہوئی ہے ۔ حالیہ ہفتوں کے دوران بھارت کے ہندی زبان کے چٹپٹے موضوعات کے متلاشی نیوز چینلز نے سینکڑوں گھنٹے گرو اور ان کی ’طاقتوں‘ کے متعلق رپورٹ کیا ہے۔ اور مذہب کی تبدیلی اور بین المذاہب شادیوں جیسے متنازع موضوعات پر ان کے بیانات کو اب ’بریکنگ نیوز‘ کے طور پر رپورٹ کیا جا رہا ہے
’روحانی طاقت‘ رکھنے کا دعویٰ کرنے والے بھاگیشور دھام سرکار کو اپنی مشہوری کے لیے ’ڈجیٹل طاقت‘ یعنی سوشل میڈیا کا سہارا ہے۔ سو دوسروں کی ’مشکل حل کرنے‘ کی یہ مشکل سوشل میڈیا نے حل کی ہے
ان کے سوشل میڈیا فالوورز کی تعداد تیزی سے بڑھ کر پچھتر لاکھ تک پہنچ گئی ہے، فیس بک پر چونتیس لاکھ فالوورز، یوٹیوب پر انتالیس لاکھ سبسکرائبرز، انسٹاگرام پر تین لاکھ فالوورز جبکہ ٹوئٹر پر 72 ہزار ہیں۔ ان کی چند مقبول ترین ویڈیوز کو تین سے دس ملین کے درمیان دیکھا جا چکا ہے
دھیریندرا شاستری جنوری میں اس وقت قومی منظرنامے پر ابھرے، جب ایک معروف عقلیت پسند نے ان کے دعوؤں پر سوال اٹھایا کہ ان کے پاس بیماروں کو ٹھیک کر دینے والی قوتیں ہیں اور وہ لوگوں کے ذہن پڑھ سکتے ہیں
’اندھا شردھا نرمولن سمیتی‘ نامی تنظیم کے پلیٹ فارم کے ذریعے توہم پرستی کے خلاف تحریک چلانے والے شیام مانوو نے شاستری کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ ان کے منتخب کردہ دس لوگوں کے ذہنوں کو صحیح طریقے سے پڑھ لیں گے، تو وہ انہیں تیس لاکھ روپے ادا کریں گے
شیام مانوو نے دھیریندرا شاستری کو یہ چیلنج اس وقت دیا تھا، جب وہ مہاراشٹرا کے شہر ناگپور میں ایک کیمپ لگائے بیٹھے تھے۔ مانوو کا تعلق بھی اسی ریاست سے ہے۔ جب دھیریندرا ساشتری ان کا چیلنج قبول کیے بنا شہر سے چلے گئے تو بعض لوگوں نے کہا کہ وہ بھاگ گئے ہیں
اس کے بعد سے، شاستری نے متعدد ٹی وی انٹرویوز دیتے ہوئے اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس چیلنج کے لیے تیار ہیں، لیکن مہاراشٹر میں نہیں بلکہ انھوں نے اس کے لیے ایک ’غیر جانبدار‘ مقام ریاست چھتیس گڑھ کی تجویز پیش کی ہے۔ لیکن مانوو کا کہنا ہے کہ شاستری نے مہاراشٹر میں اپنے سپر پاورز کا دعویٰ کیا ہے تو انہیں ثابت بھی یہیں کرنا ہوگا
جب سے یہ تنازع شروع ہوا ہے، کچھ خبروں کے مطابق مانوو کو جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں اور پولیس نے ان کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔ کچھ دن پہلے دھریندرا شاستری نے بھی پولیس کو شکایت درج کروائی تھی کہ انھیں بھی فون پر جان سے مارنے کی دھمکی ملی تھی
تنازع اور بے تحاشہ میڈیا کوریج کے دوران ایک مرکزی ٹی وی چینل کے رپورٹر کی جانب سے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور لوگوں کو صحت یاب کرنے اور ان کے ذہنوں کو پڑھنے کی صلاحیت کے دعوؤں کو فروغ دینے سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے
بھاگیشور دھام مندر کی جانب سے جاری کردہ یوٹیوب ویڈیوز میں وہ بڑے بڑے اجتماعات میں ہزاروں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک ریلی میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہاں چار لاکھ افراد موجود ہیں۔‘
اسٹیج اور ٹی وی اسکرین پر وہ اکثر بہت متحرک دکھائی دیتے ہیں، اپنی باتوں پر تالیاں بجاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ ایسے ہنستے ہیں، جیسے کسی لطیفے پر ہنس رہے ہو
بعض اوقات وہ اپنی نشست پر بھی اوپر نیچے گھومتے ہیں، کیمرے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، خود سے بڑبڑاتے ہیں اور مختلف آوازوں میں بولتے ہیں
ایک ایسے ہی اجتماع میں انہوں نے ہجوم میں سے ایک ’مکیش نامی شخص کو بلایا جس نے صرف بنیان پہن رکھی تھی‘
