انڈیا میں صدیوں پرانے ستون، جو کسی ساز کی طرح بجتے ہیں۔۔

مالاویکا بھاٹاچاریہ

جنوبی انڈیا میں ایک چمکدار سورج کے نیچے نیم کھلی آنکھوں کے ساتھ میں دور بے ترتیب پڑی چٹانوں کو دیکھ سکتی تھی جبکہ میرے ارد گرد نفاست سے تیار کیے گئے دروازے، ستونوں والے دیوان اور بڑے بڑے مجسمے تھے

میں ہمپی شہر میں تھی جو دو باتوں کے لیے جانا جاتا ہے: سرمئی، سرخ اور گلابی مائل گرینائٹ کی چٹانوں کے لیے اور صدیوں پرانے مندروں اور محلات کے لیے

میں جہاں تھی، وہ پندرہویں صدی کا وجے ویتھالا مندر تھا، جہاں ان دونوں چیزوں کا سنگم ہوتا ہے

ہمپی یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے اور اسے اکثر ایک اوپن ایئر میوزیم بھی کہا جاتا ہے جو پتھروں کے عظیم الشان کھنڈرات پر مشتمل دریائے ٹنگابھادرا کے کنارے قائم ایک قدیم شہر ہے۔ 14ویں سے لے کر 16ویں صدی کے دوران جنوبی انڈین ہندو مملکت وجے نگر کے دارالحکومت اس شہر پر ان بادشاہوں کی حکومت تھی جو ثقافت، مذہب اور فنونِ لطیفہ پر بے تحاشہ خرچ کیا کرتے

وجے ویتھالا مندر ہندو دیوتا وِشنو سے منسوب ہے اور یہ فنِ تعمیر کا ایسا نمونہ ہے جس کے بلند و بالا ستون اور راستے سب اس خطے میں عام پائے جانے والے گرینائٹ سے بنائے گئے ہیں

تقریباً پانچ سو برس قبل وجے نگر کے بادشاہ اور شہری یہاں عبادت کرنے، جشن منانے اور تفریح حاصل کرنے کے لیے آیا کرتے تھے

میں نے نظر گھمائی تو مجھے ہندو دیوی دیوتاؤں کے نقوش سے مزیّن دیوان نظر آئے۔ ان میں سب سے بڑا ہال ’مہا منڈپ‘ کہلاتا ہے

شاندار سیڑھیاں ستونوں والے اس ہال تک لے جاتی ہیں جو خود گھوڑوں اور پھولوں کے نقوش سے مزیّن ایک چبوترے پر قائم ہے۔ انتہائی باریکی سے تراشے گئے مجسموں اور پتھر کے اونچے ستونوں سے بھرے ہوئے اس ہال میں کلاسیکی رقاص بادشاہ اور دیوتاؤں کے لیے اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔

میرے گائیڈ منجوناتھ نے کہا: ’تصور کریں، وینا، طبلے اور جلترنگ کی آوازیں یہاں گونج رہی ہوں۔‘

میں نے رقاصوں کو اس ہال میں محوِ رقص اور موسیقاروں کو دھنیں بکھیرتے تصور کیا مگر پھر منجوناتھ نے ہمارے گرد قائم پتھر کے ستونوں کی جانب اشار کرتے ہوئے کافی پراسرار انداز میں کہا کہ ’یہاں موجود واحد ساز یہ ستون تھے۔‘

ہمپی کے ’میوزیکل ستون‘ لوگوں کو صدیوں سے حیران کیے ہوئے ہیں۔ مہا منڈپ کے اندر موجود یہ 56 ستون گرینائٹ کی چٹانوں سے تراشے گئے ہیں اور انھیں اکثر ’گاتے پتھر‘ یا سا رے گا ما ستون‘ کہا جاتا ہے

منجوناتھ کہتے ہیں کہ ’پرانے دور میں موسیقار صندل کی لکڑیوں یا اپنی انگلیوں سے ان ستونوں کو بجایا کرتے اور ان میں سے مختلف سازوں کی آوازیں آیا کرتیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب ان ستونوں پر ضرب لگائی جائے تو یہ مختلف سر اور کئی انڈین سازوں مثلاً گھنٹی، ڈمرو، اور مرندنگم کے سر بھی پیدا کرتے ہیں

