لہجے کی چاشنی، دل تک کیسے اترتی ہے اور مکالمے کا تاثر کیا ہوتا ہے، اس کا عملی اظہار دیکھنا ہو تو ضیا محی الدین سے بڑی علامت شاید ہی کوئی ہو
برصغیر پاک و ہند نے فنونِ لطیفہ کی قد آور شخصیات کو اپنی گود میں پروان چڑھایا، لکھاری، اداکار، شاعر، ہدایت کار، رقاص، مصور اور نہ جانے کیا کچھ۔ موسیقی کے میدان میں تو ایسی ایسی ہستیاں ہوئیں کہ شاید ہی دھرتی نے کہیں اور ایسے آسمان صفت لوگ دیکھے ہوں
ضیا محی الدین بلا مبالغہ وہ شخصیت تھے جنہوں نے صدا کاری کو ایک صنفِ سخن کے طور پر شناخت دی۔ اچھی صدا کاری اور آواز سے تاثر پیدا کرنے پر اختیار ایک صداکار کا امتیاز ہو سکتا ہے، ضیا البتہ ایسی شخصیت تھے کہ جن کا کام خود فنِ صدا کاری کے لیے باعثِ عزت قرار پایا
بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں کہ اردو زبان کا یہ صاف، پاٹ دار اور کھنکتا لہجہ ایک پنجابی کے گلے کا رس تھا
اردو کی اس نپی تلی، مرصع اور شفاف آواز کے مالک کی پیدائش پنجاب کے قصبے لائل پور میں 1931 میں ہوئی۔ یہ 20 جون کا گرم دن تھا۔ فیصل آباد میں اس خاندان کے قیام کو بھی ابھی طویل عرصہ نہیں ہوا تھا۔ یہ خاندان روہتک (موجودہ ہریانہ) کے پنجابی چاولہ خانوادے کا جز تھا۔ گھر کے اندر اور باہر ہر دو جگہ ضیا محی الدین کی سماعتوں نے پنجابی لہجے کو برتنا سیکھا
والد خادم محی الدین، ایک ڈراما نویس، موسیقار اور شاعر کے طور پر مختلف تھیئٹرز سے وابستہ تھے۔ گھر میں لفظ کے برتاؤ، آواز کے زیر و بم اور تلفظ نبھانے کا چلن دیکھا تو ضیا محی الدین نے بھی اسی راہ کو منزل کا ذریعہ قرار دیا
اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا کہ ایک شخص سٹیج پر کھڑا ہوا پرانی کتابوں میں پڑھے چلا جا رہا ہے اور اسے سننے کے لیے ہزاروں کا مجمع دم بخود بیٹھا ہوا ہے
1953سے 1956 تک انہوں نے رائل رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ سے تربیت حاصل کی۔ تھیئٹر میں کام کے آغاز سے ہی انہیں مشہورِ زمانہ پلے ’جولیس سیزر‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ جہاں سے انہیں لندن کے معروف ترین تھیٹر ویسٹ اینڈ نے منتخب کیا جہاں انہوں نے ناول A Passage to India پر بننے والے ڈرامے میں اداکاری و صدا کاری کے جوہر دکھائے
مگر شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں کہ ضیا محی الدین نے ہالی وڈ کی شاہکار فلم ’لارنس آف عریبیا‘ میں بھی بطور اداکار اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ انہوں نے لارنس کے صحرائی راہنما تَفَّس کا کردار ادا کیا۔ جسے غیر قبیلہ کے کنویں پر پانی پینے کے جرم میں قتل کر دیا جاتا ہے
ان کی قابلِ ذکر فلموں کی تعداد ڈیڑھ درجن کے قریب ہے
60 کی دہائی کے آخری سال میں ضیا محی الدین نے پی ٹی وی سے ایک پروگرام ’ضیا محی الدین شو‘ کا آغاز کیا۔ یہ پروگرام علم، ادب اور فنونِ لطیفہ میں اوجِ کمال حاصل کرنے والے افراد کا ایک سنجیدہ اور باکمال تعارف بنا
