حماس کے یحییٰ سنوار کی کہانی، اسرائیل جن کی جان کے درپے ہے۔۔

ویب ڈیسک

عالمی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فوجوں نے بدھ کو غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کے گھر کا محاصرہ کیا ہے

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا ”اسرائیلی فوج نے یحییٰ سنوار کے گھر کو گھیر لیا ہے، ان کا گھر شاید ان کا ٹھکانہ نہ ہو اور وہ فرار ہو سکتے ہیں مگر ہم ان تک بہت جلد پہنچ جائیں گے“

سنوار کا نام متعدد سینیئر اسرائیلی عہدیدار لے چکے ہیں جن میں وزیرِ دفاع بھی شامل ہیں جنہوں نے سنوار کو ’ختم‘ کرنے کا عہد کر رکھا ہے

اس وقت غزہ میں حماس کے سب سے سینیئر رہنما یحییٰ سنوار ہیں اور حال ہی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں ان کا نام سب سے زیادہ منظرِ عام پر آیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ان کے بغیر یہ تبادلہ ممکن نہیں تھا

گذشتہ ہفتے فرانس نے یحییٰ سنوار کے اثاثے چھ ماہ تک منجمد کر دیے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ پر حملہ آور اسرائیلی فوج ڈرونز، حساس جاسوسی آلات اور انسانی انٹیلیجنس کی مدد سے سنوار کو تلاش کر رہی ہے، لیکن ابھی تک ان کا سراغ نہیں مل سکا ہے

اسرائیلی ڈیفنس فورس کے ترجمان ریئر ایڈمرل دانیال ہاغاری نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا، ’اس حملے کا فیصلہ یحییٰ سنوار نے کیا تھا۔ اس لیے وہ اور ان کے ساتھی مردہ ہیں‘ یعنی اسرائیل انہیں مارنے پر تل گیا ہے۔

سنوار کے ساتھیوں میں محمد ضیف شامل ہیں جو حماس کے ملٹری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے کمانڈر ہیں۔ یورپین کونسل آن فارن ریلیشنز (ای سی ایف آر) کے سینیئر پالیسی فیلو ہیو لوواٹ کے مطابق ”خیال ہے کہ سات اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی کے پیچھے ضیف کا دماغ تھا کیونکہ یہ ایک فوجی آپریشن تھا، لیکن سنوار ممکنہ طور پر اس گروپ کا حصہ تھے جس نے اس کی منصوبہ بندی کی“

اسرائیل میں سنوار کے خلاف نفرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اسرائیلی گلوگارہ رینات بار نے آئی ڈی ایف کے فوجیوں کے سامنے پرفارم کرتے ہوئے عربی گیت ’یا بنت السلطان‘ کے بول بدل کر گائے جس میں انہوں نے کہا، ’یا یحییٰ سنوار! آپ کل مر جائیں۔‘

سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سنوار کا ایک بیان منظرعام پر آیا تھا، جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا، ”قابض رہنماؤں کو جان لینا چاہیے کہ سات اکتوبر صرف ریہرسل تھا“

پچھلے سال دسمبر میں انہوں نے غزہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”حماس اسرائیل پر ایک شدید حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ہم انشاء اللہ ایک طوفان کی شکل میں تم پر برسیں گے“

حماس کی قید سے رہا ہونے والے اسرائیلی قیدیوں نے حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کے حسن سلوک کی تعریف کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں سرنگوں میں رکھا گیا تھا، جہاں ہم سے ملنے حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار بھی آئے اور نہ صرف حفاظت کی یقین دہانی کرائی بلکہ کسی بھی چیز کی کمی نہ ہونے دی۔ اسرائیلی صحافی بین ڈیوڈ سے گفتگو میں ایک اسرائیلی خاتون نے بتایا کہ ان کی بیٹی حماس کی قید میں تھی اور وہاں حسنِ سلوک کے باعث میری بیٹی خود کو ملکہ سمجھتی تھی

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو قید کی جانے والی اور دو ہفتے بعد رہا ہونے والی ایک پچاسی سالہ اسرائیلی خاتون یوشیود لیفشیٹز نے 29 نومبر کو کہا کہ وہ قید کے دوران غزہ کے رہنما یحییٰ سنوار سے ملی تھیں اور ان سے پوچھا تھا کہ انہوں نے میرے جیسے امن کارکنوں پر حملہ کیوں کیا؟

