محمد اعظم گھانچی نے 2020ع کے آخر میں جب فلیٹس کے لیے ہاؤسنگ پراجیکٹ شروع کیا تو اس وقت سریے کی قیمت ایک لاکھ دس ہزار روپے فی ٹن تھی، جو فروری 2023ع کے وسط میں تین لاکھ روپے فی ٹن تک پہنچ چکی ہے
اعظم گھانچی اب پریشان ہیں کہ اپنے تعمیراتی پراجیکٹ پر اٹھنے والے اضافی اخراجات کیسے پورے کریں گے؟ گھر بنا کر چھت میسر کرنے والے اعظم گھانچی کہتے ہیں ”ہمارے تو پیروں تلے زمین نکل چکی ہے“
اعظم گھانچی ’ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز’ (آباد) کی ذیلی کمیٹی برائے افورڈ ایبل ہاؤسنگ کے رکن بھی ہیں۔ اس کمیٹی کا کام ملک میں ایسے رہائشی پراجیکٹس کی داغ بیل ڈالنا ہے، جو متوسط طبقے کے صارفین کی قوت خرید سے مطابقت رکھتے ہوں
اعظم گھانچی بتاتے ہیں ”ہم نے اسی سوچ کے پیش نظر اپنے رہائشی منصوبے کی بنیاد رکھی تھی۔ ہم نے چار سال کی مدت میں رہائشی منصوبہ مکمل کرنا تھا، جس کے لیے کراچی کی ایک مقامی سریا بنانے والی فیکٹری سے دو سال کا معاہدہ ہوا تھا، یعنی 2022ع تک کے سریے کی قیمت سمیت دیگر اخراجات کا تخمینہ لگا کر اور مستقبل میں مہنگائی کی شرح کا ایک تخمینہ لگا کر فلیٹس کی قیمت مقرر کر دی تھی۔ صارفین کو اسی قیمت پر فلیٹس ایڈوانس بکنگ کے ساتھ سیل بھی کر دیے تھے، لیکن اب سریے کی قیمت 2020ع کے مقابلے میں ایک لاکھ نوے ہزار روپے ٹن بڑھ چکی ہے۔ ہم اس قدر ہوش ربا اضافے کے لیے قطعی تیار نہیں تھے“
اعظم گھانچی کہتے ہیں ”ایسے رہائشی منصوبے جو سو فیصد سیل آؤٹ نہیں ہوئے، وہ تو نئے صارفین کے لیے اپنی قیمتوں میں رد و بدل کر کے نقصان پورا کر لیں گے، لیکن ہم جیسے صارفین جو سو فیصد یا زیادہ تر فلیٹس سَیل کر چکے ہیں، شاید اپنے پراجیکٹ مکمل بھی نہ کر پائیں“
اگر مرچنٹس کے مطابق 11 فروری 2023 تک کے سریے کے مارکیٹ ریٹس کی بات کی جائے تو اس وقت مارکیٹ میں سریے کا ایکس فیکٹری ریٹ (یعنی فیکٹری سے نکلنے کے بعد) تین لاکھ روپے سے تین لاکھ دس ہزار روپے فی ٹن ہے
اسی طرح اسلام آباد اور راولپنڈی کی مقامی مارکیٹوں میں سریے کی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے فی ٹن تک ہے
واضح رہے کہ سریے کی موجودہ قیمت میں کمی بیشی کا دارومدار سریے کی مقدار پر بھی منحصر ہے
پانچ مرلے کے گھر پر کتنا سریا لگتا ہے؟
یاد رہے کہ حال ہی میں زمین ڈاٹ کام نے گھروں کے تعمیراتی اخراجات کا تخمینہ لگانے کے لیے ایک کیلکولیٹر کا اجرا کیا ہے۔ اس کیلکولیٹرکے مطابق اسلام آباد میں پانچ مرلے کے ڈبل اسٹوری گھر کی تعمیر پر تقریباً تین ٹن سریا استعمال ہوتا ہے
موجودہ قیمت کے حساب سے اس کی کُل لاگت نو سے ساڑھے نو لاکھ روپے بنتی ہے، جبکہ اسی مقدار میں 2020ع کے آخر تک سریے کی قیمت تین لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ روپے تھی۔ یقیناً یہ ہوشربا فرق ہے
اسٹیل ملز کو درپیش مسائل
پاکستان میں سریے اور اسٹیل سے دیگر مصنوعات تیار کرنے کے لیے زیادہ تر خام مال برآمد کیا جاتا ہے
