ٹیکسٹ میسج بھیجنے والے ان تین گروہوں سے محتاط رہیں

مدثر مہدی

ٹیکنالوجی نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اس ٹیکنالوجی کے سیلاب میں سب سے تیز اور بھاری لہر موبائل فون کی تھی۔ موبائل فون نے دنیا میں رہ کر ایک الگ ہی دنیا قائم کرلی اور اب موبائل کے بغیر دنیا کا تصور بہت عجیب اور ادھورا لگتا ہے۔ اسی طرح موبائل کے اندر بھی طرح طرح کی دنیا آباد ہے۔ موبائل فون میں ایک تو کیمرے کی دنیا ہے، ایک انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی دنیا ہے، اور ایک میسج اور کالز کی دنیا ہے

موبائل فون کے ابتدائی زمانے میں اس کا مرکزی استعمال کالز اور میسج تھا۔ یعنی اس کی ایجاد کی بنیاد فوری طور پر رابطے کا تھا۔ لیکن پھر اس میں کیمرے کا اضافہ ہوا اور پھر انٹرنیٹ کی دنیا اس موبائل کی دنیا کو الگ ہی نہج پر لے گیا۔ اور پھر فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام اور واٹس اپ کی دنیاؤں نے الگ ہی تہلکہ مچا دیا

ویسے تو موبائل میں موجود ان طرح طرح کی دنیاؤں کا استعمال بہت مثبت بھی ہو رہا ہے مگر پاکستان میں ان کا استعمال بہت ہی بے ڈھنگے انداز میں ہوتا ہے۔ کیمرے اور انٹرنیٹ سے ہٹ کر میسج اور کالز کی دنیا پر بات کریں تو اتنی چیزیں اور اتنی باتیں ہے کہ سر چکرا جاتا ہے۔ کالز میں کیونکہ زیادہ پیسے لگتے تھے اس وجہ سے میسج کی طرف زیادہ دھیان گیا اور پھر میسج پیکجز کا زمانہ آیا جس نے تفصیل سے وقت کو برباد کیا اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کے واٹس اپ آ گیا اور پھر میسجز کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا

اس میسج کی دنیا میں تین طرح کے گروہوں پیدا ہوئے اور پھر ان گروہوں نے تحریک میسج کو کونے کونے تک پہچانے کا حلف خود سے لے لیا۔ ان گروہوں کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں اور عمروں سے تھا۔ ہم سب کا تعلق بھی کسی نہ کسی گروہ سے جڑ جاتا ہے اور ہمارے واٹس اپ پر ان تمام گروہوں کے لوگ موجود ہوتے ہیں

ان سب میں سب سے پہلا گروہ وہ ہوتا ہے، جس نے ہر میسج کو فارورڈ کرنا اپنا اخلاقی و قومی فرض سمجھ لیا ہوتا ہے۔ وہ میسج کو فارورڈ کرتے ہیں بغیر یہ جانیں کہ اس میسج کی حقیقت کیا ہے؟ اور اس سے معاشرے میں کیا مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ افواہ پھیلانے کے آلہ کار ہوتے ہیں اور یہ ذمہ داری ان کی خود ساختہ ہوتی ہے

ان کا موبائل پر زیادہ تر وقت میسج فارورڈ کرنے میں گزرتا ہے اور ہاں جب ان کے فارورڈ میسج کی حقیقت پر سوال اٹھایا جائے تو ہم پر ایسے برس پڑتے ہیں کہ ہمیں خود پر شک ہونے لگتے ہیں۔ اور ہاں اس سلسلے کے عظیم لوگ وہ ہوتے ہیں، جو عید مبارک کے فارورڈ میسج کرتے وقت بھیجنے والے کا نام بھی نہیں مٹاتے اور من و عن اپنے نام کے بجائے بھیجنے والے کے نام کے ساتھ بھیج دیتے ہیں

اس سلسلے کا دوسرا طبقہ وہ ہے، جو گڈ مارننگ، گڈ ایوننگ اور گڈ نائٹ کا میسج کر کے سکون حاصل کرتے ہیں۔ ان کی اپنی مرضی کی مارننگ ہوتیں ہے اور اپنی مرضی کی نائٹ، یہ رات دو بجے گڈ مارننگ میسج کرنا کا حق رکھتے ہیں اور صبح پانچ بجے گڈ نائٹ کرنے کا بھی۔ یہ ایک فارورڈ میسج سیلیکٹ کرتے ہیں اور پھر کونٹیکٹ میں موجود ایک ایک نمبر کو ایمانداری کے ساتھ میسج کرتے ہیں۔ ان میں سے کافی لوگ اس وجہ سے ان کو بلاک کر چکے ہیں مگر اس کے باوجود وہ باز نہیں آتے اور ہاں ان کو کوئی ریپلائی بھی نہیں دیتا مگر یہ اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں

تیسرا گروہ ہوتا ہے، جو شارٹ میسج کرتا ہے یا پھر پانچ پانچ منٹ کے طویل آڈیو میسج کرتا ہے۔ بھائی اتنے لمبے آڈیو بھیجنے ہیں تو کال زیادہ بہتر آپشن ہے اور جو بات چالیس پچاس سیکنڈز کی تھی وہ پانچ منٹ میں بدل جاتی ہے۔ اسی طرح میسج کے جواب میں ’اوکے‘ کے بجائے ’کے‘ لکھنے والے، اور سوال کے جواب میں ’ہممم‘ لکھنے والے بھی عجب ہی ہوتے ہیں۔ ہاں اگر جواب نہیں معلوم تو رپلائی ہی نہ کرو۔ ہاں یہ ’کے‘ اور ’ہممم‘ والی صورتحال دو محبوب کے درمیان لڑائی کے کوڈ ورڈ ضرور ہیں مگر عام لوگوں پر یہ ریت جچتی نہیں ہے

یہ ہیں میسج گروہوں کے تین طبقے، جو ہمارے آس پاس ہی رہتے ہیں۔ اور ہاں اگر آپ کا تعلق بھی ان گروہوں سے ہے تو اپنا طور طریقہ بدلے کیونکہ یہ والا سلسلہ سمجھ نہیں آتا اور پھر لوگ بھی آپ سے اکتا جاتے ہیں۔ ہاں البتہ اگر آپ تیسرے والے گروہ کے "کے” اور ہممم والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر یہ آپ کی مجبوری ہے۔

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close