ایسے میوزیکل ستون کئی جنوبی انڈین مندروں کا خاصہ ہیں اور وجے نگر کے دور میں یہ فن سب سے زیادہ نمایاں رہا۔ یہ مختلف انداز میں بنائے گئے اور ہمپی کے ستونوں کی خاص بات سخت گرینائٹ پر نفیس کاریگری ہے۔

بینگلورو میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ سٹڈیز میں آثارِ قدیمہ کی پروفیسر شردھا سرینواسن نے کہا کہ ’ویسے تو ہمارے پاس لیتھوفونز (بجنے والے پتھر) کی مثالیں دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی ہیں مگر تاریخ اور لطافت کے اعتبار سے ہمپی کے ستونوں کا کوئی ثانی نہیں۔‘

ان ’گاتے ستونوں‘ کے متعلق حیرت زدہ ہو کر میں نے مہا منڈپ پر ایک قریبی نظر ڈالی۔ یہ جگہ ان نادر ستونوں کو محفوظ رکھنے کے لیے سیاحوں کے لیے بند کر دی گئی ہے کیونکہ لوگ یہاں آ کر بار بار انھیں بجاتے رہتے تھے جس سے ان کو کچھ نقصان پہنچا

اب سیاح صرف انھیں دیکھ سکتے ہیں مگر چھو نہیں سکتے چنانچہ کئی لوگ اب یہاں سے ان کی قدر سمجھے بغیر ہی گزر جاتے ہیں

میں نے حیرت سے ان ستون کی ہموار سطح کو دیکھا جن کی بنیادوں اور سروں کو شاندار طریقے سے تراشا گیا تھا۔ یہ جامع ستون ہیں، مطلب یہ کہ ہر ایک ستون متعدد حصوں پر مشتمل ہوتا ہے یعنی ایک موٹا بوجھ برداشت کرنے والا مرکزی کالم جس کے گرد دیگر پتلے پتھر کے چھوٹے ستون ہوتے ہیں

میں نے دو اور چار ستونوں کے سیٹ دیکھے اور اسی طرح دس سے 14 ستونوں والے جھرمٹ بھی دیکھے۔ ان میں پتلے ستونوں کی بناوٹ اور اشکال مختلف تھیں۔ کچھ گول تھے، کچھ مُسّدَس جیسی شکل والے، کچھ مربع کی شکل میں تھے اور چند آٹھ زاویوں پر بنے آکٹاگونل شکل میں تھے۔ ان میں سے چند پر رقاصوں اور موسیقاروں کی مجسمے بنے ہوئے تھے

جیسا کہ میرے گائیڈ نے اس شاندار جگہ پر رقص اور موسیقی کی ایک واضح تصویر کھینچی تھی تو میرے ذہن میں ان سوالات نے جنم لیا کہ کیا واقعی یہ پتھر گاتے ہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو یہ کیسے گاتے ہیں؟

میرے ذہن میں جو پہلی بات آئی وہ یہ تھی کہ یقیناً یہ ستون اندر سے خالی ہوں گے اور ان پر جب ضرب پڑتی ہو گی تو ارتعاش سے ان میں آواز پیدا ہوتی ہو گی لیکن منجوناتھ نے فوراً ہی میرے نظریے کو رد کر دیا

اس کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس راز کو جاننے کے لیے چند ستونوں کو کاٹا گیا تھا لیکن یہ اندر سے خالی نہیں تھے بلکہ مضبوط پتھر سے بنے تھے

سرینیواسن کے مطابق ’اس خطے میں پائے جانے والے سرمئی رنگ کے پورفیریٹک گرینائٹ آواز پیدا کرنے والی خصوصیات رکھتے ہیں۔ خاص طور پر پتھر کے پتلے حصے میں یہ خصوصیت ہے۔‘

انھوں نے وضاحت کی کہ مہامنڈاپا میں موجود تمام 56 ستونوں سے سازوں کی آوازیں نہیں نکلتی تھیں البتہ 14 ستونوں کے جھرمٹوں والے حصوں سے یقیناً آواز آتی تھی

ان کا کہنا تھا ’اس سے ذہن میں ترتیب سے موسیقی کی سر سا رے گا ما آتے ہیں۔‘

ہیریٹیج آرکیٹیکٹ میرا ناٹمپلی، جو جنوبی انڈیا کے مندروں کے فن تعمیر کی ماہر ہیں اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ موسیقی کی آوازیں چٹان کی خصوصیات کی وجہ سے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ان سروں کی آوازوں کے لیے پتھروں میں کوئی کیمیکل استعمال نہیں کیا گیا۔‘

