رحیم زہری کی مبینہ جبری گمشدگی: ’قرآن سامنے رکھنے کے باوجود انہوں نے مار مار کر بے ہوش کر دیا“ والدہ

ویب ڈیسک

3 فروری کو بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی پینسٹھ سالہ بی بی بس خاتون، ان کے بیٹے، بہو اور دو پوتوں کو کوئٹہ میں ان کے گھر سے مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا

انہیں اور ان کے دو پوتوں کو دو روز رہائی ملی جبکہ بہو کو منگل کے روز چھوڑ دیا گیا۔ تاہم ان کا بیٹا محمد رحیم زہری تاحال لاپتہ ہے

رحیم زہری کی بازیابی اور مبینہ جبری گمشدگی کے اس واقعے کے خلاف منگل کو کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا

جب ایک روز اچانک کچھ افراد بی بی بس خاتون کے گھر داخل ہوگئے اور ان سمیت خاندان کے پانچ افراد کو ساتھ لے جانے لگے تو انھوں نے ’ان کے سامنے قرآن پیش کیا لیکن انھوں نے میرے سر پر تین مرتبہ مارا جس کے باعث میں زمین پر گر گئی اور بے ہوش ہوگئی۔ انھوں نے مجھے کھنیچ کر ایک گاڑی میں ڈال دیا۔‘

یہ واقعہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی زیر بحث آیا، جہاں بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو کا کہنا تھا ”حکومتی اداروں نے کہا ہے انہیں اس واقعے کے بارے میں معلوم نہیں ہے“

خضدار کے محمد رحیم زہری دو بچوں کے باپ ہیں، جن میں ایک ڈیڑھ سالہ بچی اور چار سالہ بیٹا شامل ہیں

ان کے سسر عبدالغفار زہری نے بتایا کہ شادی کے بعد رحیم زہری اپنی اہلیہ کے ہمراہ وندر آئے، جہاں انہوں نے انہیں دکان کھول کر دی

ان کا کہنا تھا کہ وہاں ان کا کام نہیں چلا جس کے بعد وہ واپس خضدار میں اپنے آبائی علاقے زہری چلے گئے۔ پھر دو ماہ قبل اپنی والدہ اور بچوں کے ہمراہ دوبارہ کوئٹہ آئے اور یہاں کرائے پر گھر لیا۔ یہاں گزر بسر کے لیے رحیم زہری نے ایک ریڑھی لی تھی، جس پر وہ سبزی فروخت کرنے لگے

بی بی بس خاتون کے مطابق ”3 فروری کی شب رحیم زہری اپنی بیوی کو ہسپتال چیک اپ کے لیے لے گئے تھے اور ان کی عدم موجودگی میں سریاب کے علاقے کلی گشکوری میں ہمارے گھر پر دستک ہوئی۔ میں نے جب دروازہ کھولا تو کئی لوگ ایک ساتھ گھر کے اندر داخل ہوئے جس کے باعث میں خوفزدہ ہو گئی۔ ان میں سے بعض لوگ وردی میں ملبوس تھے اور گھر میں داخل ہوتے ہی انھوں نے گھر کی تلاشی شروع کر دی“

بی بی بس خاتون نے بتایا ”ہم انہیں کہتے رہے کہ ہم غریب لوگ ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لیکن انہوں نے تلاشی لینے کا سلسلہ جاری رکھا اور میرے بیٹے اور بہو کے بارے میں پوچھتے رہے“

انہوں نے بتایا ”میرا بیٹا اور بہو گھر پر نہیں تھے جس کی وجہ سے گھر آنے والے لوگوں نے ان کا انتظار کیا۔ جب میرا بیٹا اور بہو آئے تو وہ ہم سب کو لے جانے لگے۔ میں نے گھر سے قرآن اُٹھا کر ان کے سامنے پیش کیا کہ ہمیں چھوڑ دیا جائے اور مارا نہ جائے۔ ان میں سے ایک نے تین مرتبہ میرے سر پر اپنا ہاتھ زور سے مارا جس کے باعث میں سنبھل نہیں سکی اور گر گئی۔ انہوں نے میرے بیٹے بہو اور پوتوں کو گاڑیوں میں بٹھا لیا اور مجھے بھی کھینچ کر ایک گاڑی میں ڈال دیا“

بی بی بس خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں یہ معلوم نہیں کہ انہیں کہاں لے جایا گیا لیکن اندازاً پونے گھنٹے یا گھنٹے کے بعد انہیں ایک جگہ اتار دیا گیا

انہوں نے بتایا کہ انہیں اور ان کے دونوں پوتوں کو ایک کمرے میں رکھا گیا جبکہ بیٹے اور بہو کے بارے میں معلوم نہیں کہ ان کو وہ کہاں لے گئے

ان کے مطابق ”وہاں ہمیں مارا پیٹا نہیں گیا بلکہ مجھ سے پوچھا جاتا رہا کہ آپ لوگوں کا کاروبار کیا ہے؟ میں نے ان کو بتایا کہ ہم تو غریب لوگ ہیں۔ زہری میں گزارا نہ ہونے کے باعث ہم لوگ کوئٹہ آئے اور یہاں میرے بیٹے نے ایک ریڑھی لگا کر سبزی بیچنا شروع کی“

