ترکیہ اور شام میں تباہ کن زلزلے کو آئے ایک ہفتہ گزر گیا ہے۔ اس زلزلے میں جہاں تینتیس ہزار افراد کی اندوہناک اموات نے دنیا بھر میں اداسی کی کیفیت کو جنم دیا ہے، وہیں اس اداسی اور مایوسی کے لمحات میں چند ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جو کسی معجزے سے کم نہیں۔ ایسی ہی دل چھو لینے والی ایک کہانی نیکلا کموز اور ان کے نومولود بیٹے یاگیز کی بھی ہے
ترکیہ کے جنوبی صوبے ہاتائے کی رہائشی نیکلا کاموز کے ہاں 27 جنوری کو دوسرے بیٹے کہ پیدائش ہوئی اور انہوں نے اس کا نام یاگیز رکھا، یعنی ’بہادر‘
اس رات تینتیس سالہ نیکلا کاموز گھر میں اپنے دس دن کے بیٹے یاگیز کو دودھ پلا رہی تھیں، جب مقامی وقت کے مطابق چار بج کر سترہ منٹ پر زلزلہ آیا اور چند لمحوں کے اندر دونوں ماں بیٹے ملبے کے ڈھیر تلے دب گئے
نیکلا اور ان کا خاندان سویدیہ کے علاقے میں واقع ایک جدید پانچ منزلہ عمارت کی دوسری منزل پر رہتے تھے
نیکلا کہتی ہیں ”وہ ایک اچھی عمارت تھی اور ہم خود کو وہاں بہت محفوظ سمجھتے تھے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ علاقہ زلزلے سے اس قدر متاثر ہوگا کہ جہاں ہر موڑ پر موجود لوگوں سے بھری عمارتیں تباہ اور برباد ہو جائیں گی“
وہ بتاتی ہیں ”جب زلزلے کے جھٹکے شروع ہوئے تو میں دوسرے کمرے میں موجود اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی تھی اور وہ بھی یہی چاہتے تھے۔۔ لیکن جب انہوں نے ہمارے دوسرے بیٹے کے ساتھ میرے پاس آنے کی کوشش کی تو الماری ان پر گر گئی اور ان کے لیے حرکت کرنا ممکن نہ رہا۔۔ زلزلے کے جھٹکے شدید ہوتے گئے، یہاں تک کے ہماری دیوار گر گئی، اس وقت کمرہ لرز رہا تھا اور عمارت بھی اپنی جگہ سے ہل چکی تھی۔ جب عمارت لرزنا بند ہوئی تو مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ میں ایک منزل سے نیچے گر گئی ہوں۔ میں نے اپنے شوہر کا نام پکارا لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا“
چند لمحوں بعد نیکلا نے اپنے ننھے بچے کو اپنے سینے پر لیٹا پایا جو اس تمام عرصے میں اب بھی ان کی بازوؤں کے حصار میں موجود تھا۔ زلزلے کے جھٹکوں سے گرنے والی الماری کنکریٹ کے ایک بڑے سلیب کو ان دونوں پر گرنے سے روکنے میں حائل رہی اور وہ کچلنے سے محفوظ رہے
یہ دونوں ماں بیٹے ملبے کے ڈھیر میں تقریباً چار دن تک اسی حالت میں رہے
ملبے کے ڈھیر کے نیچے دبی نیکلا کو اپنے آس پاس گھپ اندھیرے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس لیے انہیں اپنے اردگرد کے ماحول سے متعلق جاننے کے لیے اپنے دیگر حواس پر انحصار کرنا پڑا
ان کے اطمینان کے لیے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ان کا نومولود بیٹا یاگیز ابھی تک سانس لے رہا تھا
دھول اور مٹی کی وجہ سے انہیں پہلے تو سانس لینے میں سخت مشکل پیش آئی لیکن وہ ملبے میں دبے ہونے کی وجہ سے سردی سے محفوظ تھیں۔۔ ان مشکل اور مایوسی کے لمحات میں انہوں نے خود کو تسلی دی کہ سب جلدی ٹھیک ہو جائے گا
نیکلا کو لگا جیسے ان کے نیچے بچوں کے کھلونے دبے ہوئے ہیں، لیکن وہ اسے چیک کرنے یا خود کو زیادہ آرام دہ پوزیشن میں لانے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کر سکتی تھیں