یوشیود لیفشیٹز کو اسرائیل میں ان کے گاؤں نیر اوز سے سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے پکڑ کر غزہ میں قید کر لیا تھا۔ انہوں نے اسرائیلی اخبار داوار کو بتایا ”میرا سامنا سنوار سے اس وقت ہوا، جب وہ یرغمالیوں سے ایک زیر زمین سرنگ میں ملے، جہاں حماس نے ہمیں یرغمال بنا رکھا تھا“

اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق رہا ہونے والی ایک اور خاتون قیدی نے بتایا ”سنوار اس سرنگ میں آ پہنچے، جہاں مجھے اور دوسرے قیدیوں کو رکھا گیا تھا اور ہم سے حال احوال پوچھا، اور ہمیں رواں عبرانی میں بتایا کہ ہمیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔“

ایکس کی صارف حیا نے ایک پوسٹ میں لکھا، ”رہا ہونے والے اسرائیلی جنگی قیدیوں میں سے ایک نے بتایا کہ یحییٰ سنوار داخل ہوئے اور عبرانی زبان میں ان سے اپنا تعارف کرایا، ’ہیلو، میں یحییٰ سنوار ہوں اور تم یہاں محفوظ ہو، تمہیں کچھ نہیں ہوگا“

اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق اسرائیلی سکیورٹی اداروں نے بھی اسرائیلی قیدی کے اس بیان کی تصدیق کی تھی

اکسٹھ سالہ یحییٰ سنوار کو ابو ابراہیم بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی جیلوں میں بائیس برس تک قید میں گزارے ہیں۔ وہ 2011ع تک اسرائیل کی ایک جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی فوجی جلعاد شاليط کے بدلے میں دوسرے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیل کو انہیں بھی رہا کرنے پر مجبور ہونا پڑا

واضح رہے کہ اسرائیلی فوجی جلعاد شالیط کو حماس نے 2006ع میں غزہ کی حدود میں گھات لگا کر قید کر لیا تھا، جس کے عوض اسرائیل نے 1027 قیدیوں کو رہا کیا، جن میں سینکڑوں فلسطینی بھی شامل تھے

رہائی کے چھ برس بعد سنوار کو فروری 2017 میں ایک خفیہ انتخابی عمل کے بعد اسماعیل ہنیہ کی جگہ حماس کے عسکری دھڑے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ ہنیہ بعد میں حماس کے سربراہ بن گئے تھے

اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی شین بیت کے ایک اہلکار یارون بلم نے یحییٰ سنوار کے انتخاب کے بعد اسرائیل ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یحییٰ کو ’قیدی نمبر 1 کی حیثیت حاصل تھی۔‘

بلم نے یہ بھی کہا تھا کہ ’سنوار سحرانگیز شخصیت کے مالک ہیں اور بدعنوان نہیں ہیں۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ سنوار عمل پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت بہت مشکل ہوگی

واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ایہود یاری، جس نے سنوار کا 1993 سے 2001 کے درمیان چار بار جیل میں انٹرویو کیا، کے مطابق سنوار جیل میں خود کو بطور رہنما منوانے میں کامیاب ہو گئے اور ان کی خاطر جیل حکام سے مذاکرات کرنے اور قیدیوں میں نظم و ضبط قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے

ایہود یاری کہتے ہیں ”وہ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مذاکرات کے بارے میں سوچ رہا ہو، ایک دو ریاستی حل – یہ سنوار نہیں ہے،“

برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق جیل میں سنوار سے پوچھ گچھ کرنے والے ایک سابق اسرائیلی تفتیش کار نے کہا کہ جیل میں قید کے دوران ’سنوار نے کسی بھی اسرائیلی سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا اور وہ دوسرے قیدیوں کو خود سزا دیا کرتے تھے جو اسرائیلیوں سے بات کرتے تھے۔‘

تفتیش کار کا کہنا تھا کہ ’وہ ہزار فیصد پرعزم اور ہزار فیصد پرتشدد شخص ہیں۔‘

لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ گارڈین نے لکھا کہ سنوار ’ایک تیز دماغ کے ساتھ ایک ذہین سیاسی کارکن بھی ہیں۔‘

گارڈین کے مطابق جس طریقے سے سنوار رہا ہوئے، اس سے انہوں نے اپنے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو رہا کرنے کا واحد راستہ اسرائیلی فوجیوں کی گرفتاری ہے

اس وقت سنوار سے ملاقات کرنے والے ایک صحافی نے گارڈین کو بتایا ’سنوار کی توجہ اس قدر مرکوز تھی کہ ایسا لگتا تھا، جیسے ان کے لیے بقیہ دنیا کوئی وجود ہیں نہیں رکھتی۔‘

ایہود یاری کہتے ہیں کہ سنوار عبرانی اخبار پڑھا کرتے تھے اور ان سے ہمیشہ عبرانی میں بات کرتے تھے۔ عبرانی زبان میں ان کی مہارت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ 2011 میں رہا ہونے سے چند ماہ قبل انہوں نے عبرانی زبان میں انٹرویو دیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکام کی نظروں میں وہ ’اعتدال پسند‘ ہو گئے تھے

فنانشل ٹائمز نے اسرائیلی انٹیلیجنس تنظیم شین بیت کی طرف سے سنوار سے پوچھ گچھ کرنے والے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ سنوار جیل میں ’ولادی میر جابوٹنسکی، میناخم بیگن اور اسحٰق رابن جیسی اسرائیلی شخصیات کے بارے میں کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔‘

عبرانی پر عبور اور اسرائیلی جیلوں میں طویل عرصہ گزارنے کی وجہ سے سنوار خود کو اسرائیلی سیاست اور ثقافت کے ماہر سمجھتے ہیں۔

یحییٰ سنوار کی کہانی

یحییٰ سنوار کے خاندان کا تعلق فلسطینی گاؤں المجدل عسقلان سے ہے، جہاں سے اسرائیل نے 1948 میں فلسطینیوں کو بے دخل کر دیا تھا۔ اب یہ علاقہ اسرائیلی شہر عسقلان کا حصہ ہے

سنوار 1962 میں خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابھی ان کی عمر پانچ برس تھی کہ اسرائیل نے اس شہر پر قبضہ کر لیا

وہ اپنی کتاب ’الشوک والقرنفل‘ (کانٹے اور پھول) میں لکھتے ہیں: ”1967 کی سردیاں بہت بھاری گزریں، بہار آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی کہ اچانک بارش شروع ہو گئی اور غزہ شہر کے مہاجر کیمپ کے کچے گھر پانی میں ڈوب گئے۔۔۔ سیلابی پانی ہمارے گھر میں داخل ہو گیا“

وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت وہ گھر میں اپنے بڑے تین بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ موجود تھے، جو سیلاب سے خوفزدہ ہو گئے ”میرے والد اور والدہ نے فرش گیلا ہونے سے پہلے ہمیں بازوؤں میں اٹھا لیا۔ میری ماں نے گھر میں پانی داخل ہونے سے پہلے بستر اٹھا لیا۔ میں سب سے چھوٹا تھا، اس لیے میں اپنی ماں کے ساتھ چمٹ گیا

”رات کو میری ماں چھت کے نیچے ایلومینیم کے برتن رکھتی تھی تاکہ چھت سے ٹپکتی بوندیں ان میں گریں۔ میں جب بھی سونے کی کوشش کرتا، تو پانی کی ٹپ ٹپ مجھے سنائی دیتی۔ جب برتن بھر جاتے تو میری ماں انہی خالی کر دیتی“

نوجوانی ہی میں سنوار نے غزہ میں اخوان المسلمون کی تحریک میں شمولیت اختیار کی، جس کا نام 1987 کے آخر میں بدل کر حماس تحریک میں تبدیل ہو گیا

انھوں نے خان یونس کے ایک سیکنڈری سکول میں تعلیم حاصل کی تھی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی زبان میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وہ اخوان المسلمون کے سٹوڈنٹ ونگ ’اسلامی بلاک‘ کے سربراہ بھی رہے

سنوار نے 1985 میں اخوان المسلمون کے سکیورٹی ونگ کی بنیاد رکھی، جسے ’المجد‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی ہدف غزہ کی پٹی میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا تھا

سنوار کی ظاہری شبیہ کی بات کریں تو ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید ہیں جبکہ ان کی بھنویں کالی ہیں جو ان کو ظاہری طور پر منفرد بناتی ہیں

سنوار ویسے تو میڈیا سے دور رہے ہیں، لیکن انہوں نے بعض اہم مواقعوں پر بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ پریس کانفرنسیں بھی منعقد کی ہیں