بی بی بس خاتون نے کہا ”دو روز بعد مجھے اور میرے پوتوں کو چھوڑ دیا گیا اور اب اس مظاہرے کے دوران یہ معلوم ہوا کہ میری بہو رشیدہ زہری کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے“

رشیدہ زہری کے والد بھی اپنے داماد اور بیٹی کی بازیابی کے لیے ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شریک تھے۔ ان کا کہنا تھا ”مظاہرے سے پہلے مجھے فون آیا کہ ایئر پورٹ روڈ سے آ کر اپنی بیٹی کو لے جائیں۔ جس شخص نے مجھے فون کیا اس نے یہ بھی بتایا کہ اکیلے آنا اور کسی اور ساتھ کو نہیں لانا۔ میں جب ایئرپورٹ روڈ پر نادرا آفس کے قریب رکشے سے اترا تو میری بیٹی وہاں تنہا کھڑی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر رونے لگی۔ وہاں سے میں نے بیٹی کو رکشے میں بٹھا کر گھر پہنچایا اور پھر مظاہرے میں شرکت کے لیے آیا۔ رشیدہ نے بتایا کہ انہیں الگ رکھا گیا لیکن ان پر تشدد نہیں کیا گیا۔ وہ بہت زیادہ خوفزدہ تھیں“

عبدالغفار زہری کا مزید کہنا تھا ”بیٹی نے مجھے منع کیا کہ میں مظاہرے میں شرکت کے لیے نہ جاﺅں کیونکہ ان کو خوف تھا کہ ان کو کہیں دوبارہ نہ اٹھایا جائے۔ میں نے بیٹی کو بتایا کہ ہم نے لوگوں کو مظاہرے میں شرکت کی درخواست کی ہے۔ لوگ ہمارے ساتھ یکجہتی کے لیے آئیں گے تو پھر ہم کیسے نہ جائیں“

انہوں نے کہا کہ ان کے نواسوں میں سے بچی کی عمر ڈیڑھ سال ہے اور ماں کی گمشدگی کی وجہ سے دودھ نہ ملنے کے باعث وہ روتی رہی ہے

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ رحیم زہری اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی جبری گمشدگی کا مقدمہ درج کرانے وہ سریاب پولیس تھانہ گئے ’مقدمے کے اندراج کے لیے رحیم زہری کی والدہ بس خاتون کے علاوہ ان کا چار سالہ بیٹا اور بیٹی بھی ساتھ تھے۔ جب رحیم زہری کے بیٹے نے تھانے میں پولیس والوں کو دیکھا تو رونے لگا اور یہ کہنے لگا کہ انھیں یہ لوگ دوبارہ اٹھا کر لے جائیں گے۔‘

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ انھوں نے رحیم زہری کی والدہ کی جانب سے ان کی جبری گمشدگی کی درخواست دی ہے لیکن تاحال پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا ہے

وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے زیر اہتمام رحیم زہری اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا

مظاہرے میں بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کے رہنماﺅں اور کارکنوں کے علاوہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے شرکت کی

مظاہرے کے شرکا نے رحیم زہری سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے خلاف کوئی الزام ہے تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے

ادھر بلوچستان کے ضلع کیچ میں ایک طالب علم زمان بلوچ کی بھی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف دو روز تک ہوشاپ کے علاقے میں سی پیک روٹ پر احتجاج کیا گیا

رحیم زہری اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی جبری گمشدگی کے واقعے کے حوالے سے سرکاری حکام کا موقف جاننے کے لیے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو سے میں نے متعدد بار رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ تاہم یہ واقعہ پیر کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی زیر بحث آیا تھا

اس واقعے کے خلاف اسمبلی میں حزب اختلاف کے اراکین کے احتجاج پر وزیر داخلہ نے کہا کہ جب انھیں سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں پتہ چلا تو انھوں نے فوری طور پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ سے رابطہ کیا

انھوں نے کہا ’جن جن حکومتی اداروں کا یہ نام لے رہے ہیں وہاں سے پتہ کیا گیا اور وہاں سے جو رپورٹ آئی اس کے مطابق ان اداروں کو اس واقعے کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے‘

وزیر داخلہ نے کہا کہ بلوچستان ہائیکورٹ کی ہدایت پر لاپتہ افراد سے متعلق ایک پارلیمانی کمیشن بنایا گیا ہے جو کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کر رہا ہے

ان کا کہنا تھا کہ متعدد لاپتہ افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو بھی پہنچ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن میں حزب اختلاف کے اراکین بھی شامل ہیں اور کمیشن کے جو بھی اراکین ہیں ان سب کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں تعاون کریں۔

رکن بلوچستان اسمبلی ثناءاللہ بلوچ نے رحیم زہری اور ان کی اہلیہ کی مبینہ جبری گمشدگی کے حوالے سے اجلاس کے دوران کہا ”میاں بیوی کوئٹہ سے تین روز تک لاپتہ ہیں۔ بیس سال سے لوگ لاپتہ کیے جا رہے ہیں تو کیا بلوچستان کے مسائل ختم ہوئے؟ جو بھی یہ پالیسیاں جاری رکھ رہا ہے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس ملک کو جنگل کے قانون کے تحت نہیں چلایا جاسکتا۔ ڈالے والوں کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ریاست تحفظ کا نام ہوتا ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close