الماری کے علاوہ نیکلا اپنے نوزائیدہ بیٹے کی ملائم جلد اور پہنے گئے کپڑوں کے لمس کے علاوہ جو محسوس کر پا رہی تھیں، وہ کنکریٹ اور ملبے کا چبھتا ہوا ڈھیر تھا
انہیں دور سے کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ نیکلا نے مدد کے لیے چیخنے کی کوشش کی اور الماری پر ہاتھ مارنے شروع کیے اور زور سے پکارا ’کوئی ہے، کیا کوئی مجھے سن سکتا ہے۔۔۔؟‘
جب ان کی یہ کوششیں کام نہ آئیں تو انہوں نے اپنے آس پاس بکھرے ملبے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو اٹھایا اور ان کو الماری پر مارنے لگیں کہ شاید اس کی نسبتاً تیز آواز سے کوئی متوجہ ہو تاہم اس دوران وہ ڈر رہی تھیں کہ الماری ان کے اوپر گر نہ جائے لیکن ان کی ان آوازوں کا کہیں سے جواب نہ آیا
تبھی نیکلا کو لگا کہ شاید ان کی جانب کوئی بھی نہیں آئے گا۔ وہ بتاتی ہیں ”میں بہت گھبرا گئی تھی“
ملبے کے نیچے گھپ اندھیرے میں نیکلا نے سب سے پہلے وقت گزرنے کا احساس کھو دیا اور ساتھ ہی انہیں ان گنت اندیشوں نے گھیر لیا
”جب ننھا بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اپنی زندگی کے لیے بہت سی نئی چیزوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر ایک دن اچانک آپ ملبے کے نیچے دب جاتے ہیں“
ان تمام خدشات کے باوجود نیکلا جانتی تھیں کہ انہیں اپنے بیٹے یاگیز کی دیکھ بھال کرنی ہے۔ اس چھوٹی سی جگہ میں وہ اسے دودھ پلانے کے قابل ضرور تھیں تاہم ان کے اپنے لیے نہ پانی تھا نہ خوراک، جس سے وہ اپنی توانائی بحال رکھ پاتیں
مایوسی کے اس عالم میں انہوں نے اپنی چھاتی کا دودھ خود پینے کی بھی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہیں
نیکلا گھپ اندھیرے میں اوپر سے ڈرل مشینوں کی گڑگڑاہٹ کو محسوس کر رہی تھیں۔ ساتھ ہی انہیں بھاگتے قدموں کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں، لیکن وہ آوازیں مدہم تھیں۔ انہوں نے اس وقت تک اپنی توانائی بچانے اور خاموش رہنے کا فیصلہ کیا جب تک کہ باہر سے سنائی دینے والی آوازیں قریب نہ آ جائیں
نیکلا کا ایک بچہ ان کے سینے پر تھا جبکہ ان کے شوہر اور بڑا بیٹا ان سے کہیں دور ملبے میں دبے تھے۔ ان لمحات میں وہ مسلسل اپنے خاندان کے بارے میں سوچ رہیں تھیں۔ یہ سوچ سوچ کر ان کا دل دہلا جا رہا تھا کہ نہ جانے زلزلے میں ان کے پیاروں کا کیا حال ہوا ہوگا۔۔
نیکلا نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ اسے ملبے سے نکل پائیں گی تاہم یاگیز کی موجودگی ان کے لیے امید کی کرن تھی
دس روز کا یاگیز زیادہ وقت سوتا رہتا تھا اور جب وہ جاگ کر روتا تو وہ خاموشی سے اسے دودھ پلا دیتیں، یہاں تک کہ وہ چپ ہو جاتا
نیکلا کہتی ہیں ”مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ زلزلہ آیا تو میرا بیٹا دس دن کا تھا“
نیکلا کو ملبے کے ڈھیر میں انتہائی کٹھن لمحات پر مبنی نوے گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا، جب ان کے کانوں میں کتوں کے بھونکنے کی آواز آئی۔ پہلے تو اسے لگا کہ شاید وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہیں لیکن پھر کتوں کے بھونکنے کے دوران ان کے کانوں میں لوگوں کے بات کرنے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں اور انہوں نے کسی کے سوال سنے