ویتھلا مندر کے احاطے کی تعمیر نو پر کام کرتے ہوئے ناٹمپلی اور اس جگہ پر موجود دھاتوں کے ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پتھر کی اصل جگہ ستونوں کی آواز میں ایک کردار ادا کرتی ہے

’[ستونوں کے لیے] استعمال ہونے والا گرینائٹ مختلف مقامی کانوں سے آتا ہے، اس لیے آپ کے پاس مختلف پتھر ہیں جو مختلف آوازیں نکالتے ہیں۔‘

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ستونوں کی شکل، سائز اور جگہ ان سے پیدا ہونے والی آوازوں کا تعین کرنے میں کردار ادا کرتی ہے

میرا خیال تھا کہ باریک ستون سب ایک جیسے ہیں لیکن غور سے ان کا مشاہدہ کرنے پر مجھے علم ہوا کہ ان کی بناوٹ اور حجم میں فرق تھا اور وہ مرکزی ستون سے مختلف جگہوں پر تعمیر کیے گئے تھے

ناٹیمپلی کہتی ہیں ’مثال کے طور پر اگر کسی مرکزی ستون کے ساتھ چار چھوٹے ستون ہیں تو ان میں سے سب سے پیچھے والا ایک مختلف آواز پیدا کرتا ہے۔‘

سرینیواسن نے بتایا کہ ان ستونوں کے ساتھ بنے ہوئے مجسموں کا بھی ان آوازوں کے پیدا ہونے میں کردار ہے۔ انھوں نے ایک ستون جہاں ایک موسیقار کا ٹوٹا ہوا مجسمہ تھا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ساتھ چھوٹے ستونوں کے دو جھرمٹ تھے اور ان کا اونچی آواز پیدا کرنے میں کوئی تعلق تھا

اگرچہ تاریخی حوالوں میں ہمیں مندر میں ہونے والے تہواروں کے بارے میں پتا چلتا ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی ریکارڈ نہیں کہ ستون کیسے بنائے گئے تھے

سنہ 1565 میں، وجے نگر کی سلطنت دکن کے سلطانوں کے خلاف تلی کوٹا کی جنگ میں ختم ہو گئی تھی۔ یہ جنوبی انڈیا کے جزیرہ نما دکن میں اسلامی خاندانوں کا اتحاد تھا۔ جب ہمپی پر قبضہ کیا گیا تو بہت سی عظیم الشان یادگاریں تباہ ہو گئیں تھی اور وجئے نگر کھنڈرات میں بدل گیا

اس وقت کی تعیمرات اور علم دونوں ضائع ہو چکے تھے۔ تو سوال باقی ہے کہ کیا یہ ستون جان بوجھ کر میوزیکل بنائے گئے تھے، یا جو سر وہ پیدا کرتے ہیں وہ محض ان کے ڈیزائن کا ایک ضمنی پروڈکٹ ہیں؟

میں نے چند اور خستہ حال اور بوسیدہ ستونوں کو دیکھا اور مختلف ممکنات پر غور کیا۔ شاید لوگوں نے حادثاتی طور پر یہ جانا تھا کہ پتھر سے بنے یہ ستون آوازیں پیدا کرتے ہیں اور انھیں موسیقی کے آلات کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا یا شاید وجئے نگر کے سنگ تراشوں نے اس وقت تک ان پتھروں کو تراشہ جب تک ان میں سے ان کی مطلوبہ آوازیں پیدا نہیں ہوئیں

تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہم یہ راز کبھی نہیں جان سکیں گے

سرینیواسن کہتے ہیں کہ ’جہاں تک آوازوں کا تعلق ہے اس بارے میں ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ یہ سوچ بہت عجیب ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقیہ ہو گیا‘

ہمپی کے اس روحانی شہر میں جہاں افسانے اور لوک داستانیں بھری پڑیں ہیں وہاں قرون وسطی کے دور کے آرکسٹرا کا تصور کرنا ممکن اور پرکشش ہے جہاں ٹھوس پتھروں سے تاروں کے سر بکھرتے ہیں

کئی دہائیوں سے ستون سائنسی مطالعات کا موضوع رہے ہیں اور انسانی تخیل کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ آج بھی ایک معمہ بنے ہوئے ہیں اور ان کی تعمیر آج تک اہل علم کو سٹپٹا رہی ہے۔

بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close