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کے مطابق پاکستان میں سٹیل کی سالانہ طلب تقریباً 73 لاکھ ٹن ہے جبکہ مقامی سطح پر صرف 38 لاکھ ٹن اسٹیل تیار کی جاتی ہے
اسٹیل اور اسے بنانے کے لیے خام مال برآمد کرنے والی کمپنیوں کو بینک کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ یا ایل سی کی ضرورت ہوتی ہے اور موجودہ حالات میں تقریباً تمام بینکوں کی جانب سے ایل سیز کا اجرا تعطل کا شکار ہے، جس کی وجہ سے اسٹیل ملز سریا اور تعمیراتی صنعت میں استعمال ہونے والی دیگر اسٹیل کی اشیا بنانے سے قاصر ہیں
یوں طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے سریے کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے
بلال سہیل صدیقی اسلام آباد میں سریا بنانے کے ایک کارخانے میں ڈائریکٹر آپریشنز ہیں۔ انہوں نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا ”بینکوں کی جانب سے ایل سیز کے اجرا نہ ہونے کی وجہ سے خام مال کی درآمد رک چکی ہے، جس کے نتیجے میں اسٹیل سے تیار ہونے والی مصنوعات کی بھی قلت ہو گئی ہے۔ اس سب کی وجہ سے سریے کی قیمت میں کئی مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے“
بلال سہیل نے مزید بتایا ”سریے کی قیمت میں اضافے سے تعمیراتی صنعت میں کام بھی رک چکا ہے کیونکہ چاہے نجی سیکٹر ہو یا سرکاری، وہاں کام کا دارومدار سریے کی دستیابی پر ہوتا ہے“
آل آئرن اسٹیل مرچنٹس ایسوسی ایشن کے پیٹرن اِن چیف طارق ارشاد کے مطابق موجودہ صورت حال میں ’80 فیصد کارخانوں میں کام بند ہو چکا ہے
طارق ارشاد کہتے ہیں ”یہ صورت حال اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک بینک ایل سیز جاری نہیں کرتے“
تعمیراتی شعبے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ”سریا بنانے اور خریدنے والوں میں ایک کھینچا تانی شروع ہو چکی ہے۔ سریا بنانے والے کارخانے نئی صورتحال کے مطابق قیمتوں کا تعین چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے تعمیراتی کمپنیوں نے پرانی ادائیگیاں بھی روک لی ہیں اور نئے آرڈرز بھی بک نہیں کروا رہیں“
اس ضمن میں انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب ادارے نے ایل سیز کے اجرا میں تعطل کے حوالے سے تین بڑے نجی بینکوں کے نمائندوں سے رابطہ کیا تو تینوں نجی بینکوں کے نمائندوں نے یہی موقف اختیار کیا کہ تحریری طور پر کوئی حکم نامہ یا نوٹس ایسا نہیں جو انہیں ایل سیز کے اجرا سے روک رہا ہو لیکن ملک کی مجموعی صورت حال کے پیش نظر ایسا کیا جا رہا ہے
واضح رہے کہ ایک بیان میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اکتوبر 2022 کے اوائل میں کہا تھا کہ صنعتوں اور کاروباری افراد کو 50 ہزار ڈالر تک کی ایل سیز کا اجرا ممکن بنایا جائے گا۔
لیکن بدقسمتی سے یہ بات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود ہے اور زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