70 کی دہائی میں انہوں بے برطانیہ کا رخ کیا اور چار سال تک مرکزی ٹیلی وژن سے ہفتہ وار پروگرام ’ہیئر اینڈ ناؤ‘ کی میزبانی کی
انگریزی زبان پر دسترس اور اس کی مختلف اصنافِ سخن میں پرفارمنس نے ضیا محی الدین کو آواز کے زیر و بم پر عبور و ملکہ عطا کیا۔ اتفاق سے آواز کے اتار چڑھاؤ سے گفتگو میں تاثر کی صفت انگریزی اور اردو زبان کی قدرِ مشترک ہے۔ لہٰذا اس دسترس کے اظہار کے لیے انہوں نے اردو کی تمام اصنافِ سخن کو برتا
اردو شاعری کو برتنے کا آہنگ کیا ہونا چاہیے، اس کا معیار انہی کی پڑھنت نے طے کیا۔ مگر ان کا خاص میدان نثر پاروں کو اپنی آواز سے زندہ و جاوید بنانا تھا
اعلیٰ اردو ادب کو عوام میں روشناس کروانے میں اہم کردار۔ اسد محمد خان، میرا جی، ن م راشد، ابنِ انشا، رشید احمد صدیقی، مرزا فرحت بیگ اور ان جیسے متعدد دوسرے ادیبوں کو اپنی بےمثال قرات کی مدد سے کتاب کے بےجان صفحوں سے نکال کر ان میں جان ڈال دی
ان کا تلفظ، ادائیگی اور اسلوب اپنی مثال آپ ہیں۔ اردو سیکھنے والوں کے ادارے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی پاٹ دار آواز، کھرج، ٹھہراؤ اور ادائیگی اس صنف کے لیے خاص طور پر موزوں تھی۔ آواز کے زیر و بم سے تاثر پیدا کرنے والے صدا کار تو اور بھی ہوئے جن میں طلعت حسین، فردوس جمال، طارق عزیز اور کمال احمد رضوی جیسے فنکار شامل ہیں، مگر سکوت سے تاثر پیدا کرنا فقط ضیا محی الدین کا میدان رہا
وہ پڑھنت کے دوران نہ صرف اپنی آواز کے لمس کا جادو پیدا کرتے، بلکہ تحریر کی مناسبت سے سکوت سے بھی ایک تاثر اجاگر کرتے، پڑھنے کی روانی میں کہا رکنا ہے اور سانس بھر کو یا طویل دورانیے کے وقفے کو کہاں کس احساس کے اجاگر کرنے کے کیے استعمال کرنا ہے یہ ان کا ہی حصہ تھا۔ ان کا سکتہ کبھی مزاح کہیں گھمبیرتا، حیرت اور طنز کا تاثر اجاگر کرتا تھا
بقول محسن نقوی:
گم صم ہوا آواز کا دریا تھا جو اک شخص،
آواز کا رس، کیسے ذائقے کا لبھاؤ رکھتا ہے
ضیا محی الدین نے ادبی نثر پاروں میں کلاسیکی طرز کی تحریروں، طنزو مزاح، افسانے، ڈائیلاگ، ڈرامہ اور مونولاگ ہر میدان میں اپنی فتح کا اعلان کیا
پاکستان ٹیلی وژن کی چند شاہکار دستاویزی فلموں میں ان کی آواز نے طلسم گری کی۔ دستاویزی فلموں کے لیے ان جیسی آواز شاید دوبارہ دستیاب نہ ہو سکے
انہوں نے دنیا بھر میں سفر کیا اور سامعین کو اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے مسحور کیا۔ وہ بلاشبہ اردو نظم و نثر کے بلا شرکتِ غیر عظیم صداکار اور اردو کی نمائندہ آواز تھے
آواز کے اس دریا نے آج سکوت کے مکمل تاثر کو اپنا لیا۔ خاموشی سے تاثر پیدا کرنے پر بھی تو ان ہی کی دسترس تھی۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)