”آپ ٹھیک ہیں؟ ہاں کے لیے ایک بار دستک دیں۔“ ایک اور آواز سنائی دی ”آپ کس اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں؟“
آخرکار وہ لمحہ آ گیا تھا، جس کے لیے نیکلا نے اپنے دس دن کے بیٹے اور ان گنت خدشات کے ساتھ ملبے تلے دبے پورے چار دن گزارے تھے
ان کو تلاش کر لیا گیا تھا۔ امدادی کارکنوں نے انہیں ریسکیو کرنے کے لیے احتیاط سے ملبہ ہٹانے کا کام شروع کیا یہاں تک کہ ٹارچ کی روشنی نے اندھیروں کو توڑ ڈالا۔۔ یہ شاید مایوسی کے گھپ اندھیرے کے بعد امید کی روشنی بھی تھی
جب استنبول میونسپلٹی فائر ڈپارٹمنٹ کی ریسکیو ٹیم نے سوال کیا کہ ان کے بیٹے یاگیز کی عمر کتنی ہے تو وقت کے احساس سے عاری نیکلا بے یقینی کا شکار تھیں ’”میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ جب زلزلہ آیا تو میرا بیٹا دس دن کا تھا“
یاگیز کو امدادی کارکنوں کے حوالے کرنے کے بعد نیکلا کو اسٹریچر پر منتقل کر کے باہر نکالا گیا، جہاں ان کے سامنے ایک بڑا ہجوم موجود تھا تاہم وہ کسی چہرے کو پہچان نہیں پا رہی تھیں
انہیں ایمبولینس میں منتقل کیا گیا تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا دوسرا تین سالہ بیٹا یگت کریم بھی بچ گیا ہے اور جب نیکلا ہسپتال سے فارغ ہوئیں تو انہیں ان کے شوہر عرفان کو بچائے جانے کی خوشخبری بھی دی گئی۔ تاہم ان کی ٹانگوں اور پیروں پر شدید چوٹیں آئی تھیں اور علاج کے لیے ان کو کئی گھنٹوں کی مسافت پر واقع ترکی کے دوسرے صوبے اڈانا کے ایک ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا
نیکلا بالآخر اپنے شوہر عرفان اور تین سالہ بیٹے یگت کریم کے ساتھ ملاقات کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں
نیکلا اور یاگیز معجزانہ طور پر شدید جسمانی چوٹ سے محفوظ رہے تھے اور انہیں طبی امداد کے لیے صرف چوبیس گھنٹے تک ہسپتال میں رکھا گیا تھا
نیکلا کے پاس ہسپتال سے نکل کر جانے کے لیے اب اپنا گھر نہیں تھا، تاہم ان کے ایک رشتہ دار انہیں لکڑی اور ترپال سے بنائے گئے عارضی نیلے خیمے میں لے گئے
ان خیموں میں مزید تیرہ متاثرین موجود ہیں اور یہ سب اپنے گھر کھو چکے ہیں
کیمپ میں موجود یہ تمام لوگ ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، ایک چھوٹے سے چولہے پر کافی بناتے ہیں، وقت گزاری کے لیے شطرنج کھیلتے ہیں اور اپنے دکھ سکھ ایک دوسرے کو سناتے ہیں
نیکلا کے ساتھ جو کچھ بیتی اب وہ ذہنی طور سے اس سے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”اپنی جان بچانے کے لیے اپنے بیٹے یاگیز کی مقروض ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر میرا بچہ اتنا بہادر نہ ہوتا تو شاید میں اس قدر مضبوط نہ ہو پاتی“
اب نیکلا کا ایک ہی خواب ہے کہ جو کچھ بیتا اب ایسا دوبارہ کبھی نہ ہو۔ ”میں بہت خوش ہوں کہ میرا بیٹا اتنا چھوٹا ہے کہ یہ بھیانک خواب جیسا وقت اسے یاد نہیں رہے گا“
نیکلا کو اپنی آپ بیتی سنانے کے دوران فون پر ایک کال آتی ہے تو وہ بے ساختہ مسکراتی ہیں
دوسری جانب فون پر ہسپتال کے بستر سے ان کے شوہر عرفان اور تین سالہ بیٹا یگت کریم مسکراتے اور ہاتھ لہراتے دکھائی دے رہے ہیں
عرفان موبائل اسکرین کے ذریعے اپنے ننھے بچے سے پوچھ رہے ہیں۔”ہیلو جنگجو، کیسا ہے میرا بہادر بیٹا؟“