جب وہ شخص اسٹیج پر آیا تو انہوں نے اس سے بات کیے بنا مکیش کے مسائل کو ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا اور جب انھوں نے اس کے مسائل کو پڑھا تو مکیش نے ان سے اتفاق کیا
ایک اور موقع پر انہوں نے ایک ماں کو کچھ منتر لکھ کر دیے جس کے بچے کو دورے پڑتے تھے۔ اور اسے بتایا کہ ’یہ منتر آپ نے روزانہ پڑھنا ہے، یہ آپ کے بیٹے کی مدد کرے گا اور آپ کی مالی مشکلات بھی دور کرے گا‘
اس طرح کی پرفارمنس نے شاستری کو ایک ’معجزانہ صلاحیتوں کے حامل فرد‘ کے طور پر شہرت دلائی ہے، ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ’ان کی تیسری آنکھ ہے، اور وہ آپ کے دل، دماغ اور روح کے اندر جھانک سکتے ہیں‘
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ جادو ٹونے، توہم پرستی پھیلانے اور ’بھونڈی چالوں‘ سے عوام کو متاثر کرتے ہیں
جادوگر اور ذہن پڑھنے والے چند افراد بھی کچھ دنوں کے دوران یہ ثابت کرنے کے لیے سامنے آئے ہیں کہ وہ بھی اسی طرح کے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک فن ہے نہ کہ کوئی ’روحانی صلاحیت۔‘
ایک جادوگر اور ذہن پڑھنے والی ماہر سوہانی شاہ نے ایک نیوز چینل کو بتایا کہ ’وہ جو کر رہا ہے وہ ذہن پڑھنا ہے۔ آپ اسے معجزہ نہیں کہہ سکتے۔ یہ ایک فن ہے، ایک ہنر ہے جو سیکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی آپ کو بتائے کہ یہ ایک معجزہ ہے، تو وہ توہم پرستی پھیلا رہا ہے، وہ جھوٹ پھیلا رہا ہے۔‘
تاہم شاستری کا کہنا ہے کہ ’ان پر توہم پرستی کو فروغ دینے کا جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے‘ اور انھوں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ ’ہر مسئلے‘ کو حل کر سکتے ہیں
حتیٰ کہ کچھ سرکردہ ہندو مذہبی رہنماؤں نے بھی ان کی قابلیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ اگر شاستری واقعی معجزات کرنے کے قابل ہیں، تو انھیں ہمالیہ کے شہر جوشی متھ کے ان مکانات کی مرمت کرنی چاہیے جن میں دراڑیں پڑ چکی ہیں
دھریندرا شاستری بظاہر اپنے اقلیت مخالف بیانات اور انڈیا کو ہندو راشٹر (قوم) بنانے کا مطالبہ کرنے پر بھی سیاسی تنازعات کی زد میں ہیں
ان پر پچھلے سال اس وقت ’اچھوت‘ ہونے کے نظریے پر عمل کرنے کا بھی الزام لگایا گیا تھا، جب ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں انہیں ایک آدمی سے یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ ’مجھے مت چھونا… تم اچھوت ہو۔‘
لیکن انہیں بہت سے انتہا پسند ہندو رہنماؤں کی نمایاں حمایت حاصل ہے، جو کہتے ہیں کہ انہیں ہندوؤں کے تبدیلی مذہب کی مخالفت کرنے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کپل مشرا نے حال ہی میں ٹویٹ کیا ’اگر کوئی مذہب کی تبدیلی کے خلاف بات کرتا ہے تو… (ان پر) جھوٹا الزام لگایا جائے گا اور ان پر حملہ کیا جائے گا۔ بھاگیشور مہاراج کے خلاف حملوں کے پیچھے یہی وجہ ہے۔ اسی لیے ہم ان کے ساتھ ہیں‘
شاستری اکثر اپنے آپ کو ایک ’گنوار‘ اور ’ایک ان پڑھ آدمی‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں اور مندر کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق ’وہ بچپن سے ہی مذہب میں دلچسپی رکھتے تھے اور اکثر اسکول سے بھاگ کر مندر آتے تھے۔‘
وہ سنہ 1996ع میں چھتر پور ضلع کے گڈا گاؤں کے ایک غریب برہمن خاندان میں پیدا ہوئے، انہوں نے خاندان کی مالی مدد کے لیے تعلیم چھوڑ دی
ان کے اسکول کے ایک ساتھی کے مطابق، ”چند سال قبل شاستری ایک سال کے لیے غائب ہو گئے تھے۔ ان کی واپسی کے بعد ہی سیاست دان اور دیگر بااثر لوگ ان سے ملنے مندر آنے لگے.. پانچ سال قبل تک وہ موٹر سائیکل پر سفر کرتے تھے لیکن آج وہ درجنوں گاڑیوں کے کارواں میں سفر کرتے ہیں اور ملک اور بیرون ملک اکثر نجی طیاروں میں سفر کرتے ہیں“