اس سے قبل کہ چارلیروئی (موجودہ بیلجیئم کا شہر) کی فتح کے بعد فرانسیسی فوج مزید ممالک پر چڑھائی کرتی، آسٹریا اور ہالینڈ کی افواج نے جوابی حملے کا فیصلہ کیا
26 جون 1794 کو موجودہ بیلجئیم کے شہر فلورس میں دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اتحادی فوجوں کی کمان فیلڈ مارشل کوبرگ کے ہاتھ میں تھی۔ جبکہ مقابلے پر فرانسیسی فوج کی قیادت جنرل جین بپٹسٹ جورڈن کر رہے تھے۔ دونوں ہی فوجوں کے پاس سپاہیوں کی تعداد لگ بھگ 50 ہزار تھی
لیکن فرانسیسی جنرل جورڈن کو دشمن فوج پر فضائی سبقت حاصل تھی۔ وہ اس طرح کہ سال 1783 میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں جیکوس چارلس اور رابرٹ برادرز نے ہائیڈروجن کی مدد سے غبارے اُڑانے کا کامیابی سے تجربہ کیا تھا۔ اس میں مزید بہتری لاتے ہوئے ان پر انسانوں کا سفر ممکن ہوا تو فرانسیسی حکومت نے انہی غباروں کا فوجی مقاصد کے لیے استعمال کا فیصلہ کیا
گو ان غباروں سے دشمن کی نگرانی اور جاسوسی ہی ممکن تھی۔ مگر جنگی تاریخ کے ماہرین کے مطابق دوران جنگ یہ غبارے دشمن فوج کے اعصاب پر سوار رہتے تھے۔
ابتدائی طور پر فرانسیسی حکومت نے اس پراجیکٹ کی کمانڈ ایک سویلین ماہر کیمیا جین میری جوزف کے ہاتھ میں دی جب کہ لیفٹینٹ نکولس لہومونڈ نے ان کے نائب کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں
اس فورس کے لیے 50 ہزار لیورس(4179 تک یہ کرنسی فرانس میں رائج رہی) کا شاہی بجٹ منظور کیا گیا اور پھر 2 اپریل 1794 کو باقاعدہ قانون کی منظوری سے اسے فوج کا حصہ بنا دیا گیا۔ یوں ایک طرح سے دنیا میں پہلی ائیر فورس بھی وجود میں آ گئی۔ اس فوجی یونٹ کے قیام کے چند ماہ بعد ہی آسٹریا اور ہالینڈ کی افواج سے جنگ میں انہیں آزمانے کا فیصلہ ہو گیا۔
غبارے جاسوسی کیسے کرتے تھے؟
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکہ کی جانب سے ریاست کیرولائنا کے ساحل کے قریب مشتبہ چینی جاسوس غبارے کو مار گرانے کے بعد غباروں کے ذریعے جاسوسی کا ذکر ہو رہا ہے، تاہم ماضی میں بھی غباروں کے ذریعے جاسوسی کی جاتی تھی
ماضی میں ان غباروں کا استعمال انتہائی سادہ تھا، یعنی اس کے ساتھ لٹکنے والی باسکٹ میں دو افراد سوار ہوتے جبکہ غبارے کو لمبے رسوں کی مدد سے نیچے زمین پر موجود افراد زیادہ حرکت سے روکے رکھتے۔ اوپر موجود دو افراد میں سے ایک شخص غبارے کو کنٹرول کرتا اور نیچے موجود افراد سے بھی رابطہ رکھتا۔ جبکہ دوسرا شخص ٹیلی سکوپ سے دشمن کی پوزیشن اور حرکت کا جائزہ لیتا۔ پھر یہ تمام اطلاعات مختلف نشانات کے ذریعے نیچے موجود فوجی کمانڈ تک پہنچائی جاتیں تھیں
فلورس کے میدان میں جیسے ہی جنگ کا آغاز ہوا تو فرانسیسی فوج کی جانب سے غبارہ فضا میں بلند تھا۔ یوں فوراً ہی آسٹریا اور ہالینڈ کی افواج کی تمام پوزیشنز کا فرانسیسی کمانڈر جورڈن کو علم ہو گیا۔ اگرچہ فرانسیسی جنرل کو دشمن افواج پر نفسیاتی برتری حاصل تھی، تاہم کوبرگ کی زیر کمان فوج نے فرانسیسیوں پر تابڑ توڑ حملے کیے
اس قدر سخت حملوں کے باوجود اتحادی فوج فرانسیسیوں کے قلب کو بڑا نقصان نہ پہنچا سکی۔ اور پھر جنرل جورڈن کی زیر کمان فوج نے مل کر جوابی حملہ کیا تو اسے فضا میں غبارے سے لٹکتے ہوئے اہلکاروں سے برابر اطلاعات مل رہی تھیں۔ ان اطلاعات کی مدد سے فرانسیسیوں نے جلد ہی فیلڈ مارشل کوبرگ کی زیر کمان اتحادی فوج کو میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنگ کے کچھ عرصے بعد جنرل جورڈن نے فتح میں اس غبارے کے کردار کو معمولی قرار دیا، شاید وہ فتح کے کریڈٹ میں کسی اور کی شمولیت سے گریزاں تھے۔ بہر حال فوج کے اس فضائی یونٹ میں مزید دو غباروں کو بھی شامل کیا گیا۔ ان میں سے ایک غبارہ جرمن شہر ورزبرگ میں فرانسیسی فوج کی شکست کے بعد آسٹرین فوج کے ہاتھ لگ گیا جو آج بھی ویانا کے میوزم میں موجود ہے.
بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)