’خودکش‘ خلائی مشن پر جانے والی کتیا لائیکا کی کہانی

ویب ڈیسک

یہ پچاس کی دہائی کی بات ہے، جب روس اور امریکہ کے مابین پہلا انسان بردار خلائی مشن خلا میں بھیجنے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی تھی

یہ وہ دور تھا، جب سائنسدان اور فزیشن ابھی اس بات سے لاعلم تھے کہ خلا میں انسانی صحت پر کیسے مضر اثرات مرتب ہوں گے اور کیا خلاباز کی زندہ واپسی ممکن ہوگی؟

3 نومبر 1957ع کو ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے روس نے سپوتنک-ٹُو خلائی گاڑی کے ساتھ ایک کتے کو پہلی دفعہ زمین کے گرد مدار میں بھیجنے کا فیصلہ کیا، جس کا نام ’لائیکا‘ تھا

سپوتنک ٹُو ڈیزائن کرنے والے انجینیئرز کے مطابق مشن کو مناسب تحقیق کے بغیر سپوتنک ون سے حاصل ہونے والی معلومات اور ڈیٹا کے ساتھ کافی جلدی میں لانچ کیا گیا تاکہ سات نومبر 1957 کو روس کے عظیم باشیوک انقلاب کی چالیسویں سالگرہ مشن کی کامیابی کے ساتھ دھوم دھام سے منائی جا سکے

یہاں یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ لائیکا خلا میں بھیجا جانے والا پہلا جانور نہیں تھی، اس سے پہلے ایک درجن سے زائد کتے خلا میں بھیجے گئے تھے لیکن ان کی پہنچ زمین کے مدار کے اندر (سب آربیٹل) تھی۔ ماہرینِ حیوانات نے بندر یا بلی کے انتخاب کا بھی مشورہ دیا تھا مگر روسی سائنسدانوں نے ان پر کتوں کو ترجیح دی

اُن کا خیال تھا کہ اِنہیں خلائی سفر کی تربیت بہتر انداز میں دی جا سکتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد انجینیئرز نے انتہائی تیزی کے ساتھ کام کرتے ہوئے سپوتنک ٹو خلائی گاڑی میں زیادہ دباؤ والا ایک خاص خانہ (کمپارٹمنٹ) تیار کیا

لائیکا کے انتخاب کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ روسی خلائی ادارے کے ماہرین نے سپوتنک ٹو کے لیے پالتو جانور کی بجائے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے کتوں کی تلاش شروع کی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ جانور زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور سختیوں کو جھیلنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں

اس تلاش میں نر پر مادہ کتوں کو ترجیح دی گئی، کیونکہ یہ ناصرف جسامت میں چھوٹی ہوتی ہیں بلکہ انہیں باآسانی تربیت دی جا سکتی ہے۔ دس آوارہ گرد کتوں کو کئی ہفتوں کو زیادہ دباؤ والے چھوٹے خانوں یا کیپسول میں رکھا گیا، جہاں ان کا دن میں کئی بار طبی معائنہ کیا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی بلند دباؤ اور شور پر ان کتوں کا ردِ عمل بھی نوٹ کیا جاتا، جس کے لیے ان کے پیٹ اور ٹانگوں کے درمیان حساس آلات نصب کیے گئے تھے

کئی ہفتوں کے تجزیے کے بعد ان میں سے دو کتوں ’کدریاوکا‘ اور ’سفید البینا‘ کا انتخاب کیا گیا۔ جنہیں باقاعدہ روسی ریڈیو پر متعارف بھی کروایا گیا۔ چونکہ روسی زبان میں بھونکنے کو لائیکا کہا جاتا ہے اسی مناسبت سے کدریاوکا کا نام ’لائیکا‘ رکھ دیا گیا۔ اگرچہ البینا نے لائیکا سے زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اس نے کچھ عرصے پہلے ہی بچوں کو جنم دیا تھا، لہٰذا خلائی سائنسدانوں نے تین سالہ لائیکا کا انتخاب کیا

سوویت ڈاکٹر اس امر سے واقف تھے کہ بے زبان جانور کے لیے یہ ایک خودکش مشن ہے۔ اگر لائیکا مدار میں گردش کے دوران زندہ بچ بھی گئی تو واپسی کے سفر میں زمین کی فضا کی حرارت اسے جلا کر خاکستر کر دے گی مگر رسک لینا مستقبل کی ضرورت تھی۔ لانچ سے تین دن پہلے لائیکا کو ایک تنگ چیمبر میں رکھا گیا، جہاں صرف چند انچ کی حرکت ممکن تھی

اسے ایک خصوصی تیار کردہ اسپیس سوٹ پہنایا گیا، جس میں سینسرز نصب تھے۔ انٹرنیشنل خلائی پروگرام اور اسپیس سوٹس کی نگران کیتھرین لیوس نے چند سالوں بعد بتایا کہ خلائی گاڑی میں لائیکا کے لیے خوراک انتہائی کم رکھی گئی تھی حالانکہ چند اونس خوراک سے وزن میں زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا

اسی لیے ٹیم میں شامل ایک خاتون ڈاکٹر نے پروٹوکول توڑتے ہوئے لانچ سے کچھ دیر قبل لائیکا کو تھوڑی خوراک دی تھی

سپوتنک ٹو خلائی گاڑی میں ایسے آلات نصب تھے، جن سے لائیکا کی دل کی دھڑکن اور حرکات براہ راست نوٹ کی جا سکتی تھیں۔ ابتدائی چند منٹ میں ہی انتہائی دباؤ اور شور کے باعث لائیکا کے دل کی دھڑکن معمول سے تین گنا اور اس کی سانس کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی

اس کے باوجود یہ بہادر جانور دو ہزار میل کے فاصلے پر زمین کے مدار تک زندہ پہنچنے میں کامیاب رہی اور تقریباً ایک سو تین منٹ تک خلائی گاڑی کے ساتھ زمین کے گرد محو گردش بھی رہی

سنہ 1993 میں اس مشن کے ایک میڈیکل ڈاکٹر اور ڈاگ ٹرینر اولیگ گیزینکو نے انکشاف کیا کہ خلائی گاڑی کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے چار مدار مکمل کرنے کے بعد اس کے اندر درجۂ حرارت نوے سینٹی گریڈ ڈگری تک بڑھ گیا تھا، جس کے باعث چند ہی منٹ میں لائیکا کی موت واقع ہو گئی

مگر سپوتنک ٹو خلائی گاڑی اپنے مسافر کے بغیر تقریباً پانچ ماہ تک زمین کے مدار میں گردش کرتی رہی

اگرچہ لائیکا لانچ کے کچھ دیر بعد ہی مر گئی تھی مگر سوویت حکام یہ جھوٹا دعویٰ کرتے رہے کہ لائیکا 12 نومبر تک زندہ رہی۔ البتہ سوویت کمیونسٹ نے نو دن بعد اعلان کر دیا تھا کہ لائیکا اب مر چکی ہے مگر مشن کے جو سرکاری دستاویزات روسی خلائی ایجنسی کی جانب سے جاری کی گئیں ان میں حقیقت بیان نہیں کی گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close