امریکی ادارے این پی آر کے نامہ نگار ڈینیئل ایسٹرن نے 2018 میں ایسی ہی ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ ان کے مطابق سنوار نے کہا کہ وہ اپنی حکمتِ عملی اسرائیل کی جیلوں میں سیکھے گئے سبق کی مدد سے تشکیل دیتے ہیں۔ سنوار نے بتایا تھا ’جیسے جیل میں قیدی اپنے حقوق کے لیے بھوک ہڑتال کرتے ہیں، ویسے ہی فلسطینی غزہ کے حالات میں بہتری کے لیے اپنے جیلروں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘

ایسٹرن کہتے ہیں کہ حماس کے مستقبل کا دارومدار بہت حد تک سنوار پر ہے، اس لیے اسرائیل، جس نے حماس کو ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، سنوار کو اپنی ہٹ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے

اسرائیل کے پاس سنوار سے نمٹنے کا تقریباً چالیس سال کا تجربہ ہے، تاہم وہ سنوار کو سمجھ نہیں پائے اور اسی وجہ سے وہ اطمینان کے جھوٹے احساس میں مبتلا ہو گئے

سات اکتوبر کے حملے سے قبل اسرائیل سنوار کو ایک ’خطرناک انتہا پسند‘ کے طور پر دیکھتا تھا، البتہ ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے انہیں حقیقی خطرہ نہیں سمجھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سنوار کی توجہ غزہ میں حماس کی حکمرانی کو مضبوط کرنے اور معاشی مراعات حاصل کرنے پر مرکوز ہے

فاکس نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر میں فلسطینی اسٹڈیز فورم کے سربراہ مائیکل ملسٹائن نے کہا ”سنوار حماس رہنماؤں کی دوسری نسل کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے پاس نہ صرف غزہ کے معاملات بلکہ پوری تحریک کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہے“

ملسٹین کہتے ہیں ”ہنیہ اور سابق سیاسی رہنما خالد مشعل کے مقابلے میں سنوار زیادہ کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔“

السنوار کو سنہ 1982 میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ 19 برس کے تھے۔ انھیں سنہ 1985 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا

یہ وہ وقت تھا، جب انھوں نے حماس کے وہیل چیئر تک محدود بانی شیخ احمد یاسین کا اعتماد حاصل کر لیا تھا۔

انسٹیٹیوٹ برائے نیشنل سکیورٹی سٹڈیز تل ابیب میں سینیئر ریسرچر کوبی مائیکل کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان قربت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ رشتہ السنوار کے تنظیم میں ان کے بارے میں تاثر کے حوالے سے گہرا اثر ڈالنے کا باعث بنا۔

السنوار نے سنہ 1988 سے 2011 تک 22 سال جیل میں گزارے جو ان کی ادھیڑ عمر کا بڑا حصہ بنتا ہے۔ وہاں ان کا وقت کچھ عرصہ قیدِ تنہائی میں بھی گزرا

قابض اسرائیلی حکومت کی جانب سے السنوار کے کردار کے بارے میں کیے گئے تجزیے کے مطابق وہ ایک ’جابر، دبدبے والے اور بااثر رہنما ہیں جن میں برداشت، چالاکی اور ساز باز کرنے اور تھوڑے وسائل پر گزارا کرنے کی غیر معمولی صلاحیتیں ہیں۔۔۔ وہ جیل میں بھی قیدیوں کے درمیان راز رکھتے تھے، اور ان میں ہجوم کی سربراہی کرنے کی صلاحیت تھی۔‘

السنوار کے چھوٹے بھائی محمد نے بھی حماس کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ وہ اسرائیل کی جانب سے متعدد قاتلانہ حملوں میں بچنے میں کامیاب ہوئے لیکن پھر حماس نے سنہ 2014 میں ان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔ اس حوالے سے ایسی میڈیا رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں اور حماس کے عسکری شعبے میں متحرک ہیں اور غزہ میں سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ممکنہ طور پر سات اکتوبر کے حملوں میں بھی کردار ادا کر چکے پیں تاہم اس حوالے سے تاحال کچھ بھی واضح نہیں

سنہ 2015 میں امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے باضابطہ طور سنوار کا نام ’عالمی دہشتگردوں کی فہرست‘ میں ڈال دیا تھا۔ مئی 2021 میں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملے میں ان کے گھر اور دفتر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close