ماہرین نے نوزائیدہ بچوں کو بہرے پن سے بچانے میں مددگار نیا طریقہ دریافت کر لیا

ویب ڈیسک

بعض اوقات نوزائیدہ بچے بعض طبی پیچیدگیوں کے باعث کم قوت سماعت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جس میں سے بعض بچوں کے مستقل بہرے بننے کے امکانات بھی ہوتے ہیں اور ایسے کیسز میں ڈاکٹرز بچوں کو پیدائش کے فوری بعد اینٹی بائیوٹک ادویات دیتے ہیں

لیکن متعدد بچوں کو پیدائش کے فوری بعد بہرے پن سے بچانے کے لیے دی جانے والی اینٹی بائیوٹک ادویات بعض مرتبہ بچوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اور بچے ری ایکشن کی وجہ سے قوت سماعت سے محروم ہوجاتے ہیں

دنیا بھر میں ایسے بچوں کی قوتِ سماعت کی طاقت یا استطاعت کو درست انداز میں جانچنے کا فی الوقت کوئی باضابطہ ٹیسٹ یا طریقہ موجود نہیں، تاہم اب برطانوی ماہرین نے اس حوالے سے ایک نیا طریقہ کار تیار کر لیا ہے، جسے کافی مددگار کہا جا رہا ہے

برطانیہ کے محکمہ صحت کے حکام نے نوزائیدہ بچوں میں قوتِ سماعت کی کمزوری کا پتہ لگانے کے لیے ایک نیا طریقہ تیار کر لیا ہے، جو اس وقت ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم امکان ہے کہ اسے جلد عام کردیا جائے گا

نئے طریقہ کار کے تحت ماہرین صحت نے مائکرو فونز اور دیگر آلات کے ذریعے نوزائیدہ بچوں کے گال سے نمونے لے کر ان میں قوتِ سماعت کی کمزوری کا پتہ لگایا اور ٹیسٹ کے نتائج محض چھبیس منٹ ہی سامنے آ گئے

مذکورہ طریقہ کار ابھی منظور شدہ نہیں ہے، لیکن ماہرین اس پر آزمائش کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس وقت ایک ٹیسٹ کٹ تقریباً سوا دو لاکھ روپے کی لاگت سے تیار ہو رہی ہے، تاہم امکان ہے کہ اگر طریقہ کامیاب ہوگیا تو ٹیسٹ کٹ کم قیمت میں بھی تیار کی جا سکے گی

مذکورہ ٹیسٹ کٹ کو ابھی برطانیہ کے محدود ہسپتالوں میں نوزائیدہ بچوں پر آزمایا جا رہا ہے اور اس کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن برآمد ہوئے ہیں، جنہیں ماہرین نے مستقبل میں بچوں کے لیے فائدہ مند قرار دیا ہے

مذکورہ طریقہِ کار کے تحت بچوں میں قوتِ سماعت کی کمزوری یا مسائل کا ٹھوس پتہ لگا کر انہیں ان کی بیماری یا مسئلے کی نوعیت کے حساب سے ادویات دی جا رہی ہیں

واضح رہے کہ اس سے قبل ڈاکٹرز ہر بچے کو قوتِ سماعت کے ہر مسئلے ہونے پر مختلف اینٹی بائیوٹک ادویات دے رہے تھے، جن کے منفی اثرات سے بعض بچے زندگی بھر کے لیے بہرے پن کا شکار ہو رہے تھے

نوزائیدہ اور کم عمر بچوں میں قوتِ سماعت یا کانوں میں درد کے مسائل عام ہوتے ہیں، تاہم بعض بچوں کے مرض کی درست تشخیص نہ ہونے سے وہ زندگی بھر کے لیے قوتِ